• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تو احسن اقبال پر حملے کی مذمت، ملک کی تمام سیاسی، عسکری اور صحافتی قیادت نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے مگر ان مذمتوں کے درمیان کسی کو یہ خیال آیا کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیوں ایک یتیم نوجوان عابد حسین نے ملک کے وزیر داخلہ پر حملہ کیا؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ ووٹ کے تقدس کی بات کرنے والوں نے کبھی ووٹر کا احترام کیا ہے، کبھی اس کے دکھوں کا مداوا کیا ہے؟ میں پچھلے چند کالموں میں یہ بات تسلسل سے کررہا ہوں کہ پچھلے پینتیس چالیس سال میں جن لوگوں نے حکمرانی کی ہے انہوں نے ملکی مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ان کی حکمرانی نے لوگوں کو بھوک، مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ کیا حکمرانوں نے ان مسائل سے آنکھیں بند نہیں کئے رکھیں؟ خیر یہ ایک طویل بحث ہے، ابھی احسن اقبال کی بات کرتے ہیں۔
ملک کے وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال پر حملہ چھ مئی کو ہوا، ملزم عابد حسین نے پانچ مئی کو اپنے فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ کر رکھا ہے.....’’لے او یار حوالے رب دے‘‘ یہ جملہ عابد حسین کے مذہبی رجحانات کا عکاس ہے۔ ملزم کا تعلق ویرم گائوں سے بتایا جارہا ہے اور یہ حملہ کنجروڑ میں ہوا۔ کنجروڑ ایک قصبہ ہے، قیام پاکستان سے پہلے یہ قصبہ ہندو تاجروں کا مرکز تھا۔ جموں و کشمیر سے آنے والے نالے بسنتر کے کنارے اس قصبے سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر ملزم کا گائوں ویرم دتاں ہے۔ یہ گائوں بھی قیام پاکستان سے پہلے ہندو آبادی پر مشتمل تھا۔ اس گائوں میں اب بھی ہندوئوں کی نشانی، مندر ہے۔ کئی کتابوں کو تخلیق کرنے والے وارث سرہندی کنجروڑ ہی میں رہا کرتے تھے، جن لوگوں کو وارث سرہندی کا علم نہیں وہ لغاتِ وارث کا مطالعہ کریں، وارث سرہندی نے اردو اور انگریزی کی ڈکشنری مرتب کی۔ کنجروڑ سے دو تین کلو میٹر دور ایک گائوں چندر کے ہے۔ یہ گائوں ڈاکٹر اسد محمد خاں کا ہے۔ ڈاکٹر اسد محمد خاں، نواز شریف کے سیاسی استاد جنرل ضیاء الحق کے دور میں پٹرولیم کے وفاقی وزیر تھے۔ اس گائوں کے قریب ہی دھنی دیو، قیام پور، کالا قادر اور علی آباد جیسے گائوں ہیں، دھنی دیو، قیام پور نے افضل احسن رندھاوا جیسا پنجابی کا شاعر پیدا کیا۔ افضل احسن رندھاوا بھٹو دور میں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ کالا قادر تو آپ جانتے ہی ہیں کہ فیض احمد فیضؔ کا گائوں ہے، جاٹوں کے ان دیہات میں تتلے، رندھاوے، واہلے اور کاہلوں آباد ہیں۔ علی آباد وہ گائوں ہے جہاں چند ماہ پہلے احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے اگلے دن لاہور میں میاں نواز شریف پر جوتا پھینک دیا گیا تھا۔ دونوں ملزمان کا مؤقف ایک ہی تھا کہ انہوں نے ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کرنے کی کاوش پر ایسا کیا ہے۔احسن اقبال پر گولی چلانے والے ملزم عابد حسین کا بھی یہی موقف ہے۔ آج وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کہہ رہے ہیں’’ گالی سے شروع ہونے والی سیاست گولی پر پہنچ گئی ہے، احسن اقبال پر حملے سے پاکستان کا دنیا میں برا تاثر گیا.....‘‘ ۔
نارووال میں احسن اقبال کی سیاست کی ابتدا بھی گولیوں کے استقبال سے ہوئی تھی۔ 1988ءمیں نارووال سے اسلامی جمہوریہ اتحاد کے امیدوار انوار الحق چودھری، شکر گڑھ سے انور عزیز چودھری اور ظفر ووال سے سری نگر کالج کے فارغ التحصیل چودھری سرور آف روپوچک تھے۔ احسن اقبال کے حصے میں قومی حلقہ تو نہ آسکا، انہوں نے آزاد حیثیت میں ایک صوبائی حلقے سے امیدوار بننے کی کوشش کی مگر وہاں سے مسلم لیگی امیدوار جموں ہائوس والے میاں رشید نے ان پر گولیاں برسائیں۔ واضح رہے کہ آج کل میاں رشید ظفر ووال کی نشست سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، جب 1989ء میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف آئی جے آئی تحریک عدم اعتماد لائی تو انور عزیز چودھری (دانیال عزیز کے والد) اور انوار الحق چودھری نے آئی جی آئی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یوں نارووال کا قومی اسمبلی کا حلقہ یتیم ہوگیا، یتیمی کے اس عہدمیں کبھی وہاں سے مصطفیٰ جتوئی تو کبھی غوث علی شاہ منتخب ہوتے رہے، جہاں کنجروڑ ہے، اس صوبائی حلقے سے خود میاں نواز شریف منتخب ہوتے رہے۔ 1993ء میں پہلے نواز شریف نے امیر ملت پیر جماعت علی شاہ کے پوتے سید منور جماعتی کو لارا لگائے رکھا اور پھر ٹکٹ احسن اقبال کو دے دیا۔ احسن اقبال وہاں سے صرف 2002ء کا الیکشن ہارے، جب کرنل(ر) جاوید صفدر کاہلوں کی اہلیہ مسلم لیگی امیدوار رفعت جاوید کاہلوں نے انہیں شکست دی تھی جبکہ ساتھ والے حلقے سے سابق وزیر صحت نصیر خان منتخب ہوئے تھے۔ یہ تمام سیاسی حالات لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ علاقہ کس قدر مسلم لیگی ہے پھر ایسے علاقے میں ایسے واقعات کیوں ہورہے ہیں؟
اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا بہت اہم ہے، وہ کہتے ہیں’’اگر پنجاب میں اچھے ہسپتال بنائے ہوتے تو احسن اقبال کو لاہور لانے کی ضرورت پیش نہ آتی، نارووال کے باقی لوگ کہاں علاج کروائیں‘‘۔ ویسے تو علاج کی پیشکش ابرارالحق نے بھی کی تھی، ابرارالحق نے اپنی والدہ کے نام سے نارووال میں ایک شاندار ہسپتال بنا رکھا ہے مگر شاید وہاں اس لئے جانا مناسب نہ سمجھا گیا جیسے بیگم کلثوم نواز کے لئے شوکت خانم جانا مناسب تصور نہیں کیا گیا تھا۔پاکستان کی آبادی کا 65فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ پینتیس چالیس سال میں مہنگائی اور غربت بہت بڑھی ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں، شاید اسی لئے نوجوان ایسی تحریکوں کا حصہ بن جاتے ہیں جو امن و امان کا خیال نہیں کرتیں،بقول سرور ارمان؎
سرکشی کو جب ہم نے ہمرکاب رکھنا ہے
ٹوٹنے بکھرنے کا کیا حساب رکھنا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین