• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رومانی تحریک اور اُردو ادب

 جی۔ایم۔اصغر

رومانیت کی اصطلاح، رومانس یا رومانہ سے مشتق ہے۔ رومانہ جنوبی یورپ کی لاطینی زبان کو کہا جاتا ہے اور رومانس وہ زبانیں ہیں، جو جنوبی یورپ کے علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ رومانہ زبان کا ابتدائی ادب عشق و محبت کی قدیم داستانوں پر مبنی تھا، جس میں خیالاتی واقعات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا گیا تھا ۔اس قسم کا ادب جس کی بنیاد، خیال آرائیوں پر ہو، رومانی ادب کہلانے لگا۔

ڈاکٹر احسن فاروقی اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔’’ لاطینی لفظ رومانس ادنی لوگوں کی زبان کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس سے آگے بڑھ کر یہ لفظ ان بے ڈھنگے مذا قِ سلیم سے گرے ہوئے قصوں کے لیے استعمال ہوا، جو ادنیٰ لوگوں میں عام تھے۔ یہ قصے اُن اعلیٰ ترین ادب پاروں کی ضد تھے، جن کو کلاسک کہا جاتا تھا۔ پروفیسر سید اختر احمد اختر، اختر شیرانی کے مجموعے ’’لالہ طور‘‘ کے پیش لفظ میں رومانیت کی توضیح ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ’’رومانیت ایک خاص انداز کی کیفیتِ زندگی کا نام ہے۔ نفس کی ایک مخصوص حالت کو رومانیت سے تعبیر کرتے ہیں، جس میں جذباتی کیفیات عقلی کیفیات سے زیادہ نمایاں ہوتی ہیں اور تخیل کی سمندِ ناز کو ایک تازیانہ لگ جاتا ہے۔ ‏ڈاکٹر انور سدید کے خیال میں رومانیت اس کیفیت کو پالینے کا نا م ہے، جب انسان کا مادی وجود ہمہ تن جذبے میں تحلیل ہو کر جسم کو، پَر لگا دیتا ہے۔ لوکس نے رومانیت کو پرستان کےایسے شہزادے سے تشبیہ دی ہے، جو حُسنِ خوابیدہ کی تلاش کر رہا ہے اور اس کے تھکے ماندے جسم کو الف لیلا کی خیالی شہزادی سکون مہیا کرتی ہے۔

اٹھارہویں صدی کے وسط تک جب سائنسی ترقی اور نظریات نے ہر چیز کو عقل کا تابع بنا دیا اور وکٹوریہ عہد کی کلاسیکی تحریک نے مادی نظریات کو فروغ دینے کی کوشش میں روحانی و جذباتی تقاضوں کو کچل کر رکھ دیا تو حساس اذہان بے چین ہو کر اس مصنوعی قید سے فرار کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ اس طرح رومانی تحریک کا آغاز ہوا، جو درحقیقت کلاسیکی تحریک کا ردِ عمل تھا۔ رومانیت کی ابتدا کا سہرا عظیم مفکر روسو کے سر ہے، جس کا خیال تھا کہ علم، انسان کو بہتر بنانے کے بجائے ہوشیار بنا دیتا ہے۔ فلسفہ، اخلاقی طور پر بیمار اور شعور محرومی کے احساس سے دوچار کرتا ہے، اس لیے تخیل کی قوت، عقل پر ہر لحاظ سے فوقیت رکھتی ہے۔ روسو نے سائنسی دنیا میں فرد کی بے بسی فطری جذبات کی عدم تسکین اور تھکا دینے والی یکسانیت سے بیزار ہو کر رومانی تحریک کا علمِ بغاوت بلند کیا، بعد ازاں گوئٹے، برنز ولیم، بلیک کالرج، ورڈز ورتھ اور شیلے وغیرہ بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ رومانی تحریک کو آگے بڑھانے میں شیکسپئر نے بھی اپنا کردار ادا کیا، جو یونی ورسٹی کا سند یافتہ نہ ہونے کے باوجود ادبی تخلیق کے عظیم مرتبے پر فائز ہوا اور اس نظریے کو تقویت دے گیا کہ تخلیق کا رشتہ کسی ایسی طاقت کے ساتھ قائم ہے، جو پسِ پردہ رہ کر اپنی لطافتیں نچھاور کرتی ہے۔

یورپ کی رومانی تحریک کا اہم محرک ’’انقلابِ فرانس‘‘ تھا۔ نئےحکام نے کسی مثبت تبدیلی کو عمل میں لانے کے بجائے پرانے جاگیر داری نظام کو ہی مستحکم کرنا شروع کر دیا، جس سے عدم مساوات کا خواب چکنا چور ہو گیا اور لوگ مایوسی کا شکار ہو کر دیگر پناہ گاہیں تلاش کرنے لگے۔ رومانی تحریک بنیادی طور پر مشینی زندگی کے خلاف فرد کی صدائے احتجاج تھی، جس نے انسان کو مادی زندگی سے نکال کر کیف و مستی کی دنیا سے روشناس کرایا۔ رومانی تحریک نےخیال، ہیئت اور زبان کا پرانا ڈھانچہ بدل ڈالا اور قاری کو شعور کی سطح سے لاشعور کی نامعلوم سطح تک سفر کرنے کا فن سکھایا۔

اردو ادب میں رومانی تحریک دراصل سر سید احمد خان کی عقلیت پسند اور مقصدی تحریک کا ردِعمل تھی۔ سر سید کی تحریک نے اردو ادب میں حقیقت نگاری اور مقصدیت کو اتنی ترجیح دی کہ جذبات کچل کر رہ گئے۔ ڈ اکٹر سید عبداللہ کا یہ کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ سرسید کی ادبی تحریک نے جہاں پرانے ادب کے بہت سے خلاء پُر کیے، وہاں خود بہت سے شگاف ڈال دیئے، چونکہ بنیادی طور پر ادب بہر حال جذبات و تخیل کا محتاج ہوتا ہے۔ برصغیر میں رومانی تحریک کو سیاسی حالات نے بھی فروغ دیا۔ انگریزوں کے قبضے نے لوگوں کے دلوں میں جذبۂ حریت کو اُبھارا اور ان میں آزادی کے لیے تڑپ پیدا کی۔ جنگِ عظیم کی خوں ریزی اور تباہ کاری نے زندگی اجیرن کردی۔ محرومی، غم و غصہ اور رنج و افسردگی ہندوستانیوں کا مقدر بن گئے۔ ان حالات میں سکون کی تلاش شروع ہوئی اور انسان ایسے جہان کی تلاش کرنے لگا، جو اُس کی خواہشات کی تسکین کر سکے۔ اردو ادب میں یہ رجحان رومانیت کے فروغ کا سبب بنا۔

اردو نثر میں رومانیت کی ابتدا ترکی تراجم سے ہوئی۔ ترکی میں رومانیت کا خاصا ذخیرہ موجود تھا، جسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا، اس کام میں سب سے نمایاں حصہ سجاد حیدر یلدرم کا ہے۔ جذباتی سطح پر رومانیت کی شکل کو محمد حسین آزاد اور عبدالحلیم شرر نے ابھارا اور ان اسالیب کو فروغ دینے کی کوشش کی، جن میں ادیب کا تخیل جذبات کی رو کے ساتھ چلتا ہے اور قلم اس کے وجدان سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔

رومانی تحریک کو فروغ دینے میں رسالہ’’ مخزن‘‘ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔اس سے ایسے بہت سے ادیب ابھرے، جنہوں نے رومانی تصورات کو فروغ دیا ۔ان میں علامہ اقبال، سجاد حیدر یلدرم، ابوالکلام آزاد اور علامہ نیاز فتح پوری خاص طور پر قابل ِذکر ہیں، اس تحریک نے کم و بیش چالیس سال تک ہر صنفِ سخن کے ادباء کو اپنے داخلی جادو اور لاابالی پن سے متاثر کیے رکھا، لیکن آگے چل کر رومانی تحریک کو بھی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ داخلی تجربے کی لگن اور جذبات کی رو نے اپنےلیے دو راستے نکالے۔ ایک ان میں سے حلقۂ ارباب ذوق کی سمت مڑ گیا اور دوسرا ترقیِ پسند مصنفین کی صفوں میں شامل ہو گیا۔ اس طرح رومانی تحریک زوال پذیر ہوئی۔

تازہ ترین