نعیم الدین نظر
میں بہت خوش تھا کہ اپنا مل گیا
بھیڑ میں لوگوں کو رستہ مل گیا
رات الماری سے کچھ خط گرپڑے
میرے جینے کا سہارا، مل گیا
شہر کی گلیاں بلاتی رہ گئیں
جب کھنڈر میں اک ٹھکانہ مل گیا
سر چھپانے کو جگہ کوئی نہ تھی
پھر ہمیں پیڑوں کا سایہ مل گیا
اُس کی چوکھٹ پر دیے جلتے رہے
کوئی مقتل میں بھٹکتا مل گیا
تتلیوں کی آرزو میں آج پھر
اُس کے قدموں میں زمانہ مل گیا
ہر گلی میں دفن ہیں یادیں، نظر
ہر گلی میں ایک کتبہ، مل گیا