طفیل عامر
کوچۂ جاں سے دل گزرتا ہے
یہ تو جیتا ہے اور نہ مرتا ہے
کس طرح کی ہے رسم، دنیا کی
کوئی کرتا ہے، کوئی بھرتا ہے
وہ جو تیرا نصیب ہیں، اُن کے
چاند آنگن میں کب اُترتا ہے
عشق کی دین ہے تو ایسا ہے
حسن ورنہ کہاں سنورتا ہے
تیرے خوابوںکے دیپ روشن ہیں
پل تری یاد میں، نکھرتا ہے