• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایران کا جوہری معاہدہ خطرے میں ہے ؟

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گو تریز نے امریکاپر زور دیا ہے کہ وہ ایران سے کیےگئےجوہری معاہدے سے باہر نہ نکلے کیوں کہ اگر یہ معاہدہ باقی نہ رہا توحالات جنگ کی طرف جاسکتےہیں۔اگر ایسا ہوا تو ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ بات کہاںتک جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2015میں ہونے والا جوہری معاہدہ ایران کے ساتھ چھ بڑی طاقتوں کا معاہدہ ہے اور اسے اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتاجب تک اس کا متبادل کوئی معاہدہ سامنے نہیں آتا۔

صدر ٹرمپ ابتدا ہی سے اس معاہدے کی مخالفت کر رہے تھے۔مگر سابق صدر بارک اوباما بہ ہرطور یہ معاہدہ کرنا چاہتے تھے جس کے لیےان کے وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اعلی سفارتی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ حالاں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہونےسفارتی آداب کو پسِ پشت ڈال کر واشنگٹن میں صدر اوباما کی اس معاہدے سے متعلق پالیسی کے خلاف خوب آگ ا گلی تھی۔ان دنوں امریکا اور اسرائیل کے تعلقات بہت متاثر رہے۔مگر روس، برطانیہ اورفرانس جوہری معاہدے کے حق میںتھے۔ اس لیے اسرائیل کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں اور سو جتن کرنے کے بعد معاہدہ طے پا گیا تھا ۔تاہم صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعدسےاس معاہدے پرتنسیخ کی تلوار لٹک رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے چند اہم د ستاویزات افشاء کی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ ایران خفیہ طورپر اپنے خاص ٹھکانوں میںیورینیم افزودہ کررہا اورجوہری ہتھیار تیار کرنے کے د یگر لوازمات بھی تیار کررہا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ اس کے پاس ایسے شواہد ہیں، مگر ایران مسلسل اس کا انکار کر رہا ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران ہر قیمت پر جو ہر ی ہتھیارتیار کرناچاہتاہے۔اس کے جواب میں ایک بار پھر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔ایران کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ معا ہدہ ہونےسے قبل بھی ایسی بے سروپا باتیں کرتے رہے ہیں اور اب وہ اسرائیل اور چند اہم عرب ممالک کے ساتھ مل کر وہی باتیں دہرا رہے ہیں۔جواد ظریف نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ اگر امریکامعاہدہ منسوخ کر نے اور اس سے الگ ہونے کی بات کرتا ہے تو اس کی تما م تر ذمے داری خود امریکا پر عاید ہو گی ۔

دوسری جانب یورپی ممالک میں مجموعی طورپراس معا ہدے کی حما یت کی جا رہی ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ کے ترجمان سیموئیل کے مطابق برطانیہ اس معاہدے کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے یورپ میں فرانس کے صدر میکرون سے ملاقات کی تھی تو صدر میکرون نے اس معاہدہ کی ضرورت کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو بریف کیا تھا اور اسے معطل یا منسوخ کرنے کے بعدکے ممکنہ حالات پر بھی روشنی ڈالی تھی۔ 

مگر صدر ٹرمپ نے صد ر میکرون کی کسی بھی دلیل کو تسلیم نہیں کیاتھا جس سے دونوں ملکوں کے سربراہوں کے مابین کشیدگی واضح ہوگئی تھی ۔ اس موقعےپر جرمنی کی چانسلر اینجیلا مرکل نے صدر میکر ون کی حمایت کی تھی ۔ واضح رہے کہ فرانس اور ایران کے بہت پرانے تعلقات ہیں۔ معاہدہ کے نتیجے میںایران پرسے جزوی اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے بعد ایران نے فرانس ،برطانیہ اور اٹلی سے بڑے اقتصادی معاہدے کیے تھے۔ آج بھی ایران کے بیرونی دنیا میں سب سے اچھے تعلقات فرانس سے ہیں۔

ادہر امریکی کانگریس کی دفاعی کمیٹی کے سامنے ا مر یکی آرمڈ کنٹرول کے سربراہ نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جوہری معاہدےکی خلاف ورزی کے حوالے سے جو شہادتیں پیش کی گئی ہیں اس حوالے سے ایران نے چپ سادھ رکھی ہے اور تاحال ہما رے خط کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔دوسری طرف امریکی کانگریس میں ایک اہم متعلقہ ادارے نے یہ رپورٹ پیش کی ہے کہ ایران کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ تاہم یہ متضاد رپورٹس اور خبریں عام ہیں۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہونے حال ہی میں آسٹریلیا،بھارت اوربرطانیہ کے وزرائے اعظم سے را بطے کر کے انہیں ایران کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا ۔ان کا اصرار تھا کہ ایران جوہری معاہدہ کرنےکے با و جود اپنی جوہری صلاحیتوں میں اضافے کی درپردہ کو ششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔

اس معاہدے کے حوالے سے گزشتہ دنوں عرب نیوز کے تبصرہ نگار عبدالرحمن الرشیدی نے لکھا کہ اسرائیل جوہری معاہدہ ہونےکے بعدسے ایران کی تمام سر گر میو ں کے بارے میں عالمی برادری کو بتاتا رہا ہے، مگر چوں کہ اسرائیل خود فریق ہے اور اس کا ایران سےسیاسی اختلاف ہے تو اس پر کم دھیان دیا جا رہا ہے۔ الرشیدی لکھتے ہیںکہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ فوری طورپر ا سر ائیل کے الزامات کی چھان بین کر کےحقیقت کا پتا لگا ئے تو یہ اقدام درست اور مناسب ہو گا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایران معاہدہ کرنے کے باوجود اپنی جوہری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے؟حالاں کہ ایران کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جوہری معاہدہ کرنےکے بعد سے صرف اپنی ر و ا یتی دفاعی صلاحیتوں کو فروغ دینےکےلیے کام کررہا ہے ۔اس حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں ایک اہم پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔یورپی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جو کچھ اس پریس کانفرنس میں کہا اس بارے میں وہ پہلے ہی صدر ٹرمپ کو اعتماد میں لے چکے تھے۔ 

پریس کانفرنس میں اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں نصف ٹن سے زاید دستاویزات او ر شواہد ملے ہیںجن سے ایران کی جوہری سرگرمیوںکا پتاچلتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایران عالمی برادری کو دھوکا دے رہا ہے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ امریکا کو یہ معاہدہ ختم کر دینا چاہیے۔تاہم دیگر بڑی طاقتوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ ان مما لک نے معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے پر زور دیا۔

اس حوالے سے فرانسیسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیانات اہم ہیں۔ان میں سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے پیش کردہ دستاویزات اور لگائے گئے الزامات کی رو سے ایران کے ساتھ جوہری معادہ جاری رکھنازیادہ اہم ہوگیا ہے۔اسی طرح ایک اور بیان میں کہا گیاکہ یورپی یونین کے رہنمائوں کی تمام تر کوششوں کے باوجودایسا لگتاہے کہ صدر ٹرمپ ایران سے کیا گیا معاہدہ ختم کر دیں گے۔

اس معاہدے کے ضمن میں 12مئی حتمی تاریخ ہے ۔ امریکا کو فیصلہ کرنا ہے کہ معاہدہ رہے گا یا ختم ہو گا۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں فرانس کے صدر میکرون نے وا شنگٹن کا تین روزہ دورہ کیا۔وہ صدر ٹرمپ کو قائل کرنے کے لیے متعدد تجاویز لے کر گئے تھے۔انہوں نے تجا و یز دیںکہ ایران کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کے خدشات دور کرنے کے لیے ایران پر مزید چیک لگائے جاسکتےہیں۔ایران کے جوہری ہتھیار بنانےکے ا مکا نا ت اور خدشات کو دوسرے طریقوں سے بھی دور کیا جا سکتا ہے۔

مگرپھر اچانک ایران کے صدر حسن روحانی نے فر ا نس کے صدر میکرون سے فون پر بات چیت کرتے ہو ئے یہ واضح کر دیا کہ جس معاہدے کو سات ممالک نے طے کیاتھا اس کے بارے میں صدر میکرون کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس میں ترمیم کی بات کریں۔ان کا کہنا تھا کہ معا ہدے میں اب کوئی نئی شق شامل نہیں کی جائے گی ۔صدر روحانی نے مزید کہا کہ اگر ایران نے محسوس کیاکہ اس کے مفادات کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہے تو وہ خود معاہدےسے باہر نکل آئے گا۔

اس تناظر میں ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ صدر ٹرمپ نے جس جلد بازی اور جوش سے شمالی کوریا کے صدر سے مذاکرات پر رضا مندی دکھائی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دراصل شمالی کوریا کا باب جلد بند کر کے اپنی پوری توجہ مشرق وسطی پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ 

ا س لیے یہ سارا معاملہ کچھ اس طرح چل رہا ہے۔ شام میں امریکی طیاروں کی بم باری، اسرائیلی طیاروں کی جانب سے شام کی نگرانی روس، ایران ،اور ترکی کا احتجاج ، مگر مسئلہ ایران ہے جس کے حوالے سےاسرائیل اور چند عرب ممالک کا امریکا پر دبائو ہے۔دیکھیے یہ دباو کیا رنگ لاتا ہے۔

تازہ ترین