کوئٹہ (نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں، انہیں دشمن نہ سمجھا جائے، حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دے، میرے مطابق یہ نسل کشی ہے جس پر سوموٹو نوٹس لینا پڑا، ہم نے ہزارہ برادری کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ ریمارکس انہوں نے ہزار برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دور ان دی۔ عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو15دن میں تمام معاملات کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ہے۔بلوچستان کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ہڑتالوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان کو حکم دیا ہے کہ جو ڈاکٹرز سیاست میں ہیں انہیں فارغ کر دیں، بدمعاشی نہیں چلے گی، ینگ ڈاکٹرز کے وظیفے بند کردئیے جائیں۔ خاران میں 6 مزدورں کی ہلاکت کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس نے کمپنی کے سی ای او کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت ہوئی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ رجسٹری میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں ان واقعات کی مذمت کرسکیں۔ میرے مطابق یہ نسل کشی ہے جس پر سوموٹو نوٹس لینا پڑا چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی ایف سی کہاں ہیں؟ نمائندہ ایف سی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں ان کا نمائندہ موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ہزارہ برادری کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ وکیل ہزارہ برادری نے بتایا کہ ہمارے معتبرین سے بھی سکیورٹی واپس لے لی گئی اٹھائیس سال سے ٹارگٹ کلنگ جاری ہے کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے استفسار کیا کہ ٹارگٹ کلنگ کی رپورٹ بنائی ہے۔ آئی جی پولیس نے ٹارگٹ کلنگ سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ آئی جی پولیس بلوچستان نے بتایا کہ اب حالات میں کافی بہتری آگئی ہے آئی جی رپورٹ کے مطابق 2012 سے اب تک124 افراد فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے 2012 سے اب تک 106 سکیورٹی اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی رواں سال اٹھائیس سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکورٹی فورسز کی شہادت کا ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے کیا تعلق ہے؟ اس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ ہماری بہت محنت ہے، جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں کمی آئی ہے، سی ٹی ڈی نے اغواء برائے تاوان کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دے، یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کیلئے بات کی جائے۔ اس پر وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے 2013 کے سیکورٹی پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگراس پلان پر عملدرآمد ہو تو مسئلہ حل ہو جائے گا؟چیف جسٹس ثاقب نثار کے استفسار پر وکیل افتخار علی نے بتایا کہ اس پلان کو ازسر نو دیکھا جائے تو مزید بہتر ہوسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکورٹی پلان 2013 کو بہتر بناکر اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کیلئے بات کی جائے، جب تک یہ معاملات طے ہوں گے تو اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی ہمیں دیکھنا ہوگا۔سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہم ایک کمیٹی تشکیل دینگے، جو یہ معاملات دیکھے گی، آپ نے یہاں سے غیر مطمئن نہیں جانا، ہم آپ کو سارا دن سنیں گے۔علاوہ ازیں جمعہ کوسپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے بلوچستان کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق،ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر یاسرخوستی اور دیگر پیش ہوئے ۔سماعت کے دوران چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق نے عدالت میں پیش ہو کربتایا کہ اسپتالوں میں بہتری لانے کیلئے کام کررہے ہیں،حکومت نے اسپتالوں کی بہتری کیلئے ایک ارب روپے جاری کیے، 571 ڈاکٹرز کی بھرتیوں کے آرڈرز ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ینگ ڈاکٹرز سیاست میں ملوث ہیں جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بدمعاشی نہیں چلے گی، ینگ ڈاکٹرز کے وظیفے بند کردئیے جائیں جو ڈاکٹرزسیاست میں ہیں انہیں فارغ کردیں۔ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر یاسرخوستی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے او ر موقف اختیار کیا کہ ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوئے، ہمیں وظیفے کی مد میں 24ہزار روپے دئیے جاتے ہیں جبکہ دوسرے صوبوں میں 60 ہزار روپے وظیفہ دیا جاتاہے جس پر بینچ کے ججز نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو صوبہ کے حالات کے مطابق وظیفہ دیا جاتاہے ۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ کیا آپ ینگ ڈاکٹرز کو وظیفہ دے رہے ہیں؟ اورنگزیب حق نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرز کے وظیفہ میں 4 ہزار روپے اضافہ کیا جارہاہے اور اب وظیفہ 30 ہزار ہوجائے گا۔ اس موقع پر پاکستان پیرامیڈیکل اسٹاف فیڈریشن کے نمائندہ نے بھی عدالت کو آگا ہ کیا کہ پیرا میڈیکس اسٹا ف کاسروس اسٹرکچر نہیں ہے اور کوئی الائو نس بھی نہیں دیئےجا رہے، اس پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈاکٹرز کی ہڑتال کی مثال دنیا میں صرف پاکستان میں ملتی ہے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری صحت کو ینگ ڈاکٹرز کے مسائل حل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں خاران میں مزدوروں کے قتل سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی گئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے نجی کمپنی کے سی ای او کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔عدالت نے کمپنی کے سی ای او کو تحریری جواب بھی جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ خاران میں مزدوروں کے قتل کیس کی سماعت 16 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔واضح رہے کہ قبل ازیں چیف جسٹس نے خاران کے علاقے میں چھ مزدروں کے قتل کا از خود نوٹس لیا تھا اورآئی جی بلوچستان اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو نوٹس جاری کرتے ہو ئے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔یاد رہے کہ چار مئی کو خاران میں مزدور علاقے میں قائم ایک موبائل ٹاور پر کام کر رہے تھے کہ مسلح شر پسندوں نے ان پر فائرنگ کردی جسکے نتیجے میں 6 مزدور موقع پر ہی دم توڑ گئے اور ایک شدید زخمی ہوگیا تھا۔ ان تمام مزدوروں کا تعلق پنجاب کے علاقے اوکاڑہ سے تھا۔