تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (اکیسویںقسط) بحر میت کی طرف روانگی مقام موسیٰ دیکھنے سے فارغ ہوکر ہم بحر میت Dead See، بحیرہ مردار یا بحرلوط اور مسکن قوم لوط ، مسکن اہل سدوم وغیرہ( یہ سب نام اس علاقے کے ہیں جہاں حضرت لوط علیہ السلام مبعوث کیے گئے اور قوم عذاب الٰہی کا شکار ہوئی تھی) دیکھنے کیلئے روانہ ہوئے ۔وہاں جانے سے پہلے اس علاقے کابھی تھوڑا سا تعارف ہوجائے۔ اس قوم کی طرف بھیجے جانے والے نبی کا نام نامی حضرت لوط علیہ السلام ہے ۔ جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ان کے والد کا نام عمران تھا۔ لوط علیہ السلام کی پیدائش2200سال قبل مسیح ہوئی ۔آپ کی نشو ونما حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیر سایہ ہوئی ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کاآبائی وطن ’’ارUR‘‘ تھا۔جہاں آپ نے سو سال کے قریب قوم کو حق کا وعظ سنایا، توحید الٰہی کی طرف دعوت دی۔ قوم نے ساری زندگی مزاحمت جاری رکھی آخرکار ان کو جلانے کاارادہ کیا۔ حق تعالیٰ نے ان پر نار کو گلزار بنادیا۔ قوم پھربھی نہیں مانی ۔ تب آپ کویہ علاقہ چھوڑ نے کا حکم ہوا۔اس وقت آپ کے ہمراہ آپ کی اہلیہ حضرت سارہ تھی اور ایمان لانے والے بھتیجے حضرت لوطؑ تھے ۔ اتفاق سے ان کی بیوی کا نام بھی سارہ ہی تھا ۔لیکن دونوں کے درمیان فرق صاف تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ مسلمان ہوگئی تھیں۔ اس وجہ سے بعد میں آنے والے سارے انبیاء حضرت سارہ ہی کی اولاد تھے ۔گویاوہ ایمان کے باعث ام الانبیاء بن گئیں۔ جبکہ حضرت لوط کی بیوی کفارکی ہمنوا رہی اور آخرکاراسی کیساتھ عذاب الٰہی کانشانہ بن گئی۔ کتنا فرق ہے ایمان اور کفر میں !!!۔یہ دونوں گھرانے پہلے جبل بیت المقدس آئے پھرچرواہے بادشاہوں کے دور میں مصر پہنچے۔ وہاں بھی حالات ناسازگارپائے تویروشلم واپسی کی راہ لی۔ حضرت ابراہیم تو بیئرسبع (حاران جسے الخلیل کہاجاتاہے جس کا تذکرہ ہم پچھی اقساط میں کرچکے ہیں) فلسطین میں مقیم ہوگئے مگر حضرت لوط کو وہاں سے بیس تیس میل دور ’’سدوم ‘‘(اردن ) کا علاقہ اچھا لگا تو آپ وہیں مقیم ہوگئے سدوم…عمورہ …موآب …مدائن صالح اوردمشق کے درمیان بڑا آباد علاقہ تھا ۔جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں بگڑی ہوئی قوم کی ہدایت کیلئے نبی متعین فرما دیا یہاں کے رہنے والے لوگ نہایت ہی برے کردار والے تھے خوشحالی نے ان کے دماغ خراب کررکھے تھے۔ راستوں میں لوگوں کولوٹنے کیلئے گھات لگا کر بیٹھنا، اغلام بازی (Homosexuality) اور اس طرح کی نافرمانیاں اس قوم کا وتیرہ بن چکا تھا ۔اغلام بازی کے اس برے فعل کانام ہی سدومیت (Sodomy)پڑگیا۔مہمانوں کو لوٹنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔اورلٹے پٹے لوگوں کی بے بسی کاتماشادیکھنا ان کاپسندیدہ مشغلہ تھا ۔ قوم لوط کی عادت بد کا سبب اغلام بازی کی عادت کیسے رواج پائی۔ بعض مفسرین نے کہا کہ یہ علاقہ بڑا سرسبزوشاداب تھا ۔خوشحالی کے باعث اردگرد کے لوگ بکثرت یہاں آتے تھے ۔ شیطان لعین نے بوڑھے کھوسٹ کی شکل میں آکر انہیں مہمانوں کے ساتھ اس طرح لذت حاصل کرنے ، مال جمع کرنے اورڈاکہ ڈالنے کا راستہ بتایا اور بدفعلی کایہ گندہ کام سب سے پہلے اسی قوم نے شروع کیا ۔ اس سے پہلے کی انسانی تاریخ اس خبیث کام سے مکمل ناآشنا چلی آرہی تھی جیساکہ حق تعالیٰ نے فرمایا{ ولوطا اذقال لقومہ اتاتون الفاحشۃ ماسبقکم بھا من احد من العالمین} رفتہ رفتہ یہ قوم اس فعل بدکی عادی ہو گئی ۔حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کونیکی کی راہ اختیار کرنے اور اغلام بازی، ڈاکہ زنی اور سنگدلی کے ساتھ مسافروں کے ساتھ پیش آنے سے منع کیااور برسوں تک تبلیغ میں لگے رہے لیکن حسب عادت قوم نے ان کا مذاق اڑایا ۔انہیں ’’بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں‘‘ کا طعنہ دیا’’ کہو ان سے کہ اتنے پاکباز لوگوں کا ہمارے ساتھ نبھا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہاں سے نکل جاؤ اور اپنے جیسے لوگوں میں جاکررہو‘‘۔{اخرجوا آل لوط من قریتکم انھم اناس یتطھرون }زیادہ المناک بات یہ تھی کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کافرہ رہی لیکن ان کی بچیوں نے اسلام قبول کرلیا اور بستی کے چند لوگوں نے بھی آپ کاساتھ دیا لیکن اکثریت دشمن ہی رہی ۔اور بالآخر حق تعالیٰ نے انہیں تباہ کرنے کاارادہ فرمایا ۔اورعذاب کی وارننگ دینے کیلئے حضرت لوط نبی کے گھر میں نوجوانوں کی شکل میں فرشتے آئے جنہیں دیکھ کرقوم کے بدبخت لوگ خوشیاں منانے لگے اور بیت حضرت لوط کا گھیراؤ کرلیا۔ اور لگے آوازے کسنے کہ’’ اے لوط نکالو ان خوبصورت نوجوانوں کو‘‘ جس پرحضرت لوط علیہ السلام بہت غمزدہ ہوگئے کہ میری حمایت کیلئے میرا تو یہاں خاندان بھی نہیں ہے۔ ماسوا ذات پروردگار کے کوئی سہارا بھی نہیں ہے۔اور یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ میرے مہمانوں کے ساتھ میری قوم کے لوگ برا سلوک کریں گے ،جو بدنامی کا باعث بنے گااور غیراخلاقی حرکت ہوگی ۔تب فرشتے ظاہر ہوئے اور اپنی اصلیت واضح کی کہ اے لوط آپ بالکل بے فکر رہیں ، ہم انسان نہیں ہیں فرشتے ہیں اور ان کو تباہ کرنے کی خبر لے کر آئے ہیں۔ ہم ان حیوانوں کی پہنچ سے بالکل باہر ہیں ۔آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر رات کو نکل جائیں ۔اورکوئی مڑ کر ان کی طرف نہیں دیکھے گا۔حضرت لوط علیہ السلام بہت گھبرائے لیکن یہ فیصلہ اٹل تھا۔ چانچہ رات کو حسب حکم الٰہی حضرت لوط اہل ایمان کو ساتھ لے کر چل پڑے ۔ راستے میں جب یہ قافلہ اہل حق ضغرکے پہاڑوں پرچڑھ رہا تھا۔ قوم لوط کی بداعمالی کی سزا شروع ہوگئی، پہلے طوفان وباد و باراں اورپھرپوری بستی جڑسے اکھاڑکربلندی پر لیجائی گئی اور بلندی سے پلٹاکراسے نیچے پھینک دیاگیا۔اوپر سے پتھربرسائے گئے۔قوم پرجب عذاب آرہاتھا تو کسی مومن نے مڑکر نہیں دیکھا سوائے آپ کی بیوی نے تو وہ بھی وہیں پتھر بنا دی گئی ۔ اس کامجسمہ ابھی تک موجودہے جو ایک حیرت زدہ عورت کا مجسمہ لگتاہے ۔حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کایہ حشربد قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں بیان ہوا ہے۔ سورہ ہود آیات77تا83میں بھی اس کا اجمالی ذکر ہوا۔’’جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہو گئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے(۷۷) اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی‘ وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی‘لوط نے کہا اے قوم (تمہارے گھروں میں تمہاری بیویاں) میری بیٹیوں ( جیسی ) موجود ہیں (تم ان سے خواہش پوری کرو) ۔یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں‘اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں (۷۸)وہ بولے تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری ان بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تویہ بھی جانتا کہ ہم کیا چاہتے ہیں(۷۹) لوط نے کہا کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا(۸۰) اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں ۔پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو تم میں سے کسی کو مڑ کر نہ دیکھنا چاہیئے‘ بجز تیری بیوی کے‘ اس لیے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا‘ یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے‘ کیا صبح قریب نہیں(۸۱) پھر جب ہمارا حکم آگیا‘ ہم نے اس بستی کو الٹ پلٹ کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر تابڑ توڑ کنکریلے پتھر برسائے (۸۲) تمہارے رب کی طرف سے نشان زدہ تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں(۸۳) حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی زندگی کابقایاحصہ ضغر نامی بستی میں گزارااورکیسے گزاراتاریخ بالکل خاموش ہے ۔ وہیں آپ فوت ہوئے اوروہیں دفن ہوئے ۔ ان کی قبرمبارک کی نشاندھی کی جاتی ہے ۔لیکن کسی نبی کی قبر کی سوفیصد یقینی (ماسواء خاتم الانبیاء کی قبر مبارک کے) معلوم نہیں ہے ۔ آپ کی قبرمبارک پر آپ کی تاریخ وفات29جمادی الثانی لکھی ہوئی ہے ۔واللہ اعلم ۔