اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں، جنگ نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جو ملک کو لوٹے گا وہ حساب دے گا، یہ پاکستان ہے یہاں لوٹ مار نہیں ہوگی، 84ارب روپے کے قرضے خلاف ضابطہ معاف کروائے گئے، بار بار عمران خان کو ہمارا لاڈلہ کہا جاتا ہے، ایسی بیان بازی درست نہیں۔ عمران خان لاڈلہ نہیں حکومت نے رعایت دی۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس اتوار کوسپریم کورٹ میں مختلف کیسز کی سماعت کے دوران دئیے۔ عدالت عظمیٰ نے بینکوں سے قرضے معاف کرانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں 84؍ ارب روپے کے قرضے معاف کرانے والے 222؍ افراد کو نوٹسز جاری کر دئیے، جبکہ سابق چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان کو سپریم کورٹ کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے پولیس افسروں کی آئوٹ آف ٹرن پروموشن فیصلے کیخلاف نظرثانی کی درخواستیں خارج کر دیں۔ عدالت نے کیس کو نمٹاتے ہوئے فیصلہ سنا یاکہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے پروموشن پانے والے افسروں کی ترقیاں بھی واپس لی جائیں۔ ایک اور کیس میں عدالت عظمیٰ نے قومی ایئرلائن پی آئی اے کو جہازوں سے قومی پرچم ہٹا کر مارخور کی تصاویر پینٹ کرنے سے روکدیا ۔ بلوچستان کے میڈیکل کالجز میں مستحق طلبا کے داخلے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے بلوچستان کے میڈیکل کالجز میں میرٹ پر آنے والے مستحق طلباءکے داخلے کا حکم دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق کے مطابق اتوار کو سپریم کورٹ میں این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نےاین آئی سی ایل کیس کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی سے کہا کہ آج آپکی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں کیا آپ نے دبئی میں کیسینو کھول لیا تھا۔ ایاز نیازی نے کہا کہ میرا کوئی کیسینو نہیں ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کس طرح تعینات ہوئے تھے۔ ایاز خان نے جواب دیا کہ مجھے امین فہیم نے تعینات کیا تھا۔ سابق سیکرٹری کامرس نے میرا انٹرویو کیا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دوسرا ملزم محسن حبیب وڑائچ کہاں ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ محسن حبیب تاحال گرفتار نہیں ہوسکا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم رائو انوار کو پیش کراسکتے ہیں تو محسن حبیب کیا ہے محسن حبیب کا نام ای سی ایل میں ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایاز خان نیازی ضمانت پر نہیں ہیں، ایاز خان نیازی کیخلاف لاہور اور کراچی میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ نے دونوں عدالتوں کو دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ایاز خان نیازی سے پوچھا کہ آپکی تنخواہ کتنی تھی؟ نیازی نے کہا کہ یاد نہیں میری تنخواہ اس وقت کتنی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہ بھی یاد نہیں کہ آپ کی تنخواہ کتنی تھی۔ نیب نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ این آئی سی ایل اسکینڈل میں 90 میں سے 49 کروڑ کی ریکوی کرلی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب عدالت میں ٹرائل سست کیوں ہے۔ نیب گواہ کیوں پیش نہیں کررہا؟ یہ پاکستان ہے یہاں لوٹ مار نہیں ہوگی۔ جو ملک کو لوٹے گا وہ حساب دے گا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر ایاز خان نیازی نیب عدالت سے ضمانت پر نہیں ہیں تو انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے جبکہ عدالت نے کرپشن کیس کے دوسرے کردار محسن حبیب وڑائچ کو بھی فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔ سابق چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان کو سپریم کورٹ کے باہر سے گرفتار کرلیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بینکوں سے قرضے معاف کرانے سے متعلق ازخود نوٹس کی بھی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے تمام 222 افراد کو نوٹس جاری کر دیئے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیشن کو سمری جمع کرا دی ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک خود کہاں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 222 افراد نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کرائے اور کمیشن نے تمام افراد کے خلاف انکوائری کیلئے سفارش کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان لوگوں نے 84 ارب کے قرضے معاف کروالیے، کسی کی غیر حاضری قبول نہیں کی جائیگی۔ عدالت نے بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے تمام 222 افراد کو 8 جون تک کیلئے نوٹسز جاری کردیئے۔ جبکہ بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بار بار عمران خان کو ہمارا لاڈلا کہا جاتا ہے، ایسی بیان بازی درست نہیں، بلائیں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو، انہیں ان کا بیان دکھاتے ہیں، تجاوزات کیخلاف کارروائی حکومت نے کرنا ہوتی ہے، حکومت خود کارروائی نہ کرے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ وفاقی وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (کیڈ) طارق فضل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اس حوالے سے کی جانے والی بیان بازی درست نہیں، بلائیں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو انہیں ان کا بیان دکھاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی حکومت نے کرنا ہوتی ہے، حکومت خود کارروائی نہ کرے تو ہم کیا کرسکتے ہیں، بار بار یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ عدالت عمران خان کے ساتھ کوئی خاص سلوک کر رہی ہے، وضاحت دیں ورنہ آپ کیخلاف کارروائی کروں گا، حکومت نے کہا کہ بہت بڑی تعداد میں تعمیرات ہو چکی ہیں، بتایئے یہ تعمیرات ریگولر کرنے کافیصلہ کس کا تھا۔ طارق فضل چوہدری نے عدالت میں اعتراف کیا کہ تعمیرات ریگولر کرنے کا فیصلہ ہم نے کیا، عدالت نے بنی گالا تعمیرات ریگولر کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہاں عمران خان کو لاڈلا بنا دیا، ہم نے کہاں عمران خان کو رعایت دی؟۔ طارق فضل چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گھر کی جو دستاویزات جمع کرائیں انکی تصدیق نہیں ہو سکی، کیس عدالت میں تھا اس لیے کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو تحقیقات کرا لیں، ریاست جو چاہے فیصلہ کرے، جب تک منظور شدہ پالیسی غیر مناسب نہ ہوئی ہم مداخلت نہیں کرینگے۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پولیس افسروں کی آئوٹ آف ٹرن پروموشن فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ نے کیس کو نمٹاتے ہوئے فیصلہ سنا دیاکہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے پروموشن پانے والے افسروں کی ترقیاں بھی واپس لی جائیں۔آئوٹ آف ٹرن ترقی پانیوالے افسروں کوبیج میٹس کے برابرترقی دی جائے۔عدالت نے حکم دیا کہ سروس ٹربیونل عدالتی فیصلے پرعملدرآمداپیلوں کاجلدفیصلہ کرے۔ٹربیونل آئی جی کے احکامات کیخلاف اپیلوں کا فیصلہ 2 ماہ میں کرے۔عدالتی حکم میں کہا گیا کہ پولیس افسروں کی پروموشن سے متعلق حکومت قواعدبناسکتی ہے۔ سیکرٹری داخلہ،اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اورآئی جی پنجاب حکم پرعمل کریں۔ عدالت نے ہدایات جاری کیں کہ رجسٹرارسپریم کورٹ فیصلہ متعلقہ حکام کو بھیجیں۔ بلوچستان پولیس کی عملدرآمد سے متعلق کیس کوعلیحدہ سناجائے گا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پی آئی اے کے جہازوں سے قومی پرچم ہٹائے جانے کے خلاف کیس کی سماعت کی تو پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر مشرف رسول عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی پی آئی اے سے استفسار کیا کہ جہازوں پر جھنڈے کی جگہ ایک جانور کی تصویر لگائی جارہی ہے ، جہاز پر ایک جانور کے پینٹ ہونے پر کتنی لاگت آئے گی؟ ایم ڈی نے جواب دیا کہ مارخور قومی جانور ہے اس کی تصویر پینٹ کر رہے ہیں ، ایک جہاز پر 27 لاکھ کی لاگت آئے گی اور ویسے بھی ہر جہاز کو 4 سال بعد دوبارہ پینٹ کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک جہاز پر پینٹ کی لاگت 27 نہیں 34 لاکھ روپے ہے ، حکومت نے پی آئی اے کو 20 ارب کا بیل آئوٹ پیکج دیا ہے لیکن یہ پیسے پی آئی اے کی بہتری کیلئے دئیے گئے ہیں پینٹ کیلئے نہیں ، پی آئی اے کونسی منافع میں جا رہی ہےجو ایسا کر رہے ہیں۔ ایم ڈی پی آئی اے نے جواب دیا کہ اب تک صرف ایک جہاز کو ہی پینٹ کیا گیا ہے بقیہ جہازوں کو پینٹ نہیں کرینگے۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی پی آئی اے سے استفسار کیا کہ کل رات میری فلائٹ بھی ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوئی ، تاخیر کی وجہ کیا تھی؟ ایم ڈی نے بتایا کہ تاخیر کی وجہ جہاز کی مرمت تھی۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی سے استفسار کیا کہ آپکی بھابھی پی آئی اے میں کیا کر رہی ہیں تو ایم ڈی کا کہنا تھا کہ حلفاً کہتا ہوں میرا کوئی رشتہ دار پی آئی اے میں نہیں ہے اور نہ ہی میں نے کسی رشتہ دار کو بھرتی کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکی تعیناتی کیخلاف درخواست بھی زیر التواء ہے۔ دوران سماعت عدالت میں سانحہ ائیر بلیو کے متاثرین کے امدادی چیک بھی پیش کئے گئے۔ چیک پیش کرتے ہوے نجی ائیر لائن کے وکیل نے بتایا کہ 142 شہدا کے اہلخانہ کو معاوضہ ادا کرچکے ہیں، بقیہ دس متاثرین کے چیک عدالت کو پیش کر دیئے ہیں۔ متاثرین کو50، 50 لاکھ کی امداد دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متاثرین کو صرف امدادی چیک ہی نہیں، مارک اپ بھی دلوائینگے۔بعد ازاں عدالت نے ائیر بلیو طیارہ حادثہ سے متاثرہ افراد کے لواحقین کو دئیے گئے معاوضوں کی مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت جون کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔اتوار کے روز بلوچستان کے میڈیکل کالجز میں مستحق طلبا کے داخلے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر برا ہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ دورا ن سماعت رجسڑار پی ایم ڈی نے عدالت کو بتا یا کہ سپریم کورٹ حکم کے مطابق داخلہ سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی ہے تمام میڈیکل کالجز کو ایچ ای سی لسٹ کے مطابق خط لکھ دئیے اور معلومات ویب سائٹ پر بھی ڈال دی ہے تاہم طلبا سے برا ہ راست رابطہ نہ ہونے کے باعث مشکلات ہیں۔ ایڈوائزر ایچ ای سی نے بتا یا کہ میڈیکل کالجز کا موقف ہے کہ ان طلبا کیلئے اضافی سیٹیں بنانا ہونگے، سیشن چل رہے ہیں، کالجز کا کہنا ہے کہ وہ کوٹہ کی نشستیں پہلے دے چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالتی حکم میں اضافی سیٹوں کا کہا گیا تھا لیکن پھر بھی داخلہ نہیں ہو سکا میں باہر جا رہا ہوں کوئی ابہام ہے تو بتا دیں فنڈز اور سیٹوں سے متعلق نیا حکم جا ری کر دیتے ہیں۔ عدالت نے بلوچستان کے طلبا کے اخراجات ایچ ای سی کو ادا کرنے کا حکم دید یتے ہو ے تمام طلباء کو میڈیکل کالجز میں سیٹ دینے کا حکم بھی دیا 194 طلبامیرٹ پر نام آنے کے باوجود بھاری فیسز کے باعث داخلہ نہیں لے سکے تھے۔