• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوہری معاہدے سے نکلنے پر امریکا پچھتائے گا، ایرانی صدر

جوہری معاہدے سے نکلنے پر امریکا پچھتائے گا، ایرانی صدر

لندن: جارج پارکر

ایرانی صدر نے کہا ہے کہ امریکا اگر 2015 کے جوہری معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا تو وہ ایک بہت بڑی غلطی کرے گا۔جیسا کہ برطانوی وزیر خارجہ معاہدے کو بچانے کے ارادے سے مذاکرات کیلئے دو روزہ دورے پر واشنگٹن گئے ہیں۔

حسن روحانی نے اتوار کو ٹیلی ویژن پر ایک تقریر میں کہا کہ تہران کا ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے پر کسی بھی فیصلے پر مزاحمت کا منصوبہ تھا، جیسا کہ امریکی صدر کی معاہدے میں توسیع کیلئے ڈیڈ لائن12 مئی قریب آرہی ہے۔

رائٹر کے مطابق حسن روحانی نے مزید کہا کہ اگر امریکا جوہری معاہدے سے نکلنے کا فیسلہ کرتا ہے تو اسے جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ یہ اس کیلئے ایک تاریخی ندامت ہوگی۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی یورپی طاقتوں نام نہاد ای 3 کے تیسرے سینئر نمائندے بورس جانسن نے ٹرمپ انتظامیہ پر معاہدے میں رہنے کیلئے زور دیا ہے،جو ایران کے جہوری عزائم کو محدود کرنے کے بدلے میں تہران پرپابندیوں کو نرم کرتا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون اور جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ پر معاہدہ برقرار رکھنے اور امریکی پابندیوں پر چھوٹ کی تجدید کیلئے دباؤ ڈالا۔

اگرچہ بورس جانسن شمالی کوریا، شام اور دیگر بڑے بین الاقوامی مسائل پر بھی بات کریں گے تاہم ایران غالب رہے گا۔

جرمن اور فرانسیسی سفارتکاروں کو ماید تھی کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے روبرو بات کرنے کیلئے واشنگٹن جائیں گی، امریکی صدر نے معاہدے کو احمقانہ کہا ہے۔

بورس جانسن کے پروگرام میں اس مرحلے پر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات شامل نہیں ہے، اس کی بجائے وہ نائب صدر مائیک پیس، قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور کانگریس کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

اپنے دورے سے قبل بات کرتے ہوئے بورس جانسن نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ شام، سالسبری میں اعصابی اینٹ حملے اور شمالی کوریا سے جورہی ہتھیاروں کے خامتے جیسے بڑے بین الاقوامی مسائل پر برطانیہ اور امریکا نے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی خارجہ پالیسی چیلنجز پر براطنیہ اور امریکا ہم قدم ہیں۔

برطانیہ، امریکا اور یورپی شراکت دار بھی اس قسم کے ایرانی رویئے جس نے مشرق وسطیٰ کو غیر محفوظ بنایا ہوا ہے سے نمٹنے کیلئے ہماری کوششوں میں شامل ہیں ، جیسا کہ ایران کی سائبر سرگرمیاں، اس کا حزب اللہ جیسے گروپوں کی حمایت کرنا اور اس کا خطرناک میزائل پروگرام جو یمن میں حوثیوں کو مسلح کررہا ہے۔

جب جنوری میں آخری بار ڈونلڈ ٹرمپ نے پابندیوں میں نرمی کی تھی تو امریکی صدر نے خبردار کیا تھا کہ اضافہ اقدامات کے ذریعے معاہدے کی بھیانک خامیوں کو دور کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔

12 مئی کی ڈیڈ لائن سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس طرح کے معاہدے کی عدم موجودگی میں ایرانی جوہری معاہدے میں رہنے کیلئے امریکا دوبارہ پابنیدوں کو منسوخ نہیں کرے گا۔

ڈونلڈ ترمپ معاہدے میں تہران کے طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل پروگرام کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ معاہدے میں اس حوالے سے تقریبا مکمل خاموشی ہے۔

ہفتہ کے روز تھریسامے کے ساتھ ایک کال میں صدر نے یقین دہانی کیلئے اپنے عزم کو نمایا کیا کہ ایران نے کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کئے۔

امتیازی جوہری معاہدے پر امریکا، چین، روس، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور ایران نے دستخط کئے تھے اور اسے صدر باراک اوباما کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

تازہ ترین