پاکستان ہاکی میں گول کیپنگ کا ایک سنہری باب ختم ہوگیا، پاکستان ہاکی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دینے والے منصور احمد کی زندگی کا کیئر ئیر اپنے اختتام کو پہنچا، ان کی موت پر ہاکی کے حلقےسوگوار ہیں، منصور احمد ایک عظیم کھلاڑی ہی نہیں ، عظیم انسان بھی تھا،اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی، اس کی عاجزی، انکساری اور ملنساری قابل رشک تھی،زندگی کے آخری ایام میں بھی سخت تکلیف کے باوجودعیادت کے لئے آنے والوں سےاپنی روایتی محبت سے ملتے تھے ان کی آ واز اور چہرے سےتکلیف کے آثار صاف دکھائی دیتے تھے مگر وہ کسی سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں کرتے تھے، ہاکی سے لگائو زندگی کے آخری دنوں تک قائم رہا وہ ملنے والوں سے پاکستان ہاکی پر بات چیت ضرور کرتے تھے، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اتنے عظیم کھلاڑی کو ملک اور قوم کے لئےقابل رشک خدمات انجام دینے والے گول کیپر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جانا چاہئے تھا مگر ایسا نہ ہوسکا، حکومت سندھ کے محکمہ کھیل کے کسی افسر نے ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں آ نے کی زحمت گورا نہیں کی، وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ان کی قبر پر کوئی چادر نہیں چڑھائی گئی، اسی کو بے حسی کہتے ہیں، قومی کر کٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آ فردی نے درست کہا کہ منصور احمد جتنا بڑا نام ہے مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی منصور احمد نے اس قوم کو بہت خوشیاں دیں میں بہت چھوٹا تھا جب پاکستان ہاکی ورلڈ کپ جیتا تھاجنازے اور تدفین میں کوئی سیلیبریٹیز نہیں آئیںاگر یہی کچھ کسی اور ملک میں ہوتا تو سوشل میڈیا بھرا ہوتا ، حقیقت بھی یہ کہ منصور احمد پچھلے ڈیڑھ سال سے دل کے عارضے میں مبتلا تھا ، اس نے اپنے علاج کے لئے حکومت سے بھی اپیل کی مگر اس کی آ واز اور اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، منصور احمد سیاست میں خاصی دل چسپی رکھتے تھے وہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے اسپورٹس ونگ کے سر براہ بھی رہے مگر اسی حکومت نے علاج کے لئے ان کی اپیل نہ سنی،پی ایچ ایف کے صدر خالد کھوکھر اور سکریٹری شہباز احمد نے ذاتی دل چسپی لے کر ان کے اسپتال کے اخراجات ادا کئے،شاہد آ فردی فائونڈیشن نے ان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا، شاہد آفریدی خود ان کی عیادت کے لئے اسپتال گئے، کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے سکریٹری سید حیدر حسین اور بعض دوسے ہاکی اولمپئینز نے کچھ ذمے دادری ادا کی، ان کے انتقال کے بعد کراچی کے ایدھی ہا کی اسٹیڈیم میں منصور احمد کی یاد میں تعزیتی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سابق ہاکی اولمپیئنز اور انٹر نیشنل کھلاڑیوں سمیت ، نوجوان کھلاڑیوں کی بڑی تعداد نے شر کت کی، اس موقع پر ان کے انٹر نیشنل میچز کی تعداد کے برابر 338 موم بتیاں روشن کی گئیں تقریب سے ٹرپل اولمپئن افتخار سید، کامران اشرف، کاشف جواد نے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا،تقریب میںسندھ ہاکی ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر محمد یوسف، سیکریٹری رمضان جمالی، طارق میر ، محمد نویدنے بھی شرکت کی، اب ہر سطح پر منصور احمد کی یاد میں ایسی ہی تقریبات ہونگیں، تقاریر کی جائے گی، سیمینار ہوں گے مگر کوئی بھی اس جانب توجہ نہیں دے گا مستقبل میں کو ئی لیجنڈ علاج کے لئے حکومت کی توجہ کا منتظر ہوکر موت کے منہ میں نہ چلا جائے، سابق اولمپئن نوید عالم نے ہاکی کھلاڑیوں کی ایسوسی ایشن بنانے کا اعلان کیا تھا مگر ان کا منصوبہ بھی سرخ فیتے کی نذر ہوگیا، جانے والا چلا گیا مگر اس کے کارنامے اسے تاقیامت زندہ رکھے گے،اپنی جان دار اور شان دار گول کیپنگ سےمخالف کھلاڑیوں کے دلوں کی دھڑکن کو روکنے والا منصور احمد ہمیشہ شائقین ہاکی کے دلوں کی دھڑکن بنا رہے گا، اس کی کھیل کے میدان میں کار کردگی کا جائزہ لیا جاے تو وہ پاکستان کا واحد گول کیپر تھا جو چار مرتبہ دنیائے ہاکی کا بہترین گول کیپر قرار پایا، 1994 میں ایک ہی سال میںپاکستان نے چیمپئنز ٹرافی اور ورلڈ کپ کے اعزازات پی ایچ ایف کے موجودہ سکریٹری شہباز احمد کی قیادت میں جیتے تو ان دونوں فتوحات میں منصوراحمد کی شاندار گول کیپنگ کا عمل دخل نمایاں تھا،چیمپئنز ٹرافی میں انھوں نے ہالینڈ کے شہرۂ آفاق کھلاڑی بوولینڈر کا پنالٹی اسٹروک روکا تھا۔منصور احمد ایک دلیر گول کیپر تھے جو حریف فارورڈز کی ہر ادا پر نظر رکھتے تھے،ان کے اعصاب خاصے مضبوط تھے اسی لئے حریف کھلاڑیوں کو منصور احمد کو ڈاج دینا خاصا مشکل ہوتا تھا،1988 کی چیمپئنز ٹرافی میںان کی غیر معمولی گول کیپنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے ٹورنامنٹ میں ان کے خلاف صرف تین گول ہوئے ،انہیں 1996میں سنیئر کھلاڑیوں کی بغاوت پر ٹیم کی قیادت دی گئی،،منصور احمد 7 جنوری 1968 کو کراچی میں پیدا ہوئے ، پی اے ایف انٹرکالج سرگودھا کے بعد ڈی جے سائنس کالج کراچی میں زیر تعلیم رہے، 1985میں پہلا جونیئر ہاکی ورلڈ کپ کھیلا،انہوں نے مجموعی طو رپر 338 میچز کھیلے ، ان کو 3 مرتبہ اولمپک کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا، انھوں نے 1990 اولمپک کی سلور میڈلسٹ ٹیم کے لئے نمایاں کارکردگی دکھائی ، مسلسل 3 مرتبہ عالمی کپ کھیلنے کا اعزاز ر کھنے والے منصور احمد 1994 کی عالمی کپ کی فاتح پاکستان ٹیم کا حصہ رہے، انھوں نے 10 مرتبہ چیمپئنز ٹرافی کھیلی، جبکہ 1994 کی چیمپئنز ٹرافی میں گولڈ میڈل پانے والی پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے، انھوں نے 3 مرتبہ ایشین گیمز کھیلا ، 1990 بیجنگ ایشین گیمز کی گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے رکن تھے، انھوں نے مجموعی طور پر انٹرنیشنل ہاکی ٹورنامنٹس میں 12 گولڈ اور اتنے ہی سلور جبکہ 8 برانز میڈلز حاصل کیے ، وہ چار مرتبہ انٹرنیشنل ایونٹس میں بہترین گول کیپرقرار پائے،، بعد ازاں انٹرنیشنل ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ 2000 میں پاکستان جونیئر ہاکی ٹیم کے کوچ مقرر ہوئے ، بعد ازاں 2010 میں پی ایچ ایف کے ڈائریکٹر اکیڈمک بھی رہے۔ ان کے پاس ہائی پرفارمنس کوچنگ ڈپلومہ بھی ہے ، منصور احمد کو 2014 میں بنگلہ دیش کی قومی ہاکی ٹیم کا اسپیشلسٹ گول کیپنگ کوچ بنایا گیا، منصور احمد سماجی سرگرمیوں میں سرگرم رہے ، حکومت پاکستان نے تمباکو نوشی سے پرہیز کی مہم میں ان کو ایمبسیڈر مقرر کیا، منصور احمد کو 2015 میں امریکی کے شہر لاس اینجلس میں ہونے والے اسپیشل اولمپکس میں بطور مہمان مدعو کیا گیا۔ وہ فیفا کے اسپیکر بھی رہے جبکہ منصور احمد کو 2022 میں قطر کے شہر دوحا میں ہونے والے عالمی کپ فٹبال ٹورنامنٹ کے لیے اسپیکر کا بھی اعزاز دیا گیا،14 سالہ ہاکی کیریئر میں 338 انٹر نیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ،منصور احمد کو 1988 میں صدارتی ایوارڈ اور 1994 میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا،ڈیڑھ سال قبل دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے،انہوں نے پچھلے ماہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیلئے بھارت کے ویزے کی درخواست دی تھی مگر حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اور ،آخری مرتبہ پاکستان کو ورلڈ چیمپیئن بنانے والا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، واقعی وہ عظیم تھا ،عظیم ہے اور عظیم رہے گا۔