• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سستا موثر اور غیر مُضر طریقہ علاج

عروس البلاد کی پُر ہجوم زندگی، شور شرابے سے کوسوں دُور ،سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع، گڈاپ ٹائون کے گوٹھوں کے درمیان کئی ایکڑ پر پھیلے مدینۃ الحکمت میں قائم، جامعہ ہمدرد کا بیت الحکمت آڈیٹوریم عِلم و حکمت کے موتی بکھیرنے اور سمیٹنے والوں سے پُر ہے۔ اسٹیج پر شہید حکیم محمدسعید کی صاحب زادی اور جامعہ ہمدرد کی چانسلر، محترمہ سعدیہ راشد، ہمدرد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر سیّد شبیب الحسن اور ہمدرد لیبارٹریز (وقف) پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او، اُسامہ قریشی براجمان ہیں۔ نیشنل کائونسل فار طب کے صدر اورتقریب کے مہمانِ خصوصی، پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری خطاب کر رہے ہیں۔ اسٹیج کی دیوار پر بانیٔ پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح اور شہید حکیم محمد سعید کی تصویرآویزا ں ہے۔ 

حاضرین میں طلبہ اور اطباء سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ تاہم، ان میں طبِ یونانی کی تعلیم حاصل کرنے والی اُن پُر عزم اور علم سے لگن رکھنے والی طالبات کی اکثریت ہے، جنہیں آگے چل کر یونانی طریقۂ علاج کوانگریزی ادویہ کے بہترین متبادل کے طورپر پیش کرنے کے لیےکٹھن اور جاں گُسل لمحات سے گزرنا ہے۔ حاضرین، پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کے پُر مغز کلمات نہایت انہماک سے سُنتے ہوئے اپنے سَر دُھن رہے ہیں۔ یوں تو مقرّر کا ہر جملہ ہی اُن کے ذہین، مخلص اور وسیع المطالعہ ہونے کی دلیل ہے، لیکن جب مقرّر نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ ’’ آج طبِ یونانی کو متبادل طریقۂ علاج کہا جاتا ہے، حالاں کہ اس کا استعمال ہزاروں برس سے جاری ہے ، جب کہ ایلوپیتھک میڈیسنز آج سے 400برس قبل وجود میں آئیں، تو ایسی صورت میں متبادل طریقۂ علاج کون سا ہوا،طبِ یونانی یا انگریزی طریقۂ علاج؟‘‘توپورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ یہ منظر 23اپریل کو ’’عصرِ حاضر میں طبِ یونانی کے مسائل اور مواقع‘‘ کے موضوع پر ہمدرد فائونڈیشن اور نیشنل کائونسل فار طب کے تعاون سے جامعہ ہمدرد کی فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن کی جانب سے منعقدہ دو روزہ سمپوزیم یا علمی مذاکرے کا ہے، جس میں طب سمیت دیگر عصری علوم پر مہارت رکھنے والی مُلک کی نام وَر شخصیات نے اظہارِ خیال کیا۔

طبِ یونانی دُنیا کا قدیم ترین بلکہ اوّلین طرزِ علاج ہے، جس کی بنیاد اخلاط اور مزاج پر رکھی گئی ہے۔ یعنی کس مزاج اور مرض کے لیے کون سی دوا فائدہ مند ہے اور کون سی نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1100قبل از مسیح میں حکیم لقمان نے طب میں ایجادات کی داغ بیل ڈالی تھی اور انسانیت کو حکمت کے ذریعے انسانی زندگی کے تحفّظ کا مؤثر طریقۂ علاج فراہم کیاتھا ،جو آج تک رائج ہے۔ طبِ یونانی کی اہمیت مسلمہ ہے، جس کا ہر دَور میں انسان معترف رہا ہے۔ یہ طریقۂ علاج سستا اور نہایت مٔوثر ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہے۔ ہر چند کہ جڑی بوٹیوں سے ادویہ کی تیاری کا آغاز یونان سے ہوا، لیکن مسلمان سائنس دانوں نے اس طریقۂ علاج میں نِت نئے تجربات کے ذریعے جدّت پیدا کر کے انقلاب برپا کیا۔

نیز، یہ کہنابھی بے جانہ ہو گا کہ مسلمان اطبا ءو حکماء کے تجربات وتصانیف سے غیرمسلموں نے استفادہ کرکے اس شعبے میں ترقّی کی منازل طے کیں۔ آج بِلا شُبہ ایلوپیتھک ادویہ کو مختلف جان لیواامراض کے خلاف ایک غیر معمولی مزاحمت تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن انگریزی ادویہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے نتیجے میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد طبِ یونانی کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ اسی طرح ترقّی یافتہ ممالک میں بھی باشندے ایلوپیتھک ادویہ کےمضر اثرات کے پیشِ نظر ان کے استعمال سے کتراتے ہیں اوران کا رُجحان یونانی طریقۂ علاج کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ برِ صغیر پاک و ہند میں حکمت کے شعبے میںگراں قدر خدمات انجام دینے والوں میں مسیحِ دوراں، حکیم اجمل خاں، حکیم عبدالمجید اور اُن کے صاحب زادوں، حکیم عبدالحمیداور حکیم سعید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حکیم عبدالمجید نے حکیم اجمل خاں کے مطب سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے یونانی طریقۂ علاج سے متعلق باقاعدہ آگہی حاصل کی۔ 

سستا موثر اور غیر مُضر طریقہ علاج

انہوں نے یکم اگست 1906ء کو دہلی میں ایک سو روپے کی سرمایہ کاری سے ہمدرد دواخانہ قائم کیا۔ 1927ء میں اُن کے بڑے صاحب زادے، حکیم عبدالحمید نے دواخانے کا انتظام کُلی طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 1932ء میں علمِ طب کے فروغ کے لیے ’’ہمدرد صحت‘‘ کا اجرا کیا اور 1935ء میں ’’ہمدرد کالج‘‘ کی بنیاد رکھی۔ حکیم محمد سعید نے 1940ء میں ’’آیورویدک اینڈ یونانی طبّی کالج ، دہلی‘‘ سے بیچلرز آف ایسٹرن میڈیسن کی سند حاصل کی اور پاکستان ہجرت کے بعد 28جون1948ءکو ’’ہمدردپاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یکم جون 1964ء کو ’’ہمدرد فائونڈیشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ 1983ء میں مشرقی و مغربی علوم کے فروغ کے لیے شہر سے کوسوں دُور 60ایکڑ اراضی ’’مدینہ الحکمت‘‘ کے نام سے خریدی گئی اور17جون1985ء کو ’’ہمدرد یونیورسٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کی افتتاحی تقریب میں حکیم محمد سعید کے برادرِ بزرگ، حکیم عبدالحمید بھی موجود تھے۔ 

اس وقت سعدیہ راشد علم و حکمت کا عَلم تھامے اپنے شہید والد اور ہمدردِ انسانیت کا مِشن آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ آج ہمدرد یونیورسٹی میں فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن سمیت 7شعبے میں قائم ہیں، جن میں طب کے علاوہ انجینئرنگ ، ٹیکنالوجی، سوشل سائنسز اور قانون کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ مدینۃ الحکمت کے علاوہ شارعِ فیصل اور اسلام آباد میں بھی جامعہ ہمدرد کے کیمپس موجود ہیں۔ نیز، یونی ورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تربیت کے لیے 3 اسپتال بھی قائم کیے گئے ہیں۔

دو روزہ سمپوزیم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کا اینٹی بائیوٹکس کے غیر مٔوثرہونے سے متعلق کہنا تھا کہ ’’ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مرض پھیلانے والے جراثیم تیزی سے نشوونما پا رہے ہیں، جس کے سبب اینٹی بائیوٹکس غیر مٔوثر ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق، 2050ء تک دُنیا میں کم و بیش 10فی صد ہلاکتیں اینٹی بائیوٹک کے خلاف جسمانی مزاحمت میں اضافے کی وجہ سے ہوں گی۔ اس کا اہم سبب ہماری خوراک اور ادویہ ہیں۔ ان دِنوں اینٹی بائیوٹکس کے حوالے سے انگریزی کے دو الفاظ بہت عام ہیں، Access (رسائی) اورExcess(حد سے تجاوز)۔ یعنی غریب افراد ان تک رسائی نہیں رکھتے، جب کہ متموّل افراد ان کا حد سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔اس صورتِ حال میں لوگ یونانی طریقۂ علاج کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے تمام جڑی بوٹیوں، سبزیوں اور پَھلوں میں شفا رکھی ہے۔ 

پاکستان دُنیا کا واحد مُلک ہے، جو سطحِ سمندر سے صفر سے لے کر 8ہزار فٹ تک بلند ہے اور یہاں ہزاروں اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ آج ہم ہربل ادویہ کے بانی اور داعی ایک جگہ جامدہوگئے ہیں ۔ اگر ہم مل کر کام کریں، تو اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ طبِ یونانی کے طلبہ کالجز میں اپنی حاضری بڑھائیں، ریسرچ پر زور دیں اور خوب محنت اور اختراعات کریں۔ ہمارا مقابلہ جن لوگوں سے ہے، وہ تمام تر وسائل اور طاقت رکھتے ہیں ، ہمیں ماڈرن ورلڈ کا سامناہے ،جوایسی حیران کُن ایجادات میں مصروف ہے کہ جن کی بہ دولت اندھے دیکھ اور بہرے سُن سکیں گے۔ نیز، ایسی سبزیاں اُگائی جارہی ہیں، جو غذا بھی ہوں گی اور دوا بھی۔ مَیں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ10ملازمتیں ایم بی بی ایس کرنے والے طلبہ کو دیتی ہے،تو ایک بی ای ایم ایس اسٹوڈنٹ کو بھی دے۔ مَیں حکومت کو یقین دِلاتا ہوں کہ وہ کسی سے کم نہ ہو گا۔‘‘ شہید حکیم محمد سعید کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے نیشنل کائونسل فار طب کے صدر کا کہنا تھا کہ ’’ گرچہ طبِ یونانی کے فروغ کے لیے شہید حکیم محمد سعید نے جو کام کیا، ہم اس کا عُشرِ عشیر بھی نہیں کر سکتے، لیکن اُن کے خواب کی تکمیل کے لیے محترمہ سعدیہ راشد اور ہمدرد لیبارٹریز (وقف) پاکستان کے جواں سال منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او، اُسامہ قریشی اور ہم سب مل کام کر رہے ہیں۔‘‘ جامعہ ہمدرد کی چانسلر، سعدیہ راشد نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ’’ہمدرد یونی ورسٹی نے سب سے پہلے فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن قائم کی، جس کا مقصد ایسے اطباء پیدا کرنا ہے کہ جو سائنسی تحقیق کے ذریعے ترقّی یافتہ دُنیا میں طبِ یونانی کا لوہا منوائیں۔ 

جامعہ ہمدرد کی فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن میں بی ای ایم ایس ڈگری کورس کے اجرا کا بنیادی مقصد طبِ یونانی یا متبادل طریقۂ علاج کی ترقّی و ترویج ہے۔ شہید حکیم محمد سعید نے ’’اتحادِ ثلاثہ‘‘ یعنی حکیم، ڈاکٹر اور فارماسسٹ کے اشتراک ِعمل کا نظریہ پیش کیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ہی ہمدرد یونی ورسٹی میں ویسٹرن میڈیسن، ایسٹرن میڈیسن اور فارمیسی کے شعبے قائم کیے، لیکن سر کاری سرپرستی نہ ہونے اور حکومت کی عدم توجّہی کے سبب پاکستان متبادل طریقۂ علاج کے شعبے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ‘‘

سستا موثر اور غیر مُضر طریقہ علاج

ہمدرد لیبارٹریز (وقف) پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او، اُسامہ قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مستقبل میں طبِ یونانی کے طلبہ کے لیے بہت سے مواقع ہوں گے۔ ہم جدید سہولتوں سے آراستہ ایک سو مطب بنانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں یونانی ادویہ پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور ہم نے اس کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم طبِ یونانی کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں، جہاں شہید حکیم محمد سعید دیکھنا چاہتے تھے۔ تاہم، اس مقصد کے لیے ہمیں تن دہی اور لگن کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔‘‘ ہمدرد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر سیّد شبیب الحسن نے شہید حکیم محمد سعید کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ حکیم صاحب نے اس سلسلے میں بہت کام کیا۔ آج ہربل میڈیسنز دُنیا بِھر میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

تاہم، طبِ یونانی میں مزید تحقیق کی اشد ضرورت ہے اور اس ضمن میں ہمیں دوسرے طبّی دوا ساز اداروں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر غزالہ حفیظ رضوانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ آج طبِ یونانی برِصغیر کی حدودسے نکل کر پوری دُنیا میں پھیل رہی ہے،اس کے بغیر صحتِ عامہ کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ طبِ یونانی کے فروغ میں جامعہ ہمدرد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جامعہ ہمدرد طبِ یونانی کا واحد اسپتال، شفائے الملک میموریل چلا رہی ہے، جو مریضوں کو مفت طبّی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔‘‘

جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’’ایلوپیتھک ادویہ کے کیمیائی اثرات سے گھبرا کر پوری دُنیا طبِ یونانی سے رجوع کر رہی ہے۔ تاہم، دوائی پودوں کی صحیح کاشت، اُن کو اُکھاڑنا اور خشک کرنا، ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے لیے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پودوں کو بِلاسوچے سمجھے اُکھاڑنے سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے اور اُن کے خواص ضایع ہو سکتے ہیں۔ اس وقت دُنیا بَھر میں ایک لاکھ 30ہزار دوائی پودے موجود ہیں، جن میں سے 6ہزار قیمتی دوائی پودے پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں اس اہم قدرتی نعمت سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔‘‘ اس موقعے پر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے پاکستان کے تمام دوا ساز اداروں کو دوائی پودوں پر ایک بڑی کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز بھی دی۔ ’’ نیشنل کائونسل فار طب‘‘ کے سابق صدر، حکیم رضوان حفیظ ملک کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ’’ہم نے طبِ یونانی کو بہتر بنانے کے لیے وہ کچھ نہیں کیا، جو ہمیں کرنا چاہیے تھا، حالاں کہ مستقبل طبِ یونانی کا ہے۔ ایلوپیتھک طریقۂ علاج میں صرف امراض کا علاج کیا جاتا ہے، جب کہ طبِ یونانی مرض سے چھٹکارا دِلانے کے ساتھ مجموعی طور پر انسانی صحت کو بھی مستحکم کرتا ہے۔ مَیں نے آج تک صرف ایک مرتبہ ایلوپیتھک دوا، ڈسپرین استعمال کی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کوئی انگریزی دوا نہیں لی۔ طبِ یونانی دوائوں کا خزانہ ہے۔ ہم اگر پریشان ہیں، تو صرف اتائیوں کی وجہ سے، جو طبِ یونانی کو بدنام کرتے ہیں۔ 

بہرکیف، ہم تمام مشکلات کے باوجود شہید حکیم محمد سعید کے وِژن کو لے کر آگے بڑھیں گے اور طبِ یونانی کو ترقّی دیں گے۔‘‘ ہمدرد لیبارٹریز (وقف) پاکستان کے سینئر متولی، ڈاکٹر نوید الظفر نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہم ہر قسم کے تعصّبات سے بالاتر ہو کر طبِ یونانی کے علم و فن کو دیکھیں، ہر چیز کو میرٹ پر پرکھیں، تو اسے اس کا جائز مقام دِلانے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ شہید حکیم محمد سعید طب کا فروغ چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ طلبہ تخلیقِ علم کریں اور طب میں تحقیق پر توجّہ دیں۔ ماضی میں تخلیقِ علم کی وجہ ہی سے طبِ یونانی عُروج پر تھی، مگر بد قسمتی سے آج ایسا نہیں ہے۔ آپ ڈگری کے بارے میں سوچنے کی بہ جائے تخلیقِ علم پر توجّہ دیں۔ اس قسم کے سمپوزیمز آپ کو علم و معلومات شیئر کرنے کے اچّھے مواقع مہیا کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نویدالظفر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ آج طبِ یونانی کو ڈریپ کی صورت ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، جس کے سبب یہ دبائو میں ہے۔ بہرحال، ہمیں طبِ یونانی کی سرفرازی کے لیے کام کرنا ہے۔‘‘

سمپوزیم میں مختلف معالجین اور اطبا نے اپنے مقالے بھی پیش کیے۔ ’’موجودہ سائنسی دَور میں کلیات کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر حکیم سیّد صابر علی شاہ نے کہا کہ ’’انسان اگر کلیاتِ طب میں دیے گئے اصولوں پر عمل پیرا رہے، تو وہ (حادثاتی موت سے قطعِ نظر) ایک سو سال تک بڑے آرام سے زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘ نیشنل کائونسل فار طب کے سینئر نائب صدر، حکیم راحت نسیم سوہدروی نے ’’عُمر کے مختلف ادوارِ مزاج‘‘ پر کلیات کی روشنی میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ انسان کی زندگی ابتدائی دَور، دَورِ شباب اور بڑھاپے کے دَور پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں اعضا کی ساخت بدلتی ہے۔ 

موسم، غذا اور مسائلِ صحت سے مزاج بدلتا رہتا ہے اور طبِ یونانی میں علاج معالجے کے وقت مزاج کو پیش نظر رکھ کر ہی ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔ طبِ یونانی میں طب کے بنیادی فلسفے و نظریات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے اور مرض کی بہ جائے مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔‘‘ حکیم حمید اشرف نے ’’کلیاتِ طب کا امتیاز کیوں؟‘‘، حکیم قلب سلیم نے ’’یونانی طریقۂ علاج میں مزاج کی اہمیت‘‘ اور پروفیسر حکیم منظور العزیز نے ’’القانون فی الطّب‘‘ کے موضوعات پر اپنے مقالات پیش کیے، جب کہ پروفیسر ڈاکٹر احسانہ ڈار نے ’’طبِ یونانی میں تجربات و مشاہدات کی ضرورت‘‘ ، ڈاکٹر سمائرہ اسحٰق نے ’’امراضِ خواتین میں فطری ادویہ کی طاقتِ شفا‘‘ اور ڈاکٹر ہُما شریف نے عالمی ادارۂ صحت کے رہنما خطوط کی روشنی میں ’’نباتات اور نباتاتی مصنوعات‘‘ کے خواص پر اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر غزالہ حفیظ رضوانی نے ’’نباتاتی ادویہ کا ردِ عمل اور مستقبل کا چیلنج‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان ادویہ کا بھی ردِ عمل ہوتا ہے۔

اگر نہ ہو، تو عملِ شفا کیسے ممکن ہے؟ تاہم یہ اتنا نہیں ہوتا کہ اس کے منفی اثرات انسانی جسم پر مرتّب ہوں۔‘‘ انہوں نے مختلف جڑی بوٹیوں کے خواص روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’’ یہ لاجواب دوا اور غذا ہیں اور ہمارے باورچی خانے ہی میں ایک پوری فارماسیوٹیکل انڈسٹری ہوتی ہے۔‘‘ طبیبہ لینا حمید نے ’’مزاج کس طرح ہر فرد پر کام کرتا ہے؟‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے مزاج کی مختلف اشکال پر روشنی ڈالی۔ حکیم آصف اقبال نے ’’سوریسز، میڈیکل سائنس کے لیے ایک بڑا چیلنج‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ سوریسز کا مرض پائوں سے شروع ہوتا ہے اور پھر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ اس کا حتمی علاج پوری دُنیا کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ طبِ یونانی میں لبوبِ صغیر اور روغن نیم کے ذریعے اس کے علاج میں کچھ کام یابی حاصل کی گئی ہے۔‘‘پروفیسر ڈاکٹر انجم پروین نے ’’گردے کی پتھری کا طبِ یونانی میں علاج‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طبِ یونانی میں چند ادویہ اس کے علاج میں مفید ہیں۔ حکیم عبدالباری نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’قانون کوئی بھی ہو، اسے ہلکا لینا چاہیے اور نہ ہی سَر پر چڑھانا چاہیے۔ طبِ یونانی، عالمی ادارۂ صحت سے منظور شدہ طریقۂ علاج ہے۔ سو، اس قانون سے اسے مزید فائدہ ہو گا۔‘‘ حکیم عبدالسّمیع نے ’’خواتین کی تولیدی صلاحیت کے فروغ میں طبِ یونانی کا کردار‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں طب کی صفراوی ادویہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ ماہرِ نفسیات، حکیم فیصل صدیقی نے ’’طبِ یونانی، ذہنی صحت کا حل‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طبِ یونانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت امریکا میں 423ہربل ادویہ بنائی جا رہی ہیں۔ ڈیپریشن، یادداشت کی کمی اور بے چینی جیسے نفسیاتی امراض کا بھی طبِ یونانی میں علاج ہے۔ اب نیا ذہن پرانے طریقۂ علاج سے دُرست ہو گا۔‘‘ انہوں نے 1885ء میں شایع ہونے والی ایلوپیتھی کی ایک کتاب دِکھاتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے نسخوں میں طب کی ادویہ کو استعمال کیا گیا ہے۔ 

سستا موثر اور غیر مُضر طریقہ علاج

حکیم محمد امجد چشتی نے کہا کہ انہوں نے ایلوپیتھک اوئنٹمینٹ کے مقابلے میں طب کی دوائوں سے مرہم تیار کیا ہے، جو ایلوپیتھک مرہم سے زیادہ مٔوثر اور دیرپا اثر رکھنے والا ہے، جس کا کام یاب تجربہ وہ بہت سے سے جِلدی امراض کے مریضوں پر کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر ماریہ خان نے ’’ذیابطیس میں ہربل ادویہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ذیابطیس اب صرف امیروں کی بیماری نہیں رہی، بلکہ غریب بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی، تو2035ء میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد دُگنی سے زاید ہو جائے گی، جب کہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ ان کے مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔ اس وقت ذیابطیس کا ایک مریض، علاج پر ماہانہ 2ہزار روپے تک خرچ کرتا ہے اور غریب آدمی کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

سمپوزیم میں مہمانِ خصوصی، پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان نے فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن کے کام یاب طلبہ کو انعامات دیے اور مقالات پڑھنے اور شرکت کرنے والے اطبا ءاور معالجین کوتعریفی اسنادسے نوازا۔ اس موقعے پر محترمہ سعدیہ راشد نے مہمانِ خصوصی اور اُسامہ قریشی کو ہمدرد یونی ورسٹی کی سلور جوبلی شیلڈز دیں۔ جامعہ کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر شبیب الحسن نے کلماتِ تشکّر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’طب میں تشخیص اور ادویہ تجویز کرنے کے حوالے سے نئے طریقوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے شہید حکیم محمد سعید کے وِژن کو زندہ رکھنا اور آگے بڑھانا بہت ضروری ہے۔

تازہ ترین