• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لبنان میں عام انتخابات

لبنان عالم اسلام اور عرب دنیا کا اپنی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ملک ہے۔اس ملک میں بنیادی طورپر 18 مذہبی گروہ رہتے ہیں جن میں میرونائیٹ مسیحی ، رومن کیتھولک ، سنی ، شیعہ اور دروزی بڑے مذہبی گروہ ہیں۔ مملکت کے عہدوں کی تقسیم بھی مذ ہبی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ صدرکا مسیحی،وزیر اعظم کا سُنّی اوراسمبلی کے ا سپیکر کا شیعہ ہونا لازمی ہے۔وہاں آخری مرتبہ مردم شماری 1932میں ہوئی تھی جس کے مطابق وہاں آبادی کا سب سے بڑا حصہ مسیحیوں پر مشتمل تھا۔ آ ز ادی کے بعد بھی اسی مردم شماری کا تناسب مانا جاتا رہا۔

لیکن 1960میں مسلمانوں نے نئی مردم شماری کا مطالبہ کر دیا،کیوں کہ ان کے خیال میں مسلمان آبادی مسیحیوں سے بڑھ چکی تھی۔ مسیحی اس پر رضامند نہیں ہوئے اوریوں وہاں ایک کش مکش شروع ہو گئی جس نے1975 میں باقاعدہ خانہ جنگی کا روپ دھار لیا۔یہ خانہ جنگی تقریباً 15 برس تک جاری رہی ۔1989میں خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے طائف میں فریقین کے مابین نیا سیاسی معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ صدر کے اختیارات پہلے کی نسبت کم کرکے یہ اختیارات وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو سونپ دیے جائیں۔

اس خانہ جنگی کے دوران حزب اللہ اپنی شناخت بنا نے میں کام یاب ہو چکی تھی۔یاد رہے کہ حزب اللہ نے اپنا سفر فلاحی تنظیم کے طورپر شروع کیا تھا۔اس کے وابستگان اسرائیل کے خلاف مسلسل بولتے رہتے تھے ، مگر ابھی یہ درجہ ابتدائی تھا۔تاہم اسرائیل کے مخالف حلقوں میں ان کی آواز محسوس ہونے لگی تھی۔ اس وقت کے اہم ترین فکری راہ نما اور امل تنظیم کے بانی موسیٰ الصدر نے فلسطین کی تنظیم آزادی PLO کے ساتھ مل کر ا سر ا ئیل کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ وہ بہت متحرک تھے، مگر 31 اگست 1978کو وہ معمر قذافی کی دعوت پر لیبیا گئے اور وہاں سے اغواء ہو گئے۔ پھر ان کا کبھی پتانہیں چل سکا۔ 

خیال ہے کہ انہیںاسرائیل نے اغواء کروا کر قتل کرا دیا تھا۔تاہم حزب اللہ ایک حکمت عملی کے تحت اپنی حیثیت بڑھاتی رہی اور اسرائیل کے خلاف صرف مسلح مزاحمت کرنے کےبجائے سیاسی میدان میں بھی اتر گئی۔ ایک مذہبی فکر کےپیروکار ہونے کے باوجود اس کے وابستگان نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو بنیا د ی نکتہ قرار دے کر دیگر مسلمانوں کے ساتھ مسیحیوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی۔جب پہلی بار حزب اللہ کے بارہ اراکین انتخابات میں کام یاب ہوئے تو ان میں 8شیعہ، 2 سُنّی،ایک میرونائیٹ مسیحی اورایک رومن کیتھولک تھا۔ یہ 1992کا واقعہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی بقا سیاسی انداز میں آگے بڑھنے میں تلاش کر رہے تھے۔

لبنان کے حالیہ انتخابات 2009کے بعد منعقد ہو ئے۔انتخابات کو سلامتی کی صورت حال کے سبب مسلسل التواء میں ڈالا جا رہا تھا، مگر اب ایسا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ان انتخابات میں ڈالے گئے ووٹس کا تناسب تقریباً 50 فی صد رہا اور حزب اللہ ، امل ایک بڑے اتحاد کی صورت میں کامیاب ہوتے نظر آئے۔ خیال رہے کہ لبنان میں کام یابی سادہ اکثریت حاصل کرنے کو نہیں سمجھا جاتا،کیوں کہ وہاں کسی جماعت کو سادہ اکثریت مل ہی نہیں پاتی۔ مثلاً سعد الحریری جب وزیر اعظم بنے تو 128 نشستوں کے ایوان میں انہیں 33 اور صدر مشعل عون کو 18 نشستیں حاصل تھیں۔

ان انتخابات میں بنیادی طور پردو اتحاد میدان میں اترے تھے۔ ایک بلاک کی قیادت حزب اللہ کر رہی تھی وہ الامل ولوفا کے نام سے انتخاب میں حصہ لے رہی تھی۔ وہ شام،ایران اور روس نواز اوراسرائیل کے خلاف مزاحمت کے نام پر انتخابات میں اتری تھی۔ دوسرے بلاک کی قیادت سعد الحریری کی فیوچر موومنٹ کر رہی تھی وہ استحکام ، معیشت ، اقتدار اعلیٰ اور عرب شناخت کے نام سے میدان میں تھی۔ حزب اللہ،الامل اور صدر مشعل عون کی قیادت میں فری پیٹریاٹک موومنٹ نے60 نشستو ں پر کام یابی حاصل کی۔ مشعل عون کی جماعت نے گزشتہ انتخابات میں 18،مگر اس مرتبہ 22 نشستوںپر کام یابی حاصل کی۔ سعد الحریری کی فیوچر موومنٹ 33 نشستوں کے بجائے 21 نشستوں تک محدود ہو گئی۔ 

خیال ہے کہ ان کے حامیوں نے سعودی عرب میں انہیں روکے جانے اوروہاں سے ان کے استعفے کے اعلان کو ان کی کم زوری خیال کیا تھا۔اگرچہ بعد میں انہوںنےا ستعفیٰ واپس لے لیا تھا، مگر ان کے حامی ان سے اس حد تک ناراض ہو گئے تھے کہ بیروت ، تریپولی اور صیدون کے علاقے،جو ان کے گڑھ سمجھے جاتے تھے، وہاں سے حزب اللہ کے حمایت یافتہ سُنّی امیدواروں نے ان کے امیدواروں کو شکست دےدی۔تاہم 21 نشستوں پر کام یابی کے باوجود وہ سب سے بڑےسُنّی رہنماکے طور پر میدان میں موجود ہیں ۔لبنان میں رائج طریقہ کار کے مطابق چوں کہ وزیر اعظم کا تعلق سُنّی مسلک سے ہونا ضروری ہے اس لیے وہ اس منصب کے لیے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔

ان کے مقابلے میں AZM کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نجیب میکاتی بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں۔اگرچہ ان کے پاس صرف 4 نشستیں ہیں، لیکن وہ پُر امید ہیں۔ اس موقعے پر صدر عون کے مخالف مسیحی لیڈر سمیر جعجع کی لبنان فورس 14 نشستیں لے کر بہت اہم ہو گئی ہے۔وہ حزب اللہ کے بھی سخت مخالف ہیں۔ درو ز یو ں کی جماعت پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی بھی 9 نشستوں کے ساتھ اہم ہو گئی ہے۔

ان انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اسرائیل کی جا نب سے یہ بیان سامنے آیاکہ اب لبنان اور حزب اللہ میں فرق کرنا ممکن نہیں رہے گا۔تاہم اب وہاں اگلا سیا سی مرحلہ شروع ہوچکا ہے کہ حکومت سازی کیسے ہوگی۔لبنان کی سیاسی صورت حال کو مد نظر رکھا جائے تو اس عمل میں تاخیر ہونے کا واضح امکان موجود ہے۔لیکن اگر حزب اللہ اور سعد الحریری نے ہوش سے کام لیا تو یہ مرحلہ آسانی سے طے ہو سکتا ہے جو لبنان میں امریکاکی شکست ہوگی۔

تازہ ترین