• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حقیقی آمدنی میں اضافے سے کنزیومرازم کا فائدہ

عالمی نا برابری کی موجودہ دوڑ میں جدید معیشت، خیرات اور قرضوں پر نہیں چل سکتی اس کی گواہی امریکی صدر ٹرمپ نے دے دی ہے، امریکا اس وقت سب سے زیادہ قرض دار ہے اور چین نے سے امریکی منڈی پر غلبہ حاصل کرلیا ہے، دو عالمی جنگیں بھی منڈیوں کے قبضے کے لئے ہوئیں، اس سے دنیا میں جس قسم کا بحران پیدا ہوا اس سے زیادہ سنگین بحران سامنے کھڑا ہے ، پہلے پہل شدید مقابلے، زائد پیداوار اور منافع بڑھانے کی تگ و تاز نے ادغام (مرچر) پرمائل کیا تھا جس سے درمیانی اور چھوٹی کمپنیوں اور صنعتی و تجارتی حلقوں کو مارکیٹ میں مقابلے سے باہر ہونا پڑا جس کے نتیجے میں عالمی منڈی پر عالمی سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہوئی، عالمی سروے کرنے والی تنظیم نے ارتکاز دولت کے بارے میں بتایا کہ62 مالدار ترین لوگوں کی دولت آدھی دنیا کی آبادی یا دولت سےزیادہ ہے۔

کنزیومر ازم کا فروغ کیسے ہوسکتا ہے

قطع نظر محولہ بالا نقطہ نظر سے یہ دیکھا جائے کہ کنزیومر ازم موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کیسے فروغ پاسکتاہے جس سے معیشت کو بھی فائدہ ہو، سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت دانوں نے یہ فارمولا طے کیا ہے کہ بچتیں برابر سرمایہ کاری کے ہونی چاہئیں لیکن پاکستان میں قرضوں کی بہتات اور افراط زر (مہنگائی) سے بچتیں کم ہوگئی ہیں، بچتوں کا انحصار اس نظام میں بلواسطہ اور براہ راست ٹیکسوں کی سو فیصد درست وصولی پر ہے، مزید برآں انسانی و قدرتی وسائل کا استعمال، ووکیشنل تربیت، زراعت کی پیداوار میں اضافہ اور ایگروویل صنعتکاری ہو تاکہ نوجوانوں کو ملازمت ملے، افراط زر اور قرضے کم ہوں تاکہ عوام کی حقیقی آمدنی میں اضافہ ہو، منافع کی شرح مناسب رکھی جائے تب جاکر کنزیومر ازم میں اضافہ معیشت کے لئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

قیمتوں کا تعین رسد اور طلب پرہوتا ہے

مارکیٹ اکانومی میں قیمتوں کو منڈی کی قوتوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے یعنی قیمتوں کا تعین رسد اور طلب کی بنیاد پر ہوتا ہے جب ایسا ہی کیا گیا تو اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں نے مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیاء کو مصنوعی طور پر مہنگا کردیا، بعد ازاں نوٹ چھپنے لگے تو قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا اسے افراط زر کہتےہیں دراصل دنیا بھرمیں دستاویزی معیشت ہے پاکستان میں حکومتوں نے دستاویزی معیشت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن مضبوط کاروباری حلقوں کے دبائو کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ 

پاکستان میں تمام معیشت دان اس بات پر متفق ہیں کہ ٹیکسوں کی وصولیاں دستاویزی معیشت کا قیام ہوجائے تو پاکستان خساروں اور قرضوں میں کمی کرسکتاہے اوراگر چھوٹے کاشت کاروں کو سہولتیں دی جائیں تو زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ہوسکتاہے، ان اقدامات کے بغیر کنزیومر ازم نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، معاشی ترقی کے لئے ہمہ گیر منصوبہ بندی ضروری ہے۔ حقیقی شرح نمو اسی وقت بڑھ سکتی ہےجب بچتوں کی شرح 20 سے 25 فیصد ہو لیکن شرط یہ ہے کہ روزگار میں اضافہ ہو اور حقیقی آمدنی بھی دیکھنے میں آئے۔ موجودہ بجٹ میں بچتوں اور روزگار کے سلسلے میں کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی نظرنہیں آتی۔ اور نہ ہی صنعت کاری کے لئے اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں اگر بچتوں کی حوصلہ افزائی نہ ہو صرف تصرف Consuption پرزور دیا جائے تو اس سے معیشت کساد بازاری کی طرف چل پڑے گی، بنکوں کے منافع جات بہت زیادہ ہیں کوشش کی گئی کہ کریڈٹ کارڈ، چھوٹے قرضوں اور لیزنگ سے کنزیومر ازم کو بڑھایا جائے اس سے مہنگائی بڑھ گئی اور قرضوں پر سود ادا کرنے کی وجہ سے قوت خرید کم ہوگئی۔ 

قرضوں سے پیداواری سرمایہ کاری نہیں ہوئی صرف سرو سنگ انڈسٹری کو فائدہ ہوا جو ترقی کا راستہ نہیں ہے امریکا میں بھی کنزیومر ازم نے آمدنی سے اخراجات زیادہ کردیئے تو وہاں بھی مالیاتی انہدام ہوا، آمدنی کم ہو تو قرضوں پر سامان تعیش کی خریداری عام آدمی کو سود کی وجہ سے قوت خرید میں کمی سے محتاج بنادیتی ہے۔ ائیرکنڈیشنڈ اور آٹو موبیل انڈسٹری کی مینوفیکچرنگ میں بہت اضافہ ہوا، زراعت کی ترقی کی شرح نمو گزشتہ دو برس میں ایک فیصد سے بھی کم تھی، اس لئے تجارتی خسارہ 35ارب ڈالرتک پہنچ گیا، برآمدات بڑھانے سے آمدنی بڑھتی ہے، برآمدات بہت کم ہیں جو اب کم ہوکر صرف 21.1 ارب ڈالر تک رہ گئی ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی 38ارب ڈالر ہیں ،ان کا ٹکا ڈالر کے مقابلے86 روپے کا ہے پاکستان کی کرنسی 120روپے فی ڈالر پہنچ گئی ہے اورمجموعی قرضے 90ارب ڈالر ہوگئے ہیں اور سود کی ادائیگی بجٹ میں 1620 ارب روپے (15ارب ڈالر) تجویز کئے گئے ہیں۔

کنزیو مرمیں اضافہ کیوں ہورہا ہے

اسٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ میں اربوں روپے کی گردش ہے اور ان پر ٹیکس کی شرح بہت کم ہے، دوسری جانب ترسیلات زر گزشتہ چار سالوں میں 88ارب ڈالر آئی ہیں لیکن یہ بھی سرمایہ کاری پرنہیں لگائی گئیں لوگوں کے پاس جو رقوم آئیں ان میں کچھ کنزیومر ازم پر خرچ ہوئیں کچھ لوگوں نے تعلیم، صحت اور گھر بنانے پر خرچ کیں، اس عرصے میں 102 ارب ڈالر کے خسارے ریکارڈ کئے گئے، اگر معاشی صورتحال اور ساتھ ہی پانی کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں بہت سی دشواریاں ریاست کی بقا کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں، رئیل اسٹیٹ، اسٹاک مارکیٹ، میوچل فنڈز، ٹی بلز، بانڈز کی خرید وفروخت اور دستاویزی معیشت پر از سر نو ’’ری وزٹ‘‘ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے معاشی محب وطن معیشت دانوں کا گروپ یکجا ہوکر مربوط منصوبہ بندی کرے تو پاکستان دس سال میں ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوسکتا ہے، پھر کنزیومر ازم میں اضافہ معیشت کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا۔

تازہ ترین