مسلم لیگ ن کا ملتان میں جلسہ توقع کے برعکس کامیاب نہیں رہا تھا لیکن اس دن نواز شریف نے ملتان میں ایک انگریزی روزنامے کو جو انٹرویو دیا وہ اگلے دن اخبار میں چھپا تو پورے ملک میں اس کے خلاف ایک ردعمل سامنے آیا جس نے مسلم لیگی حلقوں کو سراسیمہ کرکے رکھ دیا۔ اس انٹرویو میں میاں نواز شریف نے ممبئی دھماکوں کے حوالے سے پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی مداخلت کا جو الزام لگایا اس کی وجہ سے بعدازاں خود مسلم لیگ ن کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ن لیگ کی ترجمان نے انٹرویو کے متن کو توڑ مروڑ کر شائع کرنے کا الزام لگایا تو وزیراعلیٰ پنجاب بھی یہی بیانیہ لے کر سامنے آئے کہ میاں نواز شریف نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو پاکستان کے اداروں یا پاکستان کے مفادات کے خلاف جاتی ہو لیکن خود نواز شریف نے اپنے اس انٹرویو کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ یہ انٹرویو جو ملتان میں ہوا اس کیلئے بڑی راز داری برتنے کی کوشش کی گئی۔ ایئرپورٹ پر انٹرویو لینے والے صحافی سرل المیڈا کے جہاز کو خصوصی اجازت نامہ تو جاری کیا گیا مگر عین آخر وقت پر یہ فیصلہ ہوا کہ انٹرویو ایئرپورٹ کے لائونج میں کرنے کی بجائے کسی خفیہ مقام پر کیا جائے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اس کیلئے ملتان کے ایک بڑے صنعتکار گھرانے کی خانیوال روڈ پر واقع رہائش گاہ کا انتخاب کیا گیا جہاں یہ انٹرویو ہوا۔ اس انٹرویو میں جان بوجھ کر ایسی باتیں ڈالی گئیں جو بعد میں ایک بڑے تنازع کا باعث بنیں۔ اس سے یہ صاف لگتا ہے کہ میاں نواز شریف نے عجلت میں اس انٹرویو کا اہتمام کیا اور ایسا بیانیہ جاری کیا جو ملک میں فوج پر بیرونی دبائو کا باعث بن سکے۔ اس انٹرویو کو جس طرح بھارتی میڈیا نے پورے جوش و خروش سے نشر کیا وہ بھی ایک خاص منصوبے کا حصہ نظر آتا ہے تاکہ عالمی سطح پر ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ایسا دبائو ڈال سکے کہ وہ کمزور ہو کر میاں نواز شریف کے ساتھ کسی ایسے ’’این آر او‘‘ پر مجبور ہو جائے جس میں نواز شریف کے خلاف جاری مقدمات میں انہیں ریلیف ملے اور اسٹیبلشمنٹ بھی کمزور ہو جائے لیکن جس بھونڈے طریقے سے یہ سارا کھیل کھیلا گیا اس نے ساری بازی الٹ دی اور میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ خود ان کے اور مسلم لیگ ن کے گلے پڑ گیا۔ شدید عوامی ردعمل کے باعث ن لیگ سیاسی طور پر شدید دبائو میں آچکی ہے اور آنے والے دنوں میں نواز شریف کے اس انٹرویو کی وجہ سے سیاسی طور پر مسلم لیگ ن سے وابستہ ارکان اسمبلی کیلئے مسلم لیگ ن کے سا تھ رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس سے پہلے ہی ن لیگ کو چھوڑنے والوں کی ایک لہر چلی ہوئی ہے اور کوئی دن ہی جاتا ہے کہ جب تحریک انصاف میں مسلم لیگ ن کا کوئی رکن اسمبلی شامل نہ ہوتا ہو۔ کئی ایسے ارکان اسمبلی جو ہر صورت میں مسلم لیگ ن کے ساتھ رہنا چاہتے تھے نواز شریف کے پاکستان مخالف بیانیہ کی وجہ سے ان کیلئے اپنے حلقوں میں ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابی مہم چلانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن سے بڑے پیمانے پر ارکان اسمبلی تحریک انصاف میں جائیں گے اور 31 مئی کو حکومتوں کی مدت مکمل ہونے پر پورا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ شہباز شریف کیلئے نواز شریف کی شدت پسندانہ سوچ کی وجہ سے پارٹی کو متحد رکھنا آسان نہیں ہوگا۔
جہاں تک ملتان کا تعلق ہے تو اسے مسلم لیگ ن کا گڑھ کہتے ہوئے ہر مسلم لیگی فخر محسوس کرتا تھا مگر 11 مئی کے جلسہ نے اس مقبولیت کا بھانڈا پھوڑ دیا اور15 سے 18 ہزار کے جلسے کو دیکھ کر نہ صرف میڈیا کو حیرانی ہوئی بلکہ خود مسلم لیگ ن کے حلقے بھی شرمندہ نظر آئے۔ ایک ایسے شہر میں کہ جہاں سے 11ارکان اسمبلی ، 2 وفاقی وزراء ، گورنر ، سرکاری وسائل اور میونسپل انتظامیہ کی تمام تر سپورٹ کے باوجود اگر ملتان کا یہ جلسہ ناکام رہا ہے تو اسے نوشتہ دیوار سمجھنا چاہئے۔ اس میں جہاں نواز شریف کے بیانیہ کا اثر ہے وہاں مقامی طور پر مسلم لیگ ن کے اندر نفرت کی حد تک موجود دھڑے بندی اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس جلسہ کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ اس کیلئے مختلف ذرائع سے کروڑوں روپے اکٹھے کئے گئے۔ سٹیج پر بیٹھنے کے خواہش مندوں سے بھی بعض عہدیداروں کے مطابق لاکھوں روپے وصول کئے گئے مگر بجائے انتظامات کیلئے مختلف کمیٹیاں بنانے کے چند لوگوں نے اسے ہائی جیک کرلیا جس کی وجہ سے ایک طرف ناقص انتظامات دیکھنے میں آئے ۔ دوسری طرف شہر میں اس جلسہ کیلئے مناسب پبلسٹی نہیں کی گئی۔ ایسا ماحول بھی نہیں بنایا گیا جیسے پیپلزپارٹی نے کچھ روز قبل بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کیلئے بنایا تھا۔ شاید منتظمین کا خیال تھا کہ عوام میاں نواز شریف اور مریم نواز کیلئے خود جوق در جوق جلسے میں آئیں گے مگر یہ خوش فہمی اس وقت دور ہوگئی جب دونوں کے جلسہ گاہ میںآنے کے باوجود ایک لاکھ افراد کی گنجائش والا یہ سٹیڈیم صرف 15 سے 18 ہزار لوگوں کی موجودگی میں خالی خالی نظر آ رہا تھا۔ میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں مسلم لیگ ن کے ایک دھڑے کا تو شکریہ ادا کیا جس کے سربراہ سابق صوبائی وزیر عبدالوحید ارائیں ہیں لیکن دوسرے دھڑے کا جس میں سینیٹر رانا محمود الحسن ، طارق رشید ، بلال بٹ ، ملک انور ، احسان الدین قریشی شامل ہیں کا ذکر تک نہ کیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو اس جلسہ میں بھرپور پذیرائی ملی کیونکہ نواز شریف نے انہیں بھرپور طریقہ سے خوش آمدید کہا اور جب تقریر ختم کی تو انہیں اپنے پاس بلا کر ان کا ہاتھ فضا میں بلند کیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی تو پارٹی میں آگئے مگر ان کے آنے سے پارٹی کا انتشار کچھ اور بڑھ گیا ہے اور وہ گروپ جو حلقہ 155 سے ٹکٹ کا خواہاں ہے وہ مخدوم جاوید ہاشمی کی اس قربت سے خوش نہیں ہے کیونکہ اس گروپ کا خیال ہے کہ اس حلقے پر ان کا حق ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو اپنے آبائی حلقہ سے انتخاب لڑنا چاہئے۔