• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سستے امیر بازار، مہنگے غریب بازار
امیر آدمی رمضان بازار میں جائے گا تو اسے واقعی وہ سستا رمضان بازار ہی لگے گا، اور غریب آدمی جائے گا تو اس کے لئے یہ مہنگا غریب بازار ہو گا، الغرض یہاں ہر گناہ غریب کے نام پر کر کے ’’ثواب دارین‘‘ حاصل کیا جاتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ چھاج بھر غریبوں کے پاس اپنے پیسے ہوتے ہیں اور مٹھی بھر امیروں کے پاس غریبوں کے پیسے، گویا دونوں اطراف سے سستے رمضان بازار میں غریب ہی کا روزہ مشکلات کا شکار رہتا ہے، سستے رمضان بازاروں کا ایک چکر ہم نے بھی لگایا اور ساری سنی سنائی باتیں مشاہدے میں آئیں تو افواہ اور زبانِ خلق نقارئہ خدا میں فرق واضح ہو گیا۔ بات رمضان المبارک کے بازاروں کی ہو رہی ہے تو یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ اینکرز سے لے کر تقریباً ہر ہموطن رمضان کی میم کو ساکن پڑھتا ہے اس پر زبر نہیں پڑھتا، جو کہ صریحاً رمضان تو کجا لفظ رمضان کے ساتھ بھی نا انصافی ہے، بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ باچھیں کھلا کھلا کر چینلز پر رمضان میں سحر و افطار کے مناظر دکھاتے اور باتوں کا رنگ جماتے ہیں، وہ کسی بندئہ مزدور کے افطار دستر خوان بھی کیمرے کی آنکھ سے قوم کو دکھائیں قوم سے کھیلنے والوں کو دکھائیں، تاکہ معلوم ہو کہ اصل رمضان سیٹ تو دکھایا ہی نہیں جاتا، امیروں کی افطاری قسط در قسط چلتی ہے، ڈنر تو آخر میں آتا ہے، اور غریب کی افطاری گندم کی روٹی سالن اور پانی سے براہ راست ڈنر کی صورت ہوتی ہے، اس کے دسترخوان پر محرومیوں کا سستا بازار گرم ہوتا ہے، مگر ہم تو باخبر، بے خبر ہیں، میرے گھر کے قریب سخت گرمی میں مزدور کام کر رہے ہیں ان سے حال احوال پوچھا سب روزے سے تھے اور کام کر رہے تھے، مجھے تھوڑی دیر کے لئے لگا کہ وہ روزہ دار ہیں اور میں روزہ خوار، انواع و اقسام کی چیزوں سے بھرا پیٹ اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں روزہ تو روز عید ہے۔
٭٭٭٭
دہشت گردی کی لے تیز کیوں ہو گئی
تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ دشمن کے عزائم کو ناکام کریں اور یہ دھینگا مشتی بند کریں، وطن کے سپاہی دھرتی پر قربان ہو رہے ہیں، اور ایسے میں اگر وطن کے نادان ہوش میں نہیں آئیں گے تو دشمن ہماری فوج کو اندرونی خلفشار دور کرنے میں اتنا مصروف کر دے گا، کہ ہم سر ڈھانپیں گے تو پائوں اور پائوں ڈھانپیں گے تو سر ننگا ہو گا، یہی مدعا ہے دشمن کا اور اس کا مقدمہ ہم ذوق شوق سے کیوں لڑ رہے ہیں، سیاست، سیاسی بیانیہ، سیاسی جماعت فرد واحد کا نام نہیں بلکہ ایک سیاسی نظریہ ہی کسی بھی سیاسی جماعت کو زندہ یا مردہ کر سکتا ہے، اس لئے اس وقت ارباب سیاست ملک کی سلامتی کا خیال رکھیں، رکیک زبان کے زخم گہرے ہوتے ہیں یہ قوموں کو پاتال میں لے جاتے ہیں، ن لیگ کی غلطیاں اچھالنے کے بجائے اپنی غلطیوں کی اصلاح زیادہ ضروری ہے چینلز کو بھی محتاط رہنا ہو گا، شر کو دفع کرنا اور عیبوں پر پردہ ڈالنا بھی سیاسی اخلاقیات میں شامل ہوتا ہے، جو لہر اس وقت کوچۂ سیاست میں اٹھی ہے کوئی تازہ ہوا نہیں چلا سکے گی، اپنی ہی دیواریں گریں گی اور ریموٹ کنٹرول پر بیٹھا دشمن ٹھیک ٹھیک نشانے لگا سکے گا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر نگاہ بد ٹکی ہوئی ہے۔ لیڈران ہوش کریں، سیاست کو پانی کا جھگڑا بنا کر اغیار کو موقع نہ دیں کہ وہ کوئی بڑا نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں، غداری کوئی معمولی الزام نہیں ہوتا، ہم سمجھتے ہیں یہاں کوئی غدار نہیں، سب محب وطن ہیں، غلطیاں انسانوں سے ہو جاتی ہیں مگر کسی کو حالات کے جہنم میں جھونکنا ٹھیک نہیں، ہر کوئی اپنا اپنا سودا بیچے جس کا اچھا ہو گا بک جائے گا، مگر یہ نہیں کہ دوسرے کے چھابے الٹائے جائیں کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے، یہی بات لگ بھگ نوخیز سیاستدان بلاول نے بھی کہی ہے، ہمیں اچھی باتوں کو ضائع کر کے اپنا دامن فضول بے پر کی باتوں، تہمتوں سے نہیں بھرنا چاہئے۔
٭٭٭٭
خود کاٹے کا علاج نہیں
انٹرویو کرانے والا بڑا دشمن یہ کہنا ہے ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا ارکان کے تحفظات بتا کر بیانیہ نرم کرنے کا کہوں گا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شہباز شریف کا جواب۔ بات تو انٹرویو کی انٹرویو دینے والے کی اور یہ بیچ میں انٹرویو کرانے والے کی بات کچھ عجیب سا موقف ہے، ماننے کا نہ منوانے کا، کسی نے گن پوائنٹ پر تو انٹرویو نہیں کرایا، عاقل بالغ کو بھلا کون مجبور کر سکتا ہے مان لیا انٹرویو ہوا جو نہ کہنا چاہئے تھا کہہ ڈالا، مگر یہ غداری کا فتویٰ اور حب الوطنی پر شک کی بات بھی کیا کسی جبر کا نتیجہ ہے؟ آپس کی لڑائیاں کہیں ملکی سلامتی کے لئے خطرہ نہ بن جائیں، اب اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ بات کو طول نہ دیں اور نواز شریف کو بھی چھوٹے بھائی کی عرض سن لینی چاہئے، اگر وہ محتاط بیانیہ اختیار کر لیں تو شہباز شریف میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ پارٹی کو کھڑا رکھ سکتے ہیں، اور انتخابات میں کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں، مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، ن لیگی ارکان پارلیمنٹ اور دیگر پارٹی ارکان، ورکرز کو مطمئن کیا جائے تو پرندے اڑان نہیں بھریں گے، یہ کہنا کہ جو گئے وہ گندے انڈے تھے تو درست نہیں، اور اگر تھے تو سینے سے لگا کر کیوں رکھے، اگر انٹرویو کرانے والا بڑا دشمن تو چھوٹا نادان دشمن کون؟ ہمارے ہاں تحفظات، دور ازکار اشارے کنائے اور بادی النظر جیسے الفاظ سے کیوں کام چلایا جاتا ہے، اس سے تو سیاسی گھڑمس مچ جاتا ہے اور نقصان دو چند، بات سیدھی، صاف اور براہ راست ہو تو راستے روشن رہتے ہیں، ن لیگ کے حریفوں کو یہ سوچ بھی ترک کرنا ہو گی کہ اسے بیک بینی و دو گوش میدان سیاست نکال باہر کیا جا سکتا ہے، دونوں بھائی تو بھائی ہیں اور دونوں میں فرق ڈالنا غیر فطری مگر یہ بھائی اگر بیانیہ ایک کر لیں ایک ایسا بیانیہ جسے لے کر عوام کے پاس سر اٹھا کر جایا جا سکے تو اب بھی ڈلے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔
٭٭٭٭
معصومانہ اسکینڈل
....Oجمائما کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ نے فلسطینیوں کا قتل عام جائز قرار دے دیا۔
خان صاحب کا سابق سسرال ہے، ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
....Oطاہر القادری:نواز شریف، قومی، اخلاقی اور سیاسی مجرم ہیں۔
اب میں بولوں کہ نہ بولوں۔
....O مراد علی شاہ نے وزیر اعلیٰ ہائوس خالی کر دیا۔
اب تو کسی کو یہ ہائوس کرائے پر لینے میں گھبراہٹ، ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔
....Oبلاول بھٹو:نواز شریف طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق چل رہے ہیں۔
آپ بھی تو بوٹی ہاتھ میں تھام کر سیاسی پرچہ حل کرتے ہیں۔
....Oشیخ رشید:میں عقلمندوں کا نواز شریف بیوقوفوں کا لیڈر ہے۔
اگر کوئی اس جملے کو الٹا کر پڑھے تو کیا آپ اسے روک لیں گے، ویسے لیڈر کبھی اپنے منہ سے خود کو لیڈر نہیں کہتا۔
....O تہمینہ درانی:کیا وطن کی خاطر شہید ہونے والے خلائی مخلوق ہیں۔
یہ گھر منور ہو گیا گھر کے چراغ سے۔
....Oصاف پانی اسکینڈل:نیب نے حمزہ شہباز کو طلب کر لیا۔
معصومانہ سی سیاست کرتے ہیں انہیں صاف پانی کے حوالے سے کیوں دھر لیا؟

تازہ ترین