• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحفہ

قرأۃ العین کامران

ننھے مصطفیٰ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیوں کہ آج گھر کے تمام بچوں کے گلک اس نیت سے توڑے جانے تھے کہ، اس میں سے جو رقم نکلے گی اس سے کوئی تحفہ خرید کر غریب بچوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ امی گزشتہ سات برسوں سے ہر رمضان کے اختتام پر گھر کے تمام بڑے بچوں کو ایک گلک دیتیں تھیں۔ تاکہ وہ سال بھر ملنے والے جیب خرچ سے کچھ پیسے بچا کر اس گلک میں جمع کریں۔ امی اکثر بچوں کو سمجھایا کرتیں تھیں کہ، رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہر چیز کا ثواب دوگنا کر دیتے ہیں، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان برکتوں سے جتنا ہو سکے فائدہ حاصل کریں۔

مصطفیٰ کو معلوم تھا کہ آپی اور بھیا کے گلک میں سے بہت اچھی رقم نکلے گی کیوں کہ بھائی پچھلے دو برسوں سے اسکول کے چوکیدار کے بچوں کے لیے گفٹ بھجواتا تھا، پھر گفٹ اتنا اچھا ہو کہ اللہ کو پسند آجائے اس لیے وہ پورا سال ملنے والی جیب خرچ سے ایک بڑا حصہ اور اس کے علاوہ عیدی بھی گلک میں ڈال دیتا تھا۔ آپی بھی اپنی سہیلی جس کے ابو کا انتقال ہو گیا تھا، اس کے لیے ہر سال پیسے جمع کرتی تھی۔ انہوں نے بھی جیب خرچ کے علاوہ کلاس میں پوزیشن لینے پر جو رقم امی ابو کی طرف سے ملی تھی وہ بھی گلک میں ڈال دی، اس طرح ان کی بچت بھی زیادہ تھی۔ ان دونوں کی بچت دیکھ کر امی ابو بہت خوش تھے۔ لیکن مصطفیٰ کا پہلا سال تھا، اس کے گلک میں تیس روپے سے زیادہ نہیں تھے۔ اسے چاکلیٹ، ٹافی، چپس وغیرہ کھانا بہت پسند تھا، اس لیے جیب خرچ کا زیادہ حصہ وہ اپنی ان خواہشات کو پورا کرنے میں خرچ کردیتا تھا، اسے لگتا تھا کہ بچت کرنے کے لیے اس کا جیب خرچ بہت کم ہے۔ اس کے پاس اتنی کنجائش نہیں کہ وہ پیسے جمع کر سکے۔ جب امی ابو نے مصطفیٰ سے گلک کی رقم کے بارے میں پوچھا تو وہ شرمدہ تھا، کیوں کہ صرف تیس روپوں سے کسی کے لیے اچھا گفٹ نہیں آسکتا۔ اس لیے اس نے امی سے کہا، ’’امی کیا میرا گلک بیسویں روزے کو توڑا جا سکتا ہے؟‘‘۔ امی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے، لیکن کیا تمہیں یقین ہے کہ اتنے کم دنوں میں اتنی رقم جمع ہوجائے گی کہ کسی غریب کی مدد کی جاسکے؟‘‘ مصطفیٰ امی کے سوال پر خاموش ہوگیا، اس کا دل زور سے ڈھڑک رہا تھا۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے کہا کہ، ’’امی جان میں پوری کوشش کروں گا‘‘۔

آج پہلا روزہ تھا، بھیا نے مصطفیٰ کو افطار کی فضیلت بتائی تھی کہ، اس وقت جو دعا مانگی جائے وہ رد نہیں ہوتی، اس لیے مصطفیٰ آدھے گھنٹے پہلے ہی دسترخوان بچھا کر دعا منگنے لگا کہ، ’’یا اللہ میری مدد کریں، کسی طرح گلک رقم سے بھر جائے‘‘۔ پھر تو اس نے یہ اپنا معمول بنا لیا، لیکن گلک میں صرف روز کا جیب خرچ ہی جمع ہو رہا تھا، جو کہ ناکافی تھا۔ مصطفیٰ کو مولوی صاحب نے روزہ رکھنے کے بارے میں بتایا کہ اس سے کتنا اجر و ثواب ملتا ہے تو اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ بھی روزہ رکھے گا۔ گرمیوں کے دن تھے، امی نے سوچا کہ دن میں کھانا کھلا دیں گی، لیکن مصطفیٰ نے صاف انکار کر دیا۔ وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ، ’’اللہ جی، کسی طرح پیسوں کا انتظام ہوجائے۔ اگلی بار پورے سال پیسے جمع کر کے عید گفٹ دوں گا۔ بس مجھ سے ناراض نہ ہوں‘‘۔ مصطفیٰ ظہر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر کے لیے سوگیا اور عصر کی نماز سے پہلے جب اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ گھر میں معمول سے ہٹ کر چہل پہل محسوس ہو رہی تھی، وہ جلدی جلدی وضو کر کے باہر آیا تو دیکھا کہ دادا جان، پھپھو، چچا جان، ماموں، خالہ جان وغیرہ سب اس کے پہلا روزہ رکھنے کی خوشی میں جمع تھے۔ معمول کی طرح وہ آج بھی آدھے گھنٹے پہلے ہی دستر خوان پر بیٹھ کر دعا مانگ رہا تھا، لیکن آج وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ تمام گھر والے اپنا اپنا کام ختم کر کے بیٹھے تھے۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی دادا جان نے اپنے ہاتھوں سے مصطفیٰ کو کھجور کھلاکر روزہ افطار کروایا اور خوب دعائیں دی۔ دادا جان نے کہا، ’’مصطفیٰ بیٹا، اتنے مختصر وقت میں ہم آپ کے لیے کوئی تحفہ نہیں لاسکے، لیکن یہ لفافہ رکھو، جو دل چاہے اس سے خرید لینا‘‘۔ دادا جان کے بعد باقی سب نے بھی مصطفیٰ کو لفافے تحفے میں دیئے، اس نے تمام لفافے گلک میں ڈال دیئے۔

آخر بیسواں روزہ آ ہی گیا، جب اس کا گلک توڑنا تھا۔ جب گلک ٹوٹا تو اس میں سے اتنے پیسے نکلے کہ ان سے تین چار بچوں کے لیے عید گفٹ خریدا جاسکتا تھا۔ امی نے کہا کہ، ’’بیٹا، یہ بہت ہیں، چاہو تو کچھ رقم اپنے لیے بھی رکھ لو‘‘۔ لیکن مصطفیٰ نے انکار کر دیا۔

اس نے وہ تمام رقم ابو کو دی کہ مسجد میں شام کے پناہ گزین بچوں کے لیے جو عید گفٹ بھیجے جا رہے ہیں، اس میں اس کا حصہ بھی شامل کرلیں۔ ابواس کی بات پر بہت خوش ہوئے اور اس کو خوب دعائیں دیں۔ اس نے آسمان کی طرف سر اُٹھا کر کہا، ’’شکریہ اللہ جی‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین