• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جیسے ملک کیلئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ جمہوری حکومتوں نے مسلسل دو مرتبہ اپنی آئینی میعاد پوری کرلی ہے اور دوسری میعاد میں جمہوری حکومتوں نے پانچ سال کی بجائے چھ سالانہ بجٹ پیش اور منظور کئے ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی بجٹ پر عام بحث کے دوران سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تقاریر سن کر بہت افسوس ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو معیشت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے ۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ جمہوری حکومتوں کے بجٹ کس طرح بننا چاہئیں اور اب تک جو بجٹ دیئے گئے ہیں ، ان کے پاکستان کے عوام اور ملک کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونگے ۔ یہ لاعلمی یا لاپروائی ازخود جمہوریت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے اس وقت دنیا میں تیزی سے جوتبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، انہوں نے دنیا کے عظیم ماہرین معاشیات اور منصوبہ سازوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے کیونکہ انہوں نے انتہائی سوچ و بچار ، فلسفیانہ ریاضت اور تاریخ کے مطالعہ کے بعدجو اقتصادی پالیسیاں بنائی تھیں ، وہ بدلتے ہوئے حالات میں کارگر ثابت نہیں ہو رہیں ۔ امریکہ جیسا ملک تباہی سے بچنے کیلئے ’’ معیشت کے دفاع ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گیا ہے اور وہ امریکی قوم پرستی کے خول میں پناہ لینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ہمارے منتخب نمائندوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ بجٹ سازی میں ان کی لاتعلقی کس قدر خطرناک ہے ۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان دونوں کی طرف سے صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور الزام تراشی ہوتی ہے اپوزیشن ارکان زبردست شورشرابہ اور ہنگامہ آرائی کو اپنا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ منتخب ایوانوں میں ہنگامہ کرنے سے میڈیا میں بڑی خبر بنتی ہے اور یہی ان کی بڑی کامیابی ہے ۔ بجٹ پر کوئی بات نہیں کرتا ۔ بس رٹے ہوئے جملے ادا کئےجاتے ہیں کہ بجٹ عوام دشمن ہے ، بجٹ میں لوگوں کو ریلیف نہیں دیا گیا اور حکومت کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہے ۔ اپوزیشن کے اس رویئےسے حکومت کو فائدہ ہوتا ہے ۔ بجٹ کی خامیاں سامنے نہیں آپاتیں ۔ بجٹ کو ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی حالات میں بھی نہیں پرکھا جاتا اور ملک ، صوبوں اور عوام پر منفی اثرات کی نشاندہی بھی نہیں ہوتی ۔ حکومتی بینچز کی طرف سے بھی اپوزیشن پر جوابی الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن والے جب حکومت میں تھے تو انہوں نے بہت بڑی کرپشن کی، لوگوں کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ گزشتہ 11 سالوں کے بجٹوں پر بحث کے دوران مذکورہ بالا باتوں کے علاقہ کچھ بھی نہیں ہوا اور آج ہم جمہوری حکومتوں کے 11 ویں بجٹ کے بعد ایک بہت بڑے معاشی بحران کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں ۔
بجٹ پر طویل بحث کے بعد بھی وہی بجٹ اور فنانس بل منظور ہوتا ہے ، جو حکومت شروع میں پیش کرتی ہے ۔ شاذو نادر ہی کوئی تبدیلی کی جاتی ہے ۔ بجٹ جب پیش ہوتا ہے ، اس وقت سے ہی شور شرابہ اور ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے اور بجٹ کی منظوری کے بعدہی ختم ہوتا ہے ۔ کسی کو یہ نہیں پتہ کہ شور کیوں کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن والے سمجھتے ہیں کہ انہیں صرف شور کرنا ہے اور حکومتی ارکان نے یہ طے کیا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی کسی بات پر توجہ نہیں دینااور اگر اپوزیشن کی طرف سے کوئی سنجیدہ تجویز بھی آتی ہے تو اس پر غور نہیں کرنا ۔ اسمبلی کے باہر پریس کانفرنسوں میں اپوزیشن رہنما بہت کم بجٹ پر بات کرتے ہیں اور اگر کوئی بات کرتے بھی ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجٹ اور معیشت کے بارے میں ان کی معلومات محدود ہے۔ حکومتی ارکان یا وزراء بھی بجٹ پر اپوزیشن کے اعتراضات کا بہت کم جواب دیتے ہیں اور ان کے جواب سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں بھی معیشت کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے ۔ حکومتیں کسی ٹیکنو کریٹ قسم کے وزیر یا مشیر پر انحصار کر تی ہیں ۔ ان حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ملک کی اقتصادی پالیسی کیا ہونی چاہئے اور ملک جن سنگین اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے ، ان سے اسے کس طرح نکالا جائے ۔
یہ امر بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ ہماری جمہوری حکومتوں کی اقتصادی پالیسیاں غیر جمہوری حکومتوں سے مختلف نہیں ہوتیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی پالیسی نہیں ہوتی ہے تو زیادہ مناسب ہو گا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت واحد سیاسی حکومت تھی جس نے پاکستان میں رائج معاشی نظام کی کایا پلٹ دی تھی ۔ اگرچہ ان کے کچھ اقدامات خصوصاً صنعتوں کو قومیانے کے اقدامات پر تنقید کی جاتی ہے لیکن اس زمانے میں یہ بہتر فیصلہ تھا کیونکہ پاکستان کو ہر طرف سے اشتراکی انقلابوں کے طوفانوں کا سامنا تھا ۔ بھٹو کے بعد کسی جمہوری حکومت نے اپنی کوئی اقتصادی پالیسی نہیں بنائی بلکہ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی ملکوں کے مفادات اور ڈکٹیشن کی روشنی میں غیر جمہوری حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں کو جاری رکھا کیونکہ یہی عالمی مالیاتی ادارے اور سامراجی طاقتیں ملک میں غیر جمہوری حکومتوں کے قیام کا اصل محرک تھیں ۔ جمہوری حکومتوں نے اگر عوام کو کچھ ریلیف دینے یا اپنی منشاء کیلئے پالیسی سے ہٹ کر کوئی اقدامات کئے تو اس پر عالمی مالیاتی اداروں نے نہ صرف اعتراض کیا بلکہ ان حکومتوں کو ہٹانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ نگراں وزیر اعظم ملک معراج خالد کا وہ بیان اس حقیقت کا ثبوت ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ عالمی بینک کو بتا دیا گیا ہے کہ بے نظیر دوبارہ حکومت میں نہیں آئیں گی ۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کو پالیسی کی تبدیلی پر نہیں بلکہ صرف معمولی سے انحراف پر سزا ملی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومتیں نوکریاں یا غریبوں کو اسکالر شپ دینے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں موٹرویز ، میٹر وبس منصوبے بنانے پر بجٹ میں جو ’’ مالیاتی گنجائش ‘‘ ( Fiscal Space ) پید اکرتی ہیں ، یہ صرف قرضوں میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ پاکستان کی 11سالہ جمہوری حکومتوں کے سارے بجٹ ٹیکسوں میں اضافے ، غریبوں پر بالواسطہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ ، بڑے کاروبار کو زیادہ ریلیف دینے اور مالیاتی اداروں کے مقررہ دیگر اہداف پورے کرنے کے علاوہ کچھ نہیں لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ تاریخ کی دیگر تعبیریں غلط ثابت ہوئی ہیں ۔ صرف معاشی تعبیر درست ثابت ہوئی ہے ۔ عہدجدید کے سب سے بڑے انقلاب یعنی انقلاب روس کا بنیادی سبب بھی معاشی حالات تھے اور انقلاب کے بعد معاشی حالات درست نہ ہونے پر دوبارہ ’’ زار روس ‘‘ کی واپسی کا مطالبہ کررہے تھے ۔ بجٹ پر ہمارے منتخب نمائندوں کی بحث کے معیار سے خوف پیدا ہو رہا ہے ۔ چین اقتصادی گلوبلائزیشن کے ایک نئے عہد کا آغاز کر رہا ہے اور امریکہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ’’ لو کلائزیشن ‘‘ کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر دنیا کو جنگی معیشت ( وار اکانومی ) کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ ہم عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں میں جکڑے جا رہے ہیں اور ہماری خود فیصلہ کرنے اور نئی پالیسی بنانے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ صورت حال نہ صرف جمہوریت بلکہ ملک کیلئے بھی خطرات پیدا کر سکتی ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین