تحریر:نائیجل فیراژ
ایک زمانہ تھا جب(برطانوی نشریاتی ادارہ)ریڈیو اورٹی وی پروگرامز بنانے کے لئے اپنی کاوشوں پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔انٹرنیٹ نے اس طرزعمل کو بدل کر رکھ دیا جو برطانوی نشریاتی ادارہ سکھاتا ہے۔انٹرنیٹ اس کی بچوں کے لئے سروس کی موجودگی کی وضاحت کرتا ہے۔یہ’’متحدہ ریاست(برطانیہ)بھرمیں ہمارے یوٹیوب چینل کے ذریعے اسکولوں کو فری کلاس روم ریسورسز(وسائل)‘‘کی پیشکش کرتا ہے۔
’’اب ہم یورپ کی جانب آتے ہیں۔ ہمارے تاریخی ووٹ (بریگزٹ) کو دو سال ہورہے ہیں،ہم اب تک بریگزٹ معاہدے کو مکمل نہیں کرپائے ہیں،کیونکہ ہماری نااہل حکومت ایک بحران سے لڑکھڑاتی ہوئی نکل کر دوسرے کی جانب جا پہنچتی ہے۔‘‘
یہ طرزعمل کافی حدتک نقصان سے پاک معلوم ہوتا ہے لیکن رواں ہفتے مجھے ایک نئی پانچ منٹ دورانیہ کی برطانوی نشریاتی ادارے کی ٹیچ ویڈیو جوامیگریشن سے متعلق تھی نے چوکنا کردیا جوتوہین آمیزاندازمیں سادہ لوحی،گمراہ کن ،بددیانتی،غیر ذمہ دارانہ اور کوئی ڈھونگ رچارہی تھی کہ (برطانوی نشریاتی ادارہ)اس شدید دباؤ والے موضوع پر غیر جانبدارہے۔درحقیقت،میں یہ کہوں گا کہ یہ جان بوجھ کر نوجوان ذہنوں کو زہرآلودکرتا ہے تاکہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ امیگریشن میں کمی کی خواہش کسی حد تک ناقابل قبول ہے۔
اس ویڈیو فلم میں 14سے16 سال کے بچوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔یہ ویڈیو 60سیکنڈ (ایک منٹ)کے وائس اوور(پس پردہ آوازیعنی صدابندی) پر مبنی تبصرے سے شروع ہوتی ہے جسے لازماً مکمل طورپر دہرایا جانا چاہئے تاکہ اسے خراج تحسین پیش کی جائے کہ کس طرح برطانوی نشریاتی ادارے کے نقطہ نظر کو اس بحث کے حوالے سے تعصب کے بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔
اس ویڈیو میں کہا جاتا ہے:سوچیں!کیا امیگریشن(تارکین وطن کی کسی ملک(برطانیہ وغیرہ)آمد)کوئی نئی چیز ہے؟پھر سے سوچ لیں۔کیونکہ ،آپ دیکھتے ہیں ، آپ کے یہاں کلت(انڈویورپین )،رومن،اینگلو سیکسون اور وائکنگ(اسکینڈے نیوین )،نارمن،فلیمش ، آئرش،سیاہ فام برطانوی اوریہودی لوگ پائے جاتے ہیں۔ہاں،ہم کڑھی اور کارنیوال (کیتھولک عیسائی جشن، روایتی تہوار)کی آمد سے بہت پہلے کثیرالثقافت تھے۔یہ ہمارے ڈی این اے(مورثی خصوصیات)میں شامل ہے۔
خالص برطانوی نامی کی کوئی چیز موجود نہیں،باوجوداس کے کہ بعض علم بردارآپ کواس کا یقین دلاتے ہوں گے۔(برطانوی آبادی میں) اوسطاً چھتیس فیصداینگلوسیکسون باشندے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدتارکین وطن کی آمد یعنی مہاجرت میں اس وقت تیزی سے اضافہ ہوا جب تمام نوآبادیات سے لوگ یہاں (برطانیہ) پہنچے ۔ ہندوستان،کیریبین ،پاکستان، یوگنڈا اورکینیا جیسے مقامات سے لوگ یہاں آئے۔اس کے بعد ہم یورپی یونین میں شامل ہوئے،جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم آزادی سے پیرس،روم،برلن ، بارسلونا باآسانی جاسکتے تھے اوروہاں کے لوگ یہاں آسکتے تھے۔کچھ لوگ جنگ یا غربت سے بھاگ کر یہاں آئے۔ دیگر، اس وجہ سے کہ ہمارے ہاں بہتر موسیقی کا منظرنامہ ہے۔
لیکن یہ صرف گزشتہ بیس سال کاعرصہ ہے جس کے دوران بہت سے لوگوں (تارکین وطن) کی آمد ورفت دیکھی گئی ہے۔اسی طرح ، آپ کوئی ایسا اخبارنہیں دیکھ سکتے جس میں کچھ لوگوں کے امیگریشن( ترک وطن)سے متعلق انتہائی جذباتی خوشی کا اظہار نہ پایا جاتا ہو۔‘‘
’’فلیگ ویورز‘‘اس خوفناک حدتک بے ہنگم نقل مکانی کے دوران پہلی ایک غیر مبہم یعنی واضح طورپر تحقیرآمیز امرہے۔
اس ضمن میں دبے لفظوں میں تنقید واضح ہے اورامریکا ایسے مقامات پر ،جو مثبت اندازمیں شہریوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنے ملک پر فخر کریں ،یہ طرزعمل ناپسندیدہ قراردیا جائیگا۔
(برطانوی نشریاتی ادارہ)میں دیگر ویلنز (villains)وہ اخبارات ہیں جو ’’دل لگی کی سرگرمیوں ‘‘سے بھرے پڑے ہوں۔ایک کی ایک مثال امیگریشن سے متعلق قانونی سوالات کواٹھانا ہے۔ اسکروٹنی (چھان بین )کا بالکل بھی خیرمقدم نہیں کیا جاتا ہے۔
اس زمرہ میں کہیں اور،(برطانوی نشریاتی ادارہ)نے ہماری پیچیدہ تاریخ کے تمام حصوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مدغم کردیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہاں تارکین وطن کی آمد ایک اچھا عمل ہے:جارحیت کرنے والے جیسے رومن اور وائککنگز(اسکینڈے نیوین)،کییربین سے آئے لوگ جنہیں تاج برطانیہ کی جانب سے سن انیس سوپچاس کی دہائی میں ہماری ورک فورس کو بڑھاوادینے کے لئے مدعوکیا گیا ،صدیوں سے جاری ظلم وجبرسے فراراختیارکرنے والے یہودیوں،آئرلینڈ کے معاش کے لئے نقل مکانی کرنے والے افراداورسن سترکی دہائی میں صدرعیدی امین(سابق برطانوی فوجی)کی جانب سے جلاوطن کیے گئے یوگنڈاکے ایشیائی باشندے ۔کیا یہ امرحق بجانب ہے کہ ان تمام افرادکو ایک ہی لڑی میں پرودیا گیا ہے؟ (اس ویڈیو میں مزید)بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ جنسی زیادتی اورلوٹ مارکے شکارتھے جبکہ دوسرے صرف اس وجہ سے یہاں آئے کہ ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق تھے،لیکن میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہے۔
اب ہم یورپ کی جانب آتے ہیں۔ ہمارے تاریخی ووٹ (بریگزٹ) کو دو سال ہورہے ہیں،ہم اب تک بریگزٹ معاہدے کو مکمل نہیں کرپائے ہیں،کیونکہ ہماری نااہل حکومت ایک بحران سے لڑکھڑاتی ہوئی نکل کر دوسرے کی جانب جا پہنچتی ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک (برطانیہ)ایک چوراہے پر کھڑاہے جس کے لئے تھریسامے(برطانوی وزیراعظم) کی برسلزکے ڈکٹیٹرزکے اقدامات پرعملدرآمد میں شاندارناکامی کے شکرگزارہیں۔اس بنیاد پر ،بی بی سی کی اس ویڈیو،جس کا ہدف حساس نوجوان ہیں،کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ اسے انتہائی احتیاط پر مبنی ہونا چاہئے تھا۔
لیکن ابھی تک (برطانوی نشریاتی ادارہ)یہ دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے ،بے سروپا طورپر،کہ یورپی یونین کی کھلی سرحدی پالیسی کا مطلب ہے کہ صرف خوشحال،چکاچوند والے براعظموں والے شہروں سے تعلق رکھنے والے افرادکو ریاست متحدہ(برطانیہ)میں قیام کے لئے آئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشرقی یورپی باشندے ہی ہیں جو بڑی تعدادمیں یہاں مستقل طورپر قیام پذیر ہیں۔
جیساکہ عمومی طورپر جانا جاتا ہے کہ، یہ (مشرقی یورپی باشندے)زیادہ ترغریب اورمناسب طورپر تعلیم یافتہ نہیں ہیں اوربہت سے معاملات میں یہ مقامی کارکنوں سے نسبتاًکم ترمعاوضوں پرکم کرتے ہیں ،اس طرح یہ مقامی افرادمیں بہت بڑے پیمانے پر آزردگی اورابتری کا باعث بنتے ہیں۔لیکن کیوں کر حقائق کو ایک اچھی کہانی خراب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے؟اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ (برطانوی نشریاتی ادارہ)پرہمیشہ یورپ نواز ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اگرچہ وہ اس بارے میں دیانتدار تک نہیں بن سکتا۔
میری کتاب میں،یہ دانستہ طورپر گمراہ کن امر ہے اور (برطانوی نشریاتی ادارہ)کو اس پر شرمندہ ہونا چاہئے۔
جب سرکاری خزانے سے بننے والی ویڈیو میں اس کے بعد یہ کسی نامعقول حد تک یہ کہا جاتا ہے کہ ’’یہ صرف گزشتہ 20 برس کی بات ہے کہ جس میں لوگوں کی مزید تعداد کا آنا جانا لگا رہا ہے‘‘ یہ بھی ایک الارم بیل ہے جو اتنی ہی شدت سے بج رہی ہے۔ اس معاملے کو گھٹا کر پیش کرنا تعجب کی بات ہے۔
امیگریشن کے باعث گزشتہ دو دبائیوں میں برطانیہ کی آبادی ناقابل یقین حساب سے بڑھی ہے۔ 2015 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے امیگریشن سے متعلق مبصر ادارے نے پیش گوئی کی تھی کہ برطانیہ کی غیر ملکی آبادی (یعنی برطانیہ میں مہاجرین کی آبادی) پہلی مرتبہ 80 لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے ابھی تک ہماری قوم میں ہونے والی ان تبدیلیوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ درحقیقت یہ 80 لاکھ کی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے بارے میں حکام کو معلومات ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت 10 لاکھ غیر قانونی مہاجرین بھی موجود ہیں جن کے بارے میں برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے ابتدائیہ میں ایک لفظ بھی نہیںکہا۔ درحقیقت بدقسمتی سے فلم کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کیخلاف کسی بھی موڑ پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ہے‘۔
اس ویڈیو کا رخ پھر چار رویہ بات چیت کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جو ہپ ینگسٹرز (مقبول نوجوانوں) رہائز، ہیٹی، راہول اور ڈیاننا کے درمیان ہوتی ہے۔ رہائز اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کیا مہاجرت مخالف مہم برطانیہ کی خصوصیت بن گیا ہے؟۔ یہ ایک اشتعال انگیز سوال ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فلم کے اس حصے میں کچھ توازن برقرار رکھا گیا ہے جبکہ بالخصوص راہول کی جانب سے یہ کوششیں کی گئی ہیں کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں کہ کچھ لوگ کیوں امیگریشن کے حوالے سے انتہائی خدشات کا شکار ہیں۔ تاہم اس کام پر اس وقت پانی پھیر دیا گیا جب یو سی ایل کی جانب سے بنائے گئے اعدادوشمار کو اسکرین پر دکھایا گیا جو کہ 2016 میں پہلی مرتبہ شائع کئے گئے تھے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق ’’یورپی تارکین وطن ٹیکسز کی مد میں خود حاصل کردہ مراعات کے مقابلے میں اس 34 فیصد سے بھی زائد کا حصہ ملاتے ہیں‘‘۔ تاہم اس کا ثبوت کہاں ہے؟ وہاں اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا۔
اس کے بعد ہیٹی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سب سے پہلے برطانیہ کی حمایت کررہی ہے اور وہ لوگ اپنے قوم پرست نظریات کو دوبارہ سے نافذ کررہے ہیں۔ اس دعوے کے بارے میں بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے۔
مذاکرے کے آخر میں راہول کہتے ہیں کہ ’’اگر کوئی بھی ملک امیگریشن سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ہے تو اس کی تاریخ انتہائی غیر دلچسپ ہوگی۔ انہوں نے معروف میوزک (گرائم) کو بھی تارکین وطن کے مرہون منت قرار دیا اور اسے ایک بڑی ثقافتی خوبی قرار دیا۔
اس کے بعد اچانک سے ہی اسکرین پر ایک اعدادوشمار دکھائی دیتے ہیں، اوپینم ریسرچ فار دی گارجین کے مطابق ’’44 فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ برطانیہ کا کئی طریقوں سے بین الثقافتی معاشرہ بننا فائدہ مند ہے۔
تو یہ کثیر الثقافتی مباحثہ تھا نہ کہ امیگریشن سے متعلق تھا۔ کیا جو بچے یہ دیکھ رہے تھے انہیں ان دونوں کے بارے میں فرق کے بارے میں نہیں بتانا چاہئے تھا؟ اور جہاں تک اس کے اچھا ہونے کا تعلق ہے تو اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس سے اس بارے میں پوچھتے ہیں۔ بائیں بازو کے تنقید نگار جیسا کہ ٹریور فلپس ہیں ان کے ہاں کثیر ثقافت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کثیر ثقافت کے بارے میں ڈیننا آخری لفظ استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بقاء کے لئے یہ ایک طاقتور آلہ ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ یہی بقاء کا واحد ذریعہ ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر اسے برداشت کرنا چاہئےاور اس طرح اس ایجوکیشنل فلم کا اختتام ہوتا ہے۔
آخر میں اس حوالے سے ایک چھوٹا سا پرنٹ سامنے آتا ہے جس میں برطانوی نشریاتی ادارہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس ویڈیو کا مقصد مختلف ایشوز پرایک نئی بحث شروع کرنا ہے اور یہ مختلف زایوں سے ایک جامع تجزیہ نہیں ہے۔ دیگر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مقصد ایک نامعقول بحث شروع کرنا ہے اور اس میں تعلیمی لحاظ سے کچھ بھی نہیں تھا۔
ذمہ دارانہ؟ بالکل درست؟ معلوماتی، تعلیمی؟ میرے خیال سے لارڈ ریتھ کی روح تڑپ رہی ہوگی۔