• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ انتخابات ضرور ہونگے اور جمہوریت کی گاڑی آگے چلتی رہے گی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس ملک کے کسی گوشے سے بھی انتخابات کے التوا کی آواز نہیں اٹھ رہی۔ تمام سیاسی جماعتیں، ہر نوع کے باہمی اختلافات کے با وجود، اس بات پر متفق ہیں کہ انتخابات بروقت منعقد ہونے چاہئیں۔ عمران خان نے ایک ٹاک شو میں ضرور کہا تھا کہ الیکشن ڈیڑھ دو ماہ ملتوی کرنا پڑیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن انکی اس بات پر بھی خاصی تنقید ہوئی اور تحریک انصاف کو اسکی وضاحت کرنا پڑی۔ تمام ملکی اور ریاستی ادارے بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ انتخابات کا بروقت انعقاد ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔اس ضمن میں داخلی اور خارجی محر کات بھی نہایت اہم ہیں، جو جمہوریت کے تسلسل اور عوام کی حمایت یافتہ مستحکم حکومت کا تقاضا کرتے ہیں۔ فیصلہ ساز قوتوں کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات اور اس پر بوجوہ بڑھتا ہوا خارجی دبائو، انتخابات کے التوا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انتخابات کے قدموں کی چاپ تیز ہوتی جا رہی ہے۔ حلقہ بندیوں کا معاملہ بھی ساتھ ساتھ طے پا رہا ہے۔ حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے بس چند دن دور کھڑی ہے۔ان آخری دنوں میں فاٹا کو خیبر پختونخوامیں ضم کرنے کاآئینی بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا ہے۔ کثرت رائے سے اس تاریخی بل کی منظوری نہایت خوش آئند ہے۔ ستر سالوں کے بعد قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کا سہرا یقیناً مسلم لیگ (ن) کے سر ہے ۔تاہم پارلیمنٹ بھی اس اتفاق رائے کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن نے 25یا 26 جولائی کی دو تاریخیں حکومت کو تجویز کی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام پر بھی حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ یقیناََ 31 مئی تک یہ مرحلہ بھی آئینی طریقہ کار کے مطابق طے ہو جائے گا۔مبصرین کے نزدیک انتخابات کے انعقاد سے کہیں زیادہ اہم سوال اب یہ ہے کہ ان انتخابات کو کس طرح حقیقی معنوں میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنایا جائے کہ تمام سیاسی جماعتیں بھی خوش دلی سے نتائج تسلیم کر لیں اور عوام کو بھی یہ یقین ہو جائے کہ انکی رائے کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ ہمارے ہاں انتخابات کی تاریخ زیادہ اچھی نہیں رہی۔ کبھی دھاندلی کا شور اٹھا ۔ کبھی کہا گیا کہ زور آور قوتوں نے نتائج تبدیل کر دئیے۔ کبھی یہ شور اٹھا کہ بعض جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی آزادی نہیں دی گئی۔
گزرتے وقت کیساتھ ساتھ شفافیت کو یقینی بنانا نا گزیر ہو گیا ہے۔ عوام کی نظریں بڑی تیز ہو گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اب اتنے سادہ نہیں رہے۔ ٹیکنالوجی نے بھی چوری چھپے کے کرتب مشکل بنا دئیے ہیں۔ میڈیابھی تند و تیز ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا نے ایک بہت بڑے مبصر یا جاسوس کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ ووٹنگ اور گنتی کا عمل بھی" دھاندلی پروف" بنایا جا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس خبر کی تردید کر دی ہے کہ غیر ملکی مبصرین پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ البتہ انکے لئے ایک ضابطہ اخلاق ضرور تیار کیا جا رہا ہے۔ سو بظاہر یہی لگتا ہے کہ انتخابات ممکنہ حد تک آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونگے۔ یقیناََ اس مشق پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے کی جانے والی انتخابی اصلاحات بھی موثر اثرات ڈالیں گی۔
خدشہ صرف یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ کیا "الیکشن ڈے" سے پہلے بھی شفافیت ، غیر جانبداری اور تمام جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس پہلو سے کچھ سوالات تو ابھی سے اٹھنے لگے ہیں۔ عمومی اندازوں اور مختلف انتخابی جائزوں کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کو اب تک دوسری جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ تازہ ترین سروے کےمطابق مسلم لیگ (ن) کو 36 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جبکہ 24 فیصد پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس دوران پیپلز پارٹی بھی کسی حد تک متحرک ہوئی ہے اور اسکی حمایت 17 فیصد کے قریب جا پہنچی ہے۔ لیکن تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) شدید دبائو میں ہے۔ اسکی قیادت مقدمات میں الجھا دی گئی ہے۔ اس امکان کو اب یقین کا درجہ حاصل ہو تا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو جائے گی اور وہ انتخابی مہم کے عروج پر عوامی جلسوں میں ہونے کے بجائے کسی جیل میں ہونگے۔ پارٹی کی صف اول کی قیادت کو بھی کسی نہ کسی نوع کے مقدمات میں الجھا دیا گیاہے۔ خود میاں نواز شریف اور نہا ل ہاشمی کے بعد اب خواجہ آصف بھی عمر بھر کیلئے نا اہل ہو چکے ہیں۔ احسن اقبال کو اللہ پاک نے نئی زندگی دی ، لیکن انکے ساتھ پیش آنے والا انتہائی افسوسناک واقعہ یہ پیغام دے گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کیلئے انتخابی مہم چلانا کچھ آسان نہ ہو گا۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اے۔این۔پی کیلئے ایسی ہی صورتحال پیدا کر دی گئی تھی۔
سیاسی مبصرین یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے اور پانچ سال تک حکومت کا حصہ رہنے والے کئی اہم افراد پارٹی چھوڑ کر پی۔ٹی۔آئی کا رخ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کھلے عام الزام لگاتی ہے کہ ایسا دبائو کے تحت ہو رہا ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ نیب کی طرف سے جاری مہم کا بڑا ہدف بھی مسلم لیگ (ن) کے لیڈر یا اسکی حکومتوں سے منسلک بیوروکریسی ہے۔ حال ہی میں نیب کی طرف سے نواز شریف پر پانچ ارب ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھیجنے کا نہ صرف الزام لگایا گیا، بلکہ ایک باقاعدہ پریس ریلز کے ذریعے اسکی تشہیر بھی کی گئی۔ یہ اپنی نوعیت کا عجیب و غریب واقعہ ہے ۔ نیب اسکی کوئی قابل قبول وضاحت پیش نہیں کر سکا جبکہ مسلم لیگ (ن) اسے پری" پول رگنگ" کا نام دیتے ہوئے کردار کشی اور میڈیا ٹرائل سے تعبیر کر رہی ہے۔ان ساری باتوں کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو تصویر ایسی بنتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اپنے آپ کو شدید دبائو میں محسوس کرتی ہے۔اسکا دعویٰ ہے کہ اسکے ساتھ منصفانہ برتائو نہیں ہو رہا۔ اسکا راستہ روکنے کی منصوبہ سازیاں ہو رہی ہیں۔ اور اسکی مخالف سیاسی قوتوں کو طاقتور بنایا جا رہا ہے اور انکے لئے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے خدشات بے جا ہوں۔لیکن داخلی اور خارجی میڈیا کا ایک بڑاحلقہ اور سیاسی مبصرین کی اچھی خاصی تعداد، مکمل نہ سہی، جزوی طور پر مسلم لیگ (ن) سے اتفاق کرتی ہے۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ آگے چل کر ایم ۔ایم۔ اے ، اے۔ این۔ پی، شیر پائو کی جماعت اور بلوچستان کی بعض جماعتیں بھی اس طرح کا شکوہ کرتی نظر آئیں۔ لہٰذا نہ صرف الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں ، بلکہ تمام ریاستی اداروں پر بھی لازم ہے کہ وہ انتخابات کے چہرے کو بے داغ رکھنے کی کوشش کریں ۔ اگر انتخابات کے بعد ، سب سے بڑی ملکی جماعت نے نتائج کو متنازع قرار دے ڈالا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ ملک کو داخلی اور خارجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک مضبوط و مستحکم وفاقی حکومت کی ضرورت ہے۔ ایسی حکومت جسکی پشت پر پاکستان کے عوام بھی کھڑے ہوں ۔ اگر ادھر ادھر کی چھوٹی یا بڑی جماعتوں کو باہم جوڑ کر بھان متی کا کنبہ قسم کی حکومت بنا لی گئی تو وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے گی۔ وہ اس قابل بھی نہیں ہو گی کہ ملک کو درپیش داخلی مسائل پر قابو پائے اور ان چیلنجوں کا بھی مقابلہ کرے جنکی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین