• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امیر ترین آدمی.... وارن بفیٹ کے حالات و خیالات

دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور کھلے دل کے مالک وارن بفٹ نے اپنی زندگی یا مرنے کے بعد اپنی 99 فیصد دولت بانٹنے کا وعدہ کر رکھا ہے، انہوں نے اپنے 83 فیصد اثاثے ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کو دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔انہیں مرنے کے بعد بچوں کی بھی زیادہ فکر نہیں کیونکہ گیٹس فاؤنڈیشن کے نام ایک خط میں وارن بفٹ نے درخواست کی ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کو اتنا دے دیا جائے کہ وہ محسوس کرسکیں کہ انہیں دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ کرنا ہی ہوگا، مگر وہ اتنا بھی نہ ہو کہ ان کے اندر کچھ کرنے کا احساس ہی پیدا نہ ہو۔

وارن ایڈورڈ بفیٹ ایک امریکی تاجر، سرمایہ کار اور انسان دوست شخص ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کا سب سے زیادہ کامیاب سرمایہ کار تصور کیا جاتا ہے۔ بفیٹ برکشائر ہیتھوے کے چیئرمین، سی ای او اوراس کے سب سے بڑے حصہ دار ہیں۔وارن بفیٹ 2008 میں دنیا کے امیر ترین اشخاص کی درجہ بندی میں سر فہرست تھے۔2012 میں امریکی میگزین ٹائم نے بفیٹ کو دنیا کے بااثر ترین لوگوں میں سے ایک شمار کیا۔

شروعات کیسے ہوئی

وارن نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی۔ چار سال کی عمر میں وہ اسکول جانے لگا۔ وہ ابھی بچہ تھا لیکن اسے پیسے جمع کر نے کا بہت شوق تھا۔ خوشی کے موقع پر کسی سے پیسے ملتے تو وہ ان کو سنبھال کر رکھ لیتا۔ چھ سال کی عمر میں اس نے اپنے دادا کے دیکھا دیکھی کاروبار شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسکول جاتے ہوئے اپنے ساتھ بیچنے کے لیے چیونگم، کوکا کولا، ٹافیاں اور کھانے کی چھوٹی موٹی چیزیں لےجاتا۔جب وقفہ ہوتا تو ایک درخت کے نیچے اپنی چھوٹی سی دکان سجا لیتا۔

ٹافیوں وغیرہ کے ساتھ ساتھ اب نیوز پیپر کی ڈیلیوری کرنے لگا اور اسٹیشنری کا سامان بھی بیچنے لگا۔ 14سال کی عمر میں بفٹ نے اپنی آمدنی کا ٹیکس بھی ادا کیا۔ جب بفٹ کا ہائی اسکول میں آخری سال تھا۔ بفٹ اور اس کے دوست نے ایک منصوبہ بنایا کہ ایک نیا کاروبار شروع کریں۔ بفٹ بنیادی طور پرطالب علم تھا لیکن ہر وقت اس کا ذہن پیسے کمانے کے نت نئے طریقے تلاش کرتا رہتا تھا۔ دونوں نے مل کر ایک استعمال شدہ پن بال مشین 25 ڈالر میں خریدی اور مقامی حجام کی دکان کے سامنے رکھ دی۔ حجام کی دکان پر لوگ انتظار کے بجائے وقت گزاری اور تفریح کے لیے اس سے کھیلنے لگے اور اس سے آمدنی ہونے لگی۔ یہ چھوٹا سا کاروبار پھلنے پھولنے لگا۔ 

انہوں نے تین مشینیں اور خرید لیں اور مختلف حجام خانوں کےسامنے رکھیں۔ اس سے بھی کافی آمدنی ہونے لگی۔ اب ان کی تعلیم ہائی اسکول سے کالج جا پہنچی، جس کی وجہ سے اس کاروبار کی نگرانی مشکل ہو گئی تھی۔ اس لیے اس نے اس کاروبار کو 1200 ڈالر میں بیچ دیا۔ ہائی اسکول میں ہی پڑھتا تھا جب اس نے اپنے والد کے ذاتی کاروبار میں بھی سرمایہ کاری کی۔ کچھ عرصے بعد ایک فارم خرید لیا۔ اسے ایک مزارع کے حوالے کیا۔ اس سے بھی آمدنی حاصل ہونے لگی۔ باپ بھی اپنے بیٹےکی لگن دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔ ۔ بفٹ کو اسٹاک مارکیٹ میں بہت دلچسپی تھی۔ اس میں بھی سرمایہ کاری کی۔ 

بفٹ نے اپنے والد کی بروکیرج کمپنی کے قریب ہی ایک اسٹاک بروکیرج کھول لیا۔ کاروبار کا ایسا دھنی تھا کہ گیارہ سال کی عمر میں ایک کمپنی کے تین شیئرز اپنے لیے اور تین بہن کے لیے خریدے۔ 1947ء میں Pennsylvania کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1950ء میں Nebraska Lincoln یونیورسٹی چلا گیا۔ اس یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے B, B, A کیا۔ اسی دوران بفٹ نے بنجامن گراہم کی کتاب The Intelligent Investor پڑھی۔ اس نے بفٹ کے اندرعجیب جذبہ پھونک دیا کہ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے پارک کے سامنے گالف بال بیچنا اس کے لیے مشکل نہ تھا جیسا کہ آج کے غریب طالب علم بھی شرماتےہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کے ساتھ اکنامکس میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ جب گراہم کی کتاب پڑھی تو بفٹ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس کے ساتھ کام بھی کرے تاکہ اس کے تجربات و مشاہدات دیکھے اور آئیڈیے سن سکے۔ 

جذبہ جوان اور لگن سچی ہو، قسمت بھی یاوری کرتی ہے۔شومئی قسمت بفٹ نیو یارک میں گراہم کے ساتھ مل کر Wall Street پر کام کرنے لگا۔ دریں اثنا یہ گراہمکے آئیڈیے، مشاہدات اور تجربات سے مستفید ہوتا رہا۔ بفٹ ملازمت کی وجہ سے پارٹنرشپ پر توجہ دیتا رہا۔ اس کی پارٹنرشپ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ جہاں کسی کمپنی اور فیکٹری کا پتہ چلتا، یہ وہاں پارٹنرشپ کے موقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتا۔ اس طرح یہ ایک مال دار آدمی بن گیا۔ 1961ء میں اپنی پارٹنرشپ کے اثاثے ’’سن بورن میپ کمپنی‘‘ میں لگائے۔ اس کے علاوہ Dempster Mills میں سرمایہ کاری کی، پھر اسے خرید لیا۔ اسطرح یہ Dempster کا چیئرمین بن گیا۔ پھر اسے 2.3 ملین ڈالر میں بیچ دیا۔ وارن بفٹ کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے بزنس کی پیچیدگیوں سے خوب واقف تھا۔

کامیابی کا راز

اگر وارن بفیٹ کی حالیہ زندگی پر ایک نظر دوڑائی جائے تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گےکہ آج کے دور میں بھی وارن بفٹ کے پاس سمارٹ موبائل فون نہیں ہے۔ان کے آفس میں ان کے ڈیسک پر کمپیوٹر تک موجود نہیں ہے۔

2006 تک وہ اپنی گاڑی بھی خود چلاتے تھے یعنی انہوں نے کوئی ڈرائیور بھی نہیں رکھا تھا۔ اب بڑھاپا ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ بل گیٹس کی طرح انہوں نے بھی اربوں روپے خیراتی کاموں میں خرچ کئے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ دس سال کی عمر سے ہی وارن بفٹ نے نیویارک اسٹاک ایکس چینج کے لوگوں کے ساتھ لنچ کرکے اپنی زندگی کے مقاصد طے کرنے شروع کردئیے تھے جبکہ اس وقت کے بچے ہالی وڈ کے کارٹون اور مویز کےکیلئے بے چین رہتے تھے۔ انہوں نے نے اپنا سب سے پہلا سٹاک 11 سال کی عمر میں خریدا تھا۔انہوں نے آج تک صرف ایک ای میل بھیجی ہے۔ وہ اپنے دن کا اسی فیصد حصہ کتابیں پڑھنے میں گزارتے ہیں۔ وارن بفٹ نے 2013 میں 37 ملین ڈالر اوسطاً ایک دن میں کمائے تھے۔ جو کہ پاکستانی 3 ارب 88 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یعنی ایک دن میں اتنے پیسے۔

وارن بفیٹ کے مشورے

کبھی بھی کمائی کا ایک ذریعہ نہ رکھو ہمیشہ دوسری جگہ بھی پیسہ لگائو اور کمانے کے لیے دوسرا ذریعہ بھی رکھو۔

اگر آپ ان چیزوں کو خریدنے پر پیسہ لگاتے ہیں جن کی آپ کو ضرورت نہیں تو بہت جلد آپ کو وہ چیزیں بیچنی پڑ جائیں گی جن کی آپ کو ضرورت ہے۔

پیسے کی بچت مت کرو جو خرچ کرنے کے بعد باقی رہا۔۔بلکہ وہ پیسہ خرچ کرو جس کی آپ کے پاس پہلے سے بچت ہے۔

کبھی بھی دریا کے پانی کی گہرائی دونوں پائوں سے نہ جانچو۔

کبھی بھی ایک ہی باسکٹ میں تمام انڈے نہ رکھو۔(ایک ہی کاروبار میں اپنا سارا پیسہ انویسٹ نہ کرو۔)

ایمانداری بہت قیمتی تحفہ ہے۔۔۔۔اسے سستے(گھٹیا) لوگوں کو نہ دیں۔

وارن بفیٹ کا چیک: ایک حیرت انگیز واقعہ

ایک بزنس ایگزیکٹو قرضوں کی گہری دلدل میں پھنس گیا اور ان سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہورہاتھا۔قرض خواہ اور سپلائرز، سب کے سب اپنی رقوم کا بار بار مطالبہ کررہے تھے۔ وہ ایک روز ایک پارک میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کس طرح اپنی کمپنی کو دیوالیہ ہونے سے بچائے۔ اچانک ایک بوڑھا اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا:’’ لگتا ہے کہ آپ کسی سنگین پریشانی کاشکار ہیں، مجھے کچھ بتانا پسند کریں گے؟‘‘۔ بزنس ایگزیکٹو نے ساری کہانی بیان کی، سب کچھ سن کر بوڑھا کہنے لگا:’’ میرا خیال ہے کہ میں آپ کی مدد کرسکتاہوں۔‘‘ پھر اس نے پریشان حال بزنس ایگزیکٹو سے اس کا نام پوچھا، اپنی جیب سے چیک بک نکالی، ایک چیک کاٹا اور سے تھماتے ہوئے کہنے لگا:’’ یہ رقم لو، اور اگلے سال عین آج کے دن مجھے یہاں ملنا اور یہ رقم اس وقت واپس کردینا۔‘‘ یہ کہہ کر بوڑھا آدمی جس تیزی سے آیا تھا، اسی رفتار سے غائب ہوگیا۔بزنس ایگزیکٹو نے چیک پر نظرڈالی، یہ 5لاکھ ڈالرز کا تھا اور اس پر دستخط تھے وارن بفٹ کے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ امریکی شخص وارن بفٹ دنیاکے امیرترین لوگوں میں شامل ہے، ذاتی حیثیت میں اس سے زیادہ بڑا سرمایہ کاری کرنے والا دنیا میں کوئی نہیں۔چندبرس تک اس نے دنیا کے سب سے امیر آدمی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیاتھا۔ بزنس ایگزیکٹو کی پریشانی فوراً دور ہوگئی، تاہم اس نے اسی لمحے ایک نیا فیصلہ کیا کہ وہ یہ چیک کیش نہیں کرائے گا۔ چنانچہ اس نے چیک کو اپنی الماری میں سنبھال کر رکھ دیا۔ چیک نے اسے اپنا کاروبار بچانے کا ایک سنہری موقع فراہم کیاتھا، نئے عزم سے بھرپور محنت کا حوصلہ اور ہمت عطا کی تھی ۔تاہم اس نے سوچا کہ یہ چیک صرف ہنگامی حالات میں ہی کیش کرائوں گا۔ اب اس نے نئے کاروباری معاہدوں کے لئے نئی سوچ کے تحت مذاکرات کئے، اپنے پورے کاروبار کو نیا اسٹرکچر دیا، نئے جوش وجذبے سے کام کیا، نتیجتاً اس نے بہت سے کامیاب کاروباری معاہدے کئے۔ چندمہینوں کے دوران ہی اس نے سارے کا سارا قرضہ اتاردیا اور اس کی کمپنی دھڑا دھڑا نوٹ کمانے لگی۔ پورے ایک سال بعد، بزنس ایگزیکٹو اسی پارک میں عین اسی جگہ پہنچا۔اس کے ہاتھ میں 5لاکھ ڈالر کا وہی چیک تھا۔ 

دوسری طرف بوڑھا آدمی بھی وہاں پہنچا۔ جیسے ہی بزنس ایگزیکٹو بوڑھے آدمی کو چیک واپس کرنے اور اپنی کامیابی کی داستان سنانے لگا، ایک طرف سے ایک نرس دوڑتی ہوئی آئی۔ اور اس نے بوڑھے آدمی کو ہاتھ سے پکڑا اور یہ کہتے ہوئے واپس لے جانے لگی:’’ میں بہت خوش ہوں کہ میں نے اسے پکڑ لیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس نے آپ کو زیادہ تنگ نہیں کیاہوگا۔ یہ ہمیشہ مینٹل ہسپتال سے بھاگ جاتا ہے اور لوگوں سے کہتا رہتاہے کہ وہ وارن بفٹ ہے۔‘‘ یہ کہہ کرنرس بوڑھے سمیت غائب ہوگئی۔ بزنس ایگزیکٹو مارے حیرت کے وہاں کھڑے کا کھڑا رہ گیا، بالکل گنگ اور پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ۔ پورے ایک سال تک اس نے یہ سمجھ کر لوگوں کے ساتھ معاہدے کئے کہ اس کے پاس 5لاکھ ڈالرز ہیں۔ میں نے یہ واقعہ کہیں پڑھا تھا، شاید یہ مغرب والوں میں سے کسی کا من گھڑت قصہ ہو۔ تاہم اس میں ایک کھلی حقیقت موجود ہے کہ دولت ہی زندگی نہیں بدلتی، دراصل خود اعتمادی ہمیں ایک ایسی طاقت عطاکرتی ہے، جسے پاکر ہم اپنی ساری من پسند کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ یہی خود اعتمادی ہربحران کے اندر ہمارے کام آتی ہے۔(ماخوز)

تازہ ترین