بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے انتہا پسندی کو تمام ممالک کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے باہمی تعاون سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے پر زوردیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، ہمیں مل کر دشمنوں کیلئے زمین تنگ کرنا ہوگی، دہشت گردی کے خاتمے کا عہد کرنا ہوگا۔ عالمی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ براعظم ایشیا بدترین دہشت گردی کا شکار ہے ۔ یہ بھی ناقابل تردید سچائی ہے کہ معاشی اعتبار سے اسی براعظم کا مستقبل روشن ہے۔ چنانچہ اس براعظم میں بدامنی اور بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیوں کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو بات کو سمجھنا چنداں دشوار نہ ہوگا کہ دہشت گرد اسی خطے کو کیوں ہدف بنائے ہوئے ہیں؟ شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی مقاصد میں خطے میں پائیدار امن و استحکام کی سعی اور رکن ممالک کے مابین سیاسی، ثقافتی، تعلیمی اور فوجی تعاون شامل ہے۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ اس کا اہم مقصد ہے۔ یہ حقیقت بھی اب دنیا پر عیاں ہو چکی کہ دہشتگردی کے کچھ خاص سیاسی، گروہی اور جیو اسٹرٹیجک ہوتے ہیں، چنانچہ یہ کسی بھی علاقے، کسی بھی مذہب سے نتھی نہیں کی جاسکتی۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے سانحات رونما ہورہے ہیں اور ان میں مختلف علاقوں کے جدا جدا مذہب رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔المیہ یہ رہا کہ پروپیگنڈے کے ذریعے دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کو موثر بنانے کی بجائے مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی مہم چلائی گئی جس سے نقصان یہ ہوا کہ دہشت گردی بڑھتی چلی گئی اور اب مسلم مخالف پروپیگنڈہ کرنے والوں کے اپنے ملکوں کے بعض نوجوانوں میں انسانی خون بہانے کا رجحان نمایاں طور پر نظر آرہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی رائے انتہائی صائب ہے کہ ہمیں مل کر دہشت گردوں کیلئے زمین تنگ کرنے کا عہد کرنا ہوگا، ایک دوسرے پر شکوک و شبہات اور الزامات کی روش اپنائی گئی تو دہشتگردی سے چھٹکارا نہ مل سکے گا۔