• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جلتی برف.... پگھلتے شعلے

 دنیا کے 75فی صدماحولیاتی سائنسدان متفق ہیں کہ انسان نے گزشتہ دو صدیوںمیں ترقی کے نام پر زمین کے ماحول کو تبدیل کیا جس سے کرہ ارض میںحدت پیدا ہو گئی ۔ انسان کے ہاتھوں اس برق رفتار تبدیلی نے زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب کردیئے ہیں۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ سور ج اور چاند ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور دنیا کو مسخر کرنے کی لگن میں، عالمی تباہی کا یہ راستہ ہم نے اپنی مرضی سے خود چنا ہے۔عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے ،گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کوغیر معمولی حالات کا سامنا ہے جس میں کراچی میں شدید گرمی سے سیکڑوں جانیں ہوئیں تو دوسری جانب تھر میں مستقل خشک سالی کا سامنا رہا اور شمالی علاقوں میں غیر متوقع شدید بارشوں اور پہاڑوں پر برفباری سے کئی جانیں ضائع ہو ئیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گزشتہ آٹھ سے دس برسوں میں پاکستان اور بھارت میں مون سون بارشوں کا نظام غیر متوقع ہو گیا ہے اور درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گرمی میں اضافے کے سبب مشرقی افریقی ممالک میں صرف پانچ برسوں کے دوران ڈھائی لاکھ سے زیادہ اضافی اموات ہوئیں جبکہ بھارت اور پاکستان میں گرمی کی لہروں میں چار ہزار سے زائد افراد دنیا سے چلے گئے ۔ جس طرح زمین کا ماحول بتدریج گرم ہو رہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سن 2100 میں جنوبی ایشیائی ملکوں کے بعض حصے انسانی آبادیوں سے محروم ہو جائیں گے۔محققین کا کہنا ہے کہ تقریباً پچاس ساٹھ برس بعد جنوبی ایشیائی خطے کی تیس فیصد آبادی کھولتے پانی جتنے درجہ حرارت کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ برصغیر پاک و ہند کے گنجان آباد دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ اتنے شدید گرم موسم میں زندگی کا بچنا محال ہو جائے گا۔ ہولناک گرم لْو آئندہ دو تین دہائیوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہو جائے گی اور اناج کے لیے زرخیز دریائے گنگا کا میدانی علاقہ بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں پر عمل نہ کرکے دنیا بھر میں پانچ سو ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہاہے جو 2010میں دس عشاریہ پانچ ارب ڈالر سے شروع ہوا۔یہ نقصان سالانہ74ٹریلین ڈالر سے زائد تک پہنچ جائے گا۔2003اور2008 کے درمیان گرین لینڈ،انٹار کٹیکااور الاسکا سے دو ٹریلین ٹن برف پگھلی۔ اس طرح ہر سیکنڈ بعد12500ٹن پانی سمندروں میں شامل ہو رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس صدی میں سمندر کی سطح دو میٹر تک بلند ہوسکتی ہے،اگر سمندر کی سطح ایک میٹر بلند ہو جائے توایسا تباہ کن سیلاب آئے گا اور خاص کر ایشیا میں،دس کروڑ افراد کے گھر تباہ ہوجائیں گے۔دنیا کی 75فی صد آبادی سمندروں کے ساتھ یا ساحلی علاقوںمیں رہتی ہے،دنیا کے پندرہ بڑے شہروں میں گیارہ سمندروں کے ساحل پر آباد ہیں۔کتنا بڑا انسانی اور معاشی المیہ جنم لے سکتا ہے۔گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی مثال مونٹانہ گلیشئر نیشنل پارک کی ہے جہاں1910میں150گلیشئر تھے جو اب 27رہ گئے ہیں۔

سن2015 کی گرمی کراچی پر کیوں قہر بن کر نازل ہوئی؟

جون2015میں کراچی میں گرمی کی شدید لہر ’ ہیٹ ویویو ‘ آئی جس میں دو ہزار سے زیاد افراد جاں بحق ہوئے،اس لہر میں کئی مویشی اور چڑیا گھر کے جانور بھی ہلاک ہوئے۔انہی دنوں بھارت میں بھی شدیدگرمی نے ڈھائی ہزار افراد کی زندگیا ں چھین لیں۔کراچی کا یہ موسم غیر معمولی تھا اور پاکستان کی تاریخ میں موسم کی شدت سے اتنی زیادہ اموات شاید پہلے کبھی نہیں ہوئیں تھی۔ ماضی میںکراچی میں 1979 میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا اور یہاں گرمی کی شدید لہر کے دوران بھی عموماًدرجہ حرارت45 یا 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا ، تاہم2015 میں ہیٹ انڈیکس 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا ، جس کی وجہ سے شدید حبس اور گھٹن ہوئی اور سب سے زیادہ اس کا اثر عمر رسیدہ افراد پر پڑا۔ماہرین کے خیال میںکراچی میں 2015میں گرمی کی شدید لہر کی اصل وجہ گلوبل وارمنگ کے باعث موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تھے۔

کراچی میں زیادہ اموات کے جو غیر معمولی عوامل بنے، ان میں سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں جو معمول کے مطابق چلتی تھیں وہ رک گئیں، ہوا میں نمی زیادہ تھی اور دباؤ معمول سے بہت کم تھا، اس کے ساتھ درجہ حرارت زیادہ تھا جس کے باعث ہیٹ انڈیکس ریکارڈ سطح تک بڑھ گیا اور لوگوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہا۔ کراچی کے موسم کے متعلق ماہرین بتاتے ہیں کہ ساحلی پٹی پر سال میں دس ماہ سمندر سے آنے والی ہوائیں چلتی ہیں، تاہم سال کے دو ماہ اپریل اور ستمبر یعنی گرمیوں اور سردیوں کے آغاز میں سمندر کی ہوا بند ہو جاتی ہے اور اسی عرصے کے دوران ساحلی علاقوں میں موسم متعدل رہنے کے بجائے گرم ہوتا ہے ۔لیکن 2015 میں موسم غیر معمولی صورت حال اختیار کرگیا اور جون کے مہینے میں سمندری ہوائیں بند ہوگئیں ، اس کے ساتھ خشک علاقوں سے گرم ہوائیں چل پڑی جس نے کراچی میں شدید گرمی پیدا کردی۔ سیکڑوں ہلاکتوں کی وجہ کراچی کے باسیوں کا گرمی کی شدت کو برداشت نہ کرنے کی صلاحیت بھی تھی۔رپورٹ میںبتایا گیا کہ ہلاکتوں میں اضافے کی وجہ پانی کی عدم دستیابی یا لوڈشیڈنگ نہیں تھا۔ پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل آصف شجاع کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ شہری آبادی میں اضافہ،بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر،پودوں کی کٹائی یا جنگلات میں کمی اور سڑکوں پر بے تحاشا گاڑیاں ہیں جنہوں نے موسم تبدیل کردیا ہے ،1993کے بعد سے گرمی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے جو چودہ سو سال کے بعد اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

نواب شاہ میں گرمی کا عالمی ریکارڈ

دنیا بھر میں اپریل میں گرمی کی شدت کبھی زیادہ نہیں ہوئی، مگرپاکستان کا شہر نواب شاہ اس میں عالمی ریکارڈ بنا گیا اور رواں سال 30 اپریل کو یہاں درجہ حرارت 50عشاریہ 2 سینٹی گریڈ(سلیسیس) تک جا پہنچا ۔ کرہ ارض پراس قدرزیادہ درجہ حرارت اپریل میںاس سے قبل کبھی ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا۔ ضلع نواب شاہ کی آبادی میں گذشتہ ایک عشرے میں اضافہ ہوا اور یوں اس کی آبادی 11 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اتنی زیادہ شدید گرمی کی کیا وجوہ ہیں، کہا جاتا ہے کہ کبھی اس شہر کے باہر باغات تھے، لیکن آبادی کیساتھ باغات ختم ہوگئے اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئی ۔ دریائے سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے میں60 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر گھنے جنگلات تھے ،جواب 12 ہزار ایکڑ تک سمٹ گئے ۔ شہر کے ایک طرف پہاڑی سلسلہ تو دوسری طرف خیر پور ضلع کے ساتھ صحرائی ریاست راجستھان ہے، یہ شہر سمندر سے بھی دور ہے اوریوں یہ عوامل درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنے،تاہم نواب شاہ میں درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ ماہرین عالمی موسمی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں۔

ہیٹ انڈیکس

انسانی جسم پر گرمی کی شدت ناپنے کے لیے ہیٹ انڈیکس بنایا گیا ۔ یہ درجہ حرارت اورہوا میں موجود فیصد نمی کے تناسب کا کمبی نیشن ہے۔اگر ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جائے گا تو اس سے ہیٹ انڈیکس بھی بڑھ جائے گا۔ نمی کی زیادتی سے انسانی جسم سے گرمی کے اخراج کا نظام متاثرہوتاہے جس سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میںہیٹ انڈیکس کا مطلب وہ درجہ حرارت یا گرمی ہے جو انسان محسوس کرے۔ کراچی میں2015میں 50 سال کے عمر تک کے افراد کے لیے ہیٹ انڈیکس 49 ڈگری تھا لیکن 75 برس کے افراد کے لیے ہیٹ انڈیکس 50 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔

1880عالمی سطح پر درجہ حرارت کے اندراج کا آغاز

اگر دیکھا جائے توعالمی درجہ حرارت میں اضافے کے ریکارڈز 1880ء تک کے ہیں کیونکہ یہ وہ سال ہے جب عالمی سطح پر درجہ حرارت کا اندراج شروع ہوا تھا۔2014کی ماحولیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کی رپورٹ کے مطابق 1850سے2012تک عالمی درجہ حرارت میں ایک عشاریہ چار ڈگری فارن ہائیٹ یا عشاریہ آٹھ ڈگری سینٹی گریڈاضافہ ہوا ۔1901کے بعد سے سطح سمندر اوسطاً سات عشاریہ چار انچ بلند ہوئی۔یہ گزشتہ دو صدیوں میں سب سے بلند سطح ہے۔1950کے بعد سے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے حدت میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق21 ویں صدی میں زمین کی گرمی میں تیزی آئی ہے اور 2001 کے بعد سے تاریخ کے 16 گرم ترین سالوں میں سے 15 اسی صدی میں گزرے ہیں۔اب عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب کے زمانے سے قبل کی سطح کے قریب رکھنا ناممکن ہے۔ موسمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والاعالمی ادارہ ہر چھ سال بعد زمین کے درجہ حرارت اور موسمی تبدیلی کے متعلق رپورٹ دیتا ہے جس کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں موسمی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔

دنیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت کا عالمی ریکارڈ

کچھ رپورٹس کے مطابق دنیا کاسب سے زیادہ درجہ حرارت لیبیا میں صحرائے اعظم میں واقع ایک مقام عزیزیہ پر ریکارڈ کیا گیا جو 13 ستمبر 1922ء کو 58 ڈگری سینٹی گریڈ رہا جسے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ،تاہم بعد میں اس کے درجہ حرارت کے ریکارڈ کرنے میں شکوک و شبہات نے جنم لیا جس کے بعد گینز بک انتظامیہ نے امریکی ریاست کیلیفورنیا کی موت کی وادیDeath Valley کو دنیا کا انتہائی گرم مقام کا درجہ دے کر اسے ورلڈ ریکارڈ میں سرفہرست جگہ دی ، جہاں 10 جولائی 1913ء کو درجہ حرارت 56 اعشاریہ 7 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ یہ براعظم شمالی امریکہ کا گرم ترین مقام ہے۔

135سال بعد اپریل 2016دنیا کا گرم ترین مہینہ

اپریل 2016میں گرمی نے 135سال سے زائد کا ریکارڈ توڑ دیا تھا ۔ناسا کے مطابق 1880ء کے بعد سے عالمی سطح پر اپریل میں پڑنے والی سخت ترین گرمی تھی۔ اس ماہ میں دنیا کا اوسط درجہ حرارت ایک عشاریہ گیارہ ڈگری سینٹی گریڈ یا ایک عشاریہ 99 فارن ہائیٹ رہا جو 20 ویں صدی کے اوسط درجہ حرارت سے زیادہ تھا۔ جنوری سے اپریل کا شمار کرہ ارض کے ریکارڈ گرم ترین درجہ حرارت کے مہینوں میں کیا گیا۔ناسا کے خشکی اور سمندری درجہ حرارت کے130 سالوں سے زائد عرصے کے ریکارڈ کے مطابق یہ اب تک کا سب سے گرم ترین مہینہتھا۔ناسا نے 1951ء سے 1980ء کے درمیان سالوں کے اوسط عالمی درجہ حرارت کو سامنے رکھا۔ اپریل2016 مسلسل چھٹا مہینہ تھاجب 1951ء سے 1980ء کے اوسط درجہ حرارت کے مقابلے میں عالمی درجہ حرارت ایک فیصد زیادہ ریکارڈ کیا گیا ۔ دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ 1880ء کے بعد سے صرف گزشتہ برس کے اندر اندر عالمی درجہ حرارت میں 25 فیصد اضافہ ہو ا۔ قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں، ہونے والی موسیماتی تبدیلی کے اثرات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو گیا ۔جنوبی امریکہ کا اب تک کا گرم ترین سال2015 تھا، جب کہ ایشیا میں 2007ء گرم ترین سال تھا ۔ سن 1960 کے بعد دنیا کا گرم ترین سال2010ء تھا۔

اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے،قران مجید

پوری کائنات، تمام ستارے اور سیارے خلاؤں میں تیر رہے ہیں۔ یہ سب معلق ہیں، کسی چیز پر ٹکے ہوئے نہیں ہیں،کائنات کے ذرے ذرے میں ایک توازن اور ربط ہے۔

٭’’سورج اور چاند ایک حساب میں (بندھے ہوئے) ہیں‘‘ (سورہ رحمن۔5)

٭اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب باعلم اللہ تعالیٰ کا۔(سورہ یس ٓ۔38)

٭وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔(سورہ الانبیاء۔33)

٭نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے ، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔(سورہ یس ٓ۔40)

٭ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا، تاکہ تم کو آزماکر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر کرنے والا بھی۔ جس نے تہہ بر تہہ سات آسمان بنائے، تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کا تفاوت نہ پاؤ گے، پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمھیں خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی (لیکن کہیں بے ربطی، عدم توازن اور خلل نظر نہ آئے گا)‘‘۔ (سورہ الملک۔ 1تا4)

کرہ ارض کا اوسطاً درجہ حرارت سوا لاکھ سال پہلے گرم دورجیسا ،جب تباہی آئی تھی

اس وقت کرہ ارض کا اوسطاً درجہ حرارت لگ بھگ وہی ہے جو ایک لاکھ 25 ہزار سال قبل تھا جب زمین پر گرم دور شروع ہونے سے تباہی آئی تھی۔ سن 2017کی ایک رپورٹ کے مطابق گرم دور کے آغاز سے سمندروں کی سطح آج کی سطح کے مقابلے میں 6 سے 9 فٹ تک بلند ہو گئی تھی اور بہت سے علاقے غرق ہو گئے تھے۔امریکی یونیورسٹی کے سائنس دانوںکا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار اور قدیم دور کے موسم کے نمونوں کے موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوا لاکھ سال پہلے کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت 1995 اور 2014 کے عرصے کے دوران کے اوسط درجہ حرارت کے تقریباً برابر تھا۔سن 2016 میں بھی مسلسل تیسرے سال دنیا کے درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ رہا، اس کے نتیجے میں بھارت کے کئی علاقوں میں اتنی زیادہ گرمی پڑی جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں اور منجمد آرکٹک میں بڑے پیمانے پر برف پگھلی۔ قطبی اور بلند پہاڑی سلسلوں میں صدیوں پرانے گلیشیئرز پگھلنے میںتیزی آرہی ہے جس نے برف کی پرتیں خطرناک حد تک کم ہونے اور طغیانیاں آنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے کئی ساحلی علاقوں اور جزائر کے ڈوبنے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں زمین اور سمندروں کی سطح پر درجہ حرارت بیسویں صدی کے اوسط درجہ حرارت سے ایک اعشاریہ 69 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ تھا۔ 20 صدی کا اوسط درجہ حرارت 57 درجہ فارن ہائیٹ تھا۔

زمین پر زندگی ممکن ؟ دیگر سیاروں میںکیوں نہیں؟

نظام شمسی میں زمین کے علاوہ دیگر سیارے یا تو انتہائی گرم ہیں یا شدیدسرد ،زمین کے درجہ حرارت میںتوازن اوراستحکام کی وجہ اس کا ماحول ہے جو مختلف گیسوں کی تہوںپر مشتمل اسے تحفظ فراہم کرتا ہے،سورج سے آنے والی حرارت ،روشنی کی شکل میں زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہو کر واپس خلا میں بکھر جاتی ہے۔ سورج سے آنے والی یہ روشنی یاتابکارشعاعیںتسلسل کے ساتھ زمین پر یلغار کرتی ہیں ۔ان میں نظر آنے اور نہ آنے والی روشنی جن میںالٹروائلٹ،انفرارڈ اور دیگر شعاعیں شامل ہیں ،ناسا کے مطابق زمین پر پڑنے والی تیس فی صد روشنی یاحرارت بادلوں،برف اور دیگر منعکس ذرائع سے واپس لوٹ جاتی ہے، جب کہ ستر فیصد روشنی کوسمندر،زمین اور ماحول اپنے اندر جذب کرلیتا ہے،جیسے سمندر،زمین اور ماحول گرم ہوتے ہیں تو انفرارڈ تھرمل شعاعوں کی شکل میں گرمی خارج کرتے ہیں ۔ روشنی یا حرارت کے آنے اور جانے میں ایک توازن سے زمین پر زندگی ممکن ہے۔کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت59ڈگری فارن ہائیٹ(15ڈگری سینٹی گریڈ) ہے۔اگر یہ توازن نہ ہو تو زمین چاند کی طرح سرد اور بے جان ہوتی یا سیارہ زہرہ کی طرح جلتا ہوا آگ کا گولہ ہوتی۔تاہم واضح رہے کہ چاند کا اپنا کوئی ماحول نہیں، اس کا درجہ حرارت منفی243 ڈگری فارن ہائیٹ یا منفی153سینٹی گریڈ ہے، دوسری طرف سیارہ زہرہ کا ماحول شمسی تابکاری کی بھاری مقدار کی وجہ سے بہت گہرا ہے اور اس کا اوسط درجہ حرارت864ڈگر فارن ہائیٹ یا 462ڈگری سینٹی گریڈہے۔ اگر دنیا کا اوسط درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تو قطب شمالی اور قطب جنوبی پر موجود برف کے عظیم ذخیرے پگھل جائیں گے اور سمندر کی سطح اونچی ہو جائے گی۔ اس وجہ سے بہت سے ساحلی شہر پانی میں غرق ہو جائیں گے۔

جلتی برف.... پگھلتے شعلے

بیشک گرمی کی شدّت جہنم کی تپش میں سے ہے،حدیث نبویﷺ

دنیا میں گرمی کی شدت میں اضافے سے بے چینی و بے قراری بڑھ جاتی ہے ،بدن باربار پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے اور وہ غسل کرکے ٹھنڈک حاصل کرتا ہے لیکن میدانِ محشر میں گرمی کا یہ عالم ہوگا کہ سورج ایک میل کے فاصلہ پر آجائے گا اور لوگ پسینے میں اپنے اعمال کے مطابق ڈوبے رہیں گے ،دنیا کی گرمی دراصل آخرت کی گرمی اور جہنم کی آگ کی تپش کو یاد دلانے کا ایک ذریعہ ہے ،تاکہ دنیا کی بے چین کردینے والی گرمی ،دہکتی ہوئی آگ ، چلچلاتی ہوئی دھوپ اور جھلسادینے والی لْو کو دیکھ کر بندوں کو میدانِ محشر کی گرمی کا کسی قدر احساس ہوسکے ۔

٭۔ آپ ﷺ نے فرمایا:روز قیامت سورج مخلوق سے ایک میل کے فاصلے پر آجائے گا اور لوگ اپنے اپنے اعمال کے حساب سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے،کوئی ٹخنوں تک ڈوبا ہو گا ،کوئی گھٹنوں پر اور کوئی منہ تک ڈوبا ہوگا۔( مسلم :حدیث نمبر؛5112)

٭۔حضرت ابوہریرہؓنبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں : جہنم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی’ اے میرے پروردگار! میرا بعض حصہ بعض کو کھارہا ہے،پس مجھے سانس لینے کی اِجازت مَرحمت فرمائیے ، اللہ تعالیٰ نے اْسے دو سانس لینے کی اِجازت دیدی،ایک سانس سردی میں اور دوسری گرمی میں۔پس تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو تو وہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور جو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ بھی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔(مسلم:617)

٭۔ایک روایت میں ہے،حضرت ابوذر غفاری ؓنبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں :’ بیشک گرمی کی شدّت جہنم کی تپش میں سے ہے۔(بخاری:539)

٭۔حضرت ابوہریرہؓنبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں : تمہاری (دنیا کی ) آگ دوزخ کی آگ کے ستّر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ !یہ تو دنیا کی آگ ہی (عذاب دینے کے لئے ) کافی تھی (پھر اس سے بھی زیادہ حرارت وتپش رکھنے والی آگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟) آنحضرت ﷺ نے فرمایا : دوزخ کی آگ کو یہاں (دنیا ) کی آگ انہتر (69)حصہ بڑھا دیا گیا ہے اور ان انہتر حصوں میں سے ہر ایک حصہ تمہاری (دنیا کی) آگ کے برابر ہے۔(بخاری:3265)

٭۔ حضرت مقدادبن اسودؓنبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : قیامت کے دن سورج کو مخلوق سے قریب کردیا جائے گاحتی کہ وہ ان سے ایک ’’میل‘‘ کے فاصلے پررہ جائے گا۔حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر ؓ فرماتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ میل سے مراد زمین کی مسافت ہے یااس سے مرادوہ میل (سلائی)ہے جس کے ذریعہ آنکھ میں سرمہ لگایا جاتاہے ،پھر آپ ﷺ نے فرما یا: لوگوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کے مطابق پسینے میں ڈوبا ہو ا ہو گا۔ان میں سے کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک ہو گا، کسی کا پسینہ اس کے گھٹنوں تک ہوگا ، کسی کا پسینہ اسکی کوکھ تک ہو گا، او ر آپ ﷺنے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر مایا : کسی کا پسینہ اسکولگا م دے رہا ہو گا۔یعنی اس کے منہ تک ہوگا۔(مسلم:2864)

٭۔حضرت ابوہریرہؓنبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں : قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے یہاں تک کہ ان کا پسینہ زمین پر 70 ہاتھ تک پھیل جائے گا( اور وہ اس میں ڈوب رہے ہوں گے)یہاں تک کہ وہ ان کے منہ تک یا کانوں تک پہنچ جائے گا۔(مسلم:2863)

گرین ہاؤس ایفیکٹ نہ ہوتا تو دنیا کا اوسط درجہ حرارت منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ رہ جاتا،گرین ہاؤس اثر کیا ہے؟

کرہ ہوائی میں موجود جو گیسیں روشنی،حرارت یا تابکار شعاعوں کو جذب کرلیتی ہیں جنہیںگرین ہاؤس گیسیں کہا جاتا ہے ، ان میں آبی بخارات،کاربن ڈائی آکسائیڈ،میتھین،نائیٹروس آکسائیڈ،اور دیگر گیسیںشامل ہیں۔ گرین ہاؤس اثر اس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سے زمین سورج سے حاصل توانائی کومقید کر لیتی ہے، کرہ ہوائی میں موجود گیسیں جب حرارت کے کچھ حصے کو جذب کر لیتی ہیں، تو کرہ ہوائی کا نچلا حصہ اور زمین کی سطح دونوں گرم ہو جاتے ہیں۔ ہوا میں 99 فی صدگیسیں آکسیجن اور نائٹروجن ہیں جو سورج کی حرارت جذب نہیں کرتیں۔ لیکن آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین، نائٹروس آکسائیڈ اورسی ایف سی سورج کی حرارت جذب کر کے دنیا کو گرم کرتے ہیں۔ سائنسی طریقے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ماحول میں78فی صد آکسیجن اور21فی صد نائیٹروجن ہے ان دونوں گیسوں کے مالیکیولز دو ایٹموں پر مشتمل ہیں، ساخت پیچیدہ ہونے کی وجہ یہ مالیکیولز زیادہ حرارت جذب نہیں کرتے جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ،آبی بخارات اور میتھین ہر ایک میں تین ایٹمز پر مشتمل مالیکیولز ہیں جوساخت کے لحاظ سے نرم ہیں اور سورج کی طرف سے آنے والی حرارت کو آسانی سے جذب کرلیتے ہیں، جب یہ دوبارہ حررات خارج کرتے ہیں تو حدت میں اضافہ ہو جاتا ہے جسے گلوبل وارمنگ کانام بھی دیا جاتاہے۔اگر گرین ہاؤس ایفیکٹ نہ ہوتا تو دنیا کا اوسط درجہ حرارت جو 14 یا 15 ڈگری سینٹی گریڈ ہے وہ منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ رہ جاتا، اور اس پر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا۔ کیمسٹری میں پہلے نوبیل انعام یافتہ سویڈش سائنسدان سوینٹ آرہینیس نے1896میں گرین ہاؤس ایفیکٹ کے متعلق تحقیق پیش کی تھی۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ، دنیا میں سالانہ 33ارب ٹن خارج ، انسانی جسم یومیہ ایک کلو پیداکرتا ہے

سب سے اہم گرین ہاؤس گیس پانی کے بخارات ہیں، لیکن یہ فضا میں چند دن ہی باقی رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہتی ہے۔ انسان قدرتی ایندھن جلا کر اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کاٹ کر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ کر رہا ہے، انسانی سرگرمیوں کے باعث خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا نصف حصہ فضا میں باقی رہتا ہے جبکہ باقی پودے، درخت، زمین اور سمندر جذب کر لیتے ہیں۔ دنیا میں سالانہ 33ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، ایک انسانی جسم یومیہ ایک کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے جس میں سے290گرام کاربن سانس کے ذریعے باہر نکالتا ہے ۔

ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی آمیزش بہت زیادہ بڑھ گئی،18ویں صد ی کے آغاز پراس کی ماحول میں مقدار280 حصے فی دس لاکھ تھی جو آج410پی پی ایم ہے۔یعنی ہوا کے دس لاکھ مالیکیولز میں 410مالیکیولز کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہیں جو گزشتہ8 لاکھ سال میں سب سے زیادہ ہیں۔ فضاء میں کاربن ڈائی کا اخراج اس قدر زیادہ ہے کہ ماحولیات کی تبدیلی کو روکا نہیں جا سکتا اور یہ مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ سن2012 میں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج35اعشاریہ6 ارب ٹن تھا جو کہ دوہزارگیارہ کے مقابلے میں دو اعشاریہ چھ فی صد زیادہ ہے۔ اگر ان اعدادوشمار کا موازنہ انیس سو نوے کی سطح سے کیا جائے تو یہ اضافہ اٹھاون فی صد زیادہ ہے۔ فضا میں پچاسی فی صد کاربن ڈائی آکسائد ’تابکاری قوت‘ کی وجہ سے ہے اور یہ درجہ حرارت میں اضافے کا اہم سبب ہے۔ورلڈ میٹریولوجیکل آرگنائزیشن یعنی ڈبلیو ایم او کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ان دیگر گیسوں کی وجہ سے ہمارا موسمیاتی نظام انیس سو نوے کے بعد سے ایک تہائی تک تبدیل ہوا ہے۔دوحہ میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں کئی چھوٹے ممالک نے کہا تھا کہ دو سینٹی گریڈ اضافے سے کم سطح پر بھی کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہمارے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔

میتھین کی مقدار عالمی سطح پرسولہ فی صد: گائے عالمی حدت کی بھی اہم وجہ

میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بعد دوسری اہم گرین ہاؤس گیس ہے اور اس کی مقدار میں کافی سالوں کے استحکام کے بعد اضافہ ہو رہا ہے۔2015کی رپورٹ کے مطابق مجموعی گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین کی مقدار عالمی سطح پرسولہ فی صد تھی۔ ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں ایک ٹن میتھین28گنا زیادہ تھرمل توانائی کو جذب کرتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ میتھین گیس کا دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے میں نمایاں کردار ہے۔ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق میتھین بھی فضا میں اب تک کی اپنی سب سے زیادہ سطح پر ہے۔ اس کے ماخذات میں قدرتی (دلدلی علاقے، دیمک، جنگل کی آگ) اور انسانی ذرائع (زراعت، کوڑا، کوئلے کی کانوں سے اخراج) شامل ہیں ۔زیادہ تر مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ میتھین میں اضافے کی وجہ مویشی ہیں،2011میں ماحول میں شامل ہونے والی میتھین کی گیارہ فیصد مقدارفی مویشی تھی۔ ڈنمارک کی تحقیق کے مطابق چار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جتنا گرین ہاؤس گیس پیدا کرتی ہے ،اتنا ایک گائے سال میں میتھین پیدا کرکے نقصان دیتی ہے،اس وقت دنیا میں ڈیڑھ ارب گائے موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2006کی ایک رپورٹ کے مطابق مویشی اور خاص کر گائے عالمی حدت کی بھی اہم وجہ ہیں اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں18گنا زیادہ گرین ہاؤس پیدا کرتی ہیں ۔

عالمی تپش میں اسمارٹ فونز،کمپیوٹرز بھی پیش پیش، ٹیکسٹ میسج،ای میل سے ہزاروں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج

عالمی حدت کے اضافے میںاسمارٹ فونز،کمپیوٹرز،لیپ ٹاپ جیس ٹیکنالوجی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔دنیا میں اس وقت اسمارٹ فونز کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ تحقیق کے مطابق موبائل ڈیوائسزسے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں آئندہ پانچ برسوں میں دگنی ہوجائیں گی۔اسمارٹ فون چارجنگ سے اب سالانہ چھ عشاریہ چار میگا ٹن گرین ہاؤس گیس خارج ہوتی ہے جو2019میں تیرہ میگاٹن سالانہ تک پہنچ جائے گی۔یہ مقدار سالانہ گیارہ لاکھ کاروں سے خارج گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہو گی۔اگر ان ڈیوائسز کے استعمال اور ان کی تیاری کے دوران خارج ہونے والی گیسوں کا مجموعی اندازہ لگائیں تو 2010میںاسمارٹ فونز سے سترہ میگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی تھی ، آئندہ 2020تک730فی صد اضافے کے ساتھ125میگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان ڈیوائسزکے استعمال کے دوران اتنی زہریلی گیسیں خارج نہیں ہوتی ،جتنی ان کی پروڈکشن کے دوران ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،مانیٹرز،اسمارٹ فونز، اور ٹیبلٹ کا عالمی حدت میں2007میں ایک فی صد حصہ تھا،2020میں تین عشاریہ پانچ فی صد اور2040تک چودہ فی صد حصہ ہوگا۔دنیا بھر کے ٹیکسٹ میسج سے سالانہ 32ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ ایک ای میل سے چار گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکسٹ میسج یا ای میل سے کیسے گیسوں کا اخراج ممکن ہے تو اس کا سادہ الفاظ میں جواب یوں ہے ، کسی بھی ڈیٹا سرور سے ٹیکسٹ میسج بھیجا جاتا ہے ،ویڈیو ڈاؤن لوڈ کی جاتی ہے ،فوٹوکا تبادلہ کیا جاتا ہے،ای میل بھیجی یا وصول کی جاتی ہے،یا چیٹ کی جاتی ہے تو توانائی کے بھوکے سروروں پر ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے، وہاں سے گرین ہاؤس گیسوںکا اخراج ہوتا ہے۔گوگل،فیس بک،ایمزون،مائیکروسافٹ اور یاہو جیسی کمپنیوں کے دنیا میں بہت بڑے ڈیٹا سینٹرز ہیں،ایپل کی آئی او ایس، گوگل کی اینڈرائیڈ کے ساتھ لاکھوں موبائل ایپلیکشنز انہی ڈیٹا سروروں سے منسلک ہیں ،یہ ساری عمارت اسی پلیٹ فارم پر کھڑی ہے جہاں ان تمام ڈیٹا سروروں سے ناقابل یقین حد تک زہریلی گیسوںکا اخراج ہو تا ہے۔

جلتی برف.... پگھلتے شعلے

کیمیائی کھادوں کابے جااستعمال بھی ماحول کی تپش کا سبب

کیمیائی کھادوں کابے جااستعمال بھی ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے ا خراج کا سبب بنتا ہے۔ کھادوں کا استعمال غذائی اشیاء کی پیداوار کے ساتھ ماحول ،آبی ذخائر ،اور انسانی و حیوانی زندگی کے لیے بے شمار خطرات کا باعث ہے ،دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک پیداکرنا گو کھادوں کے بغیر ممکن نہیں لیکن کھادوں کا غیر متوازن ،غیر ذمہ دارانہ استعمال اور بعض جگہوں پر ضرورت سے زیادہ استعمال آبی ذخائر ،ماحول صاف ہوا اور انسانی زندگیوں پر منفی اثرات کا حامل ہے۔ پودے نائٹروجن اور فاسفورس کھادیں پوری طرح استعمال نہیں کر پاتے جس سے آبی ذخائر اور ماحول آلود ہوجاتا ہے اور یہ کھادیں فضاء میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا باعث بنتی ہیں ،ہماری زمینوں میں پی ایچ اور کیلشیم بڑھتی ہوئی فاسفورس مقدار کو ناحل پذیر شکل میں تبدیل کر دیتی ہے۔لہٰذا فاسفورس عام طور پر زمین کے کٹاؤ کی صورت میں یا بارش کے پانی میں کھیت سے ہوکر زیر یں علاقوں اور پانی کے ذخائر میں چلی جاتی ہے۔اس طرح نائٹروجن کی کھادیں ایک طرف تو حل ہوکر آبی ذخائر آلود کرتی ہیں تو دوسری طرف نائٹرس آکسائیڈ کی شکل میں فضاء میں گرین ہاؤس گیس میں اضا فہ کرتی ہے۔دیگر کھادیں بھی بے شمار آلودگیوں کا باعث بنتی ہیں۔

دنیا بھر سے پچاس فیصد جنگلات ختم،پاکستان کے صرف ایک عشاریہ نو فیصد رقبے پر جنگلات

کرہ ارض کی تپش کو ختم کرنے یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے اور ماحول کے تحفط میں جنگلات کا اہم کردار ہے، جب کہ جنگلات تیزی سے ختم ہورہے ہیں،دنیا بھر میںزمین پر پچاس فی صد جنگلات ختم ہو چکے ہیں،2030تک یہ صرف دس فی صد رہ جائیں گے۔25ممالک سے جنگلات کا نظام مکمل ختم ہو گیا اور دیگر25ممالک میں نوے فی صد جنگلات ختم ہو گئے۔تلخ اعدادوشمار یہ ہیں کہ ایک لاکھ تیس ہزار مربع کلومیٹر سالانہ جنگلات کاٹے یا جلائے جاتے ہیں۔امریکی تاریخ کی انتہائی تباہ کن آتش زدگیاں سن2000کے بعد سامنے آئیں،2015کی آگ میں ایک کروڑ ایک لاکھ ایکڑ جل گئے۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔کسی بھی ملک میں 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رقبہ چار فیصد تک رہ گیا ہے۔ پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کیمطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔ 2002 میں جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا یعنی مجموعی طورپر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، تاہم اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے۔ان کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے مسلسل ہر سال جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے جس کے تحت یہ رقبہ کل رقبے کے تین فیصد تک رہ گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنگلات14720 مربع کلومیٹر پر ہیںیعنی پاکستانی رقبے کا ایک عشاریہ نو فی صد حصے پر مشتمل ہیں۔ جنگلات اور عالمی حدت کے تعلق کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اگر درجہ حرارت ایک مقررہ حد سے دو عشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے تو جنگلات کے درختوں کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرنے کی شرح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ جنگلات کو عالمی حدت ختم کرنے کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں کے دوران بڑھنے والے درجہ حرارت کے باعث کئی جنگلات فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار خارج کررہے ہیں جس سے ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ جنگلات عالمی حدت کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث ہیں۔

جلتی برف.... پگھلتے شعلے

عالمی حدت میں اضافہ ایک حقیقت ،انسان ہی ذمہ دار

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان کارخانوں اور زراعت کے ذریعے گرین ہاؤس گیسیں فضا میں داخل کر کے قدرتی گرین ہاؤس اثر کو بڑھاوا دے رہا ہے، جس سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کو عالمی تپش یا ماحولیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عالمی حدت میںاضافہ ایک حقیقت ہے اور انسان ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ سمندرگرم ہوتے جارہے ہیں جن کے عالمی اثرات بہت ہی تباہ کن ہونگے۔پوری دنیا میں پگھلتی برف پانی کے سائیکل کو تبدیل کررہی ہے جس کے اثرات پہلے تو بحری روؤں پر پڑیں گے اور اس کی وجہ سے موسموں میں عالمی تبدیلی آئے گی۔اس کی وجہ گرین ہاؤس گیسیں ہیں۔ پہلے خیال تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سورج کی شعاعیں، آتش فشاؤں کا پھٹنا اور پیٹرو کاربن ایندھن کا استعمال ہے تاہم یہ خیال بدل چکا ہے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا تھا کہ بیسویں صدی کے دوران عالمی درجہ حرارت میں عشاریہ چھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا جو آنے والے عشروں میں بڑھتا چلا جائے گا۔ تحقیقاتی جائزے کے مطابق درجہ حرارت میں 0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے مزید اضافہ کی صورت میں سطح سمندر 10 سینٹی میٹر بلند ہو سکتی ہے۔

درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے دنیا پر اثرات اور نقصانات

دنیا کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ چند عشروں سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں۔ امریکہ کو ہاروی اور ارما نامی جن دو بہت بڑے اور انتہائی شدید طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا اور جن کی وجہ سے اربوں ڈالر کے معاشی نقصانات کے ساتھ ساتھ درجنوں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں، یہ طوفان گلوبل ورامنگ کا نتیجہ تھے۔ ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے سبب کئی مقامات پر قحط کا سامنا ہے ۔ سمندری برف کے مستقل طور پر غائب ہونے سے دنیا کے دوسرے علاقوں میں موسم، آب و ہوا، اور سمندری اندازتبدیل ہو رہے ہیں۔خشک علاقوں میں سیلاب آ رہے ہیں یا ان علاقوں میں خشک سالی ہے جہاں کبھی پانی کی کمی نہیں تھی، فضا میں آلودگی میں اضافہ ہو گیا ہے، کہیںسخت سردی او رکہیں شدیدگرمی ہے، سمندری سطح میں اضافے کی وجہ سے بعض ساحلی علاقوں کے شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ بھی ہے ۔زمینی حدت میں مسلسل اضافے کے باعث زمین پر موجودہر طرح کی زندگی کوشدید خطرات کا سامنا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں چین، روس اور ارجنٹائن میں قحط سالی کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں ہی کے سبب آنے والے سیلاب کے نتیجے میں پاکستان اور چین میں کروڑوں انسان متاثر ہوئے۔ دوسری طرف روس، یورپ اور امریکہ کے چند حصے گزشتہ برس شدید سردی کی لپیٹ میں رہے۔ عالمی تپش سے طوفانوں اور سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہو ا ، قطبی برف پگھلنے سے برفانی ریچھ کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا ۔بلند درجہ حرارت، شدید موسمی حالات اور سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح، سب گرمی کی وجہ سے ہے جس سے دنیا بھر پر سنگین اثرات مرتب ہوئے۔

بیس سالوں میں 7056 قدرتی آفات ،ساڑھے 13 لاکھ افراد ہلاک،پاکستان بھی متاثرہ ممالک میں شامل

گزشتہ 20 سالوں کے دوران دنیا میں 7056 مختلف آفات ریکارڈ کی گئیں جن میں تقریباً ساڑھے 13 لاکھ افراد موت کا شکار ہوئے جن میںسے 90 فیصد کا تعلق غریب اور متوسط آمدن والے ممالک سے تھا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس پہلے ممالک میں ہے کہ جن میں گزشتہ 20 برسوں میں قدرتی آفات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔برسلز میں قائم’’ سینٹر فار ریسرچ آن دی ایپیڈیمولوجی آف ڈیزاسٹرز (سی آر ای ڈی)‘‘ نے 1996ء سے 2015ء کے دوران دنیا میں آنے والی آفات اور ان سے ہونے والے نقصانات کا ریکارڈ جمع کیا ۔ رپورٹ کے مطابق بیس سالوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 56 فیصد زلزلوں اور سونامی کے باعث ہوئیں جب کہ باقی اموات کا سبب طوفان، سیلاب، خشک سالی، مٹی کے تودے گرنے، جنگلاتی آگ اور انتہائی درجہ حرارت بتائے گئے۔ غریب ملکوں میں آفات سے نمٹنے کے لیے ناکافی انتظامات بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی بڑی وجہ رہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہ پہلے دس ممالک میں ہیٹی سرفہرست ہے جہاں دو لاکھ 29 ہزار 699 اموات ہوئیں، انڈونیشیا میں ایک لاکھ 82 ہزار 136، میانمار میں ایک لاکھ 39 ہزار 515 اموات ہوئیں۔ دیگر ملکوں میں چین، بھارت، پاکستان، روس، سری لنکا، ایران اور وینزویلا شامل ہیں۔

موسمی تبدیلیاں،پاکستان سرفہرست دس ممالک میں شامل،دنیا کیلئے دہشتگردی سے بڑا مسئلہ، ہماری ترجیحات میں نہیں

پاکستان دنیا کے ان سرفہرست دس ممالک میں شامل ہے جو موسمی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، گرمی کے رجحان میں زیادہ شدت ہے۔ بلوچستان اور سندھ خشک سالی کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان میں موسم سرما کی مدت بڑھ رہی ہے جبسردیاں کم ہو رہی ہیں ۔ گرمی کے دباؤ کا مرکز سندھ میں ہے،جہاںہوا کا دباؤ کم ہے،آنے والے دنوں اور سالوںمیں پاکستان میںگرمی کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے ۔ ،عالمی اداروں نے پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کے متعلق بہت پہلے واضح کردیا تھا،اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989ء سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا تھا جو سمندروں کی بلند ہوتی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔پاکستان کودو طرح کے خطرات کا سامنا ہے، شمال میں درجہ حرارت کے اضافے سے گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ماہرین ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ سمندر ی سطح میں تیزی سے اضافہ 2060ء تک کراچی کوزیر آب لا سکتا ہے ، ملک کے دیگر علاقوں میں زیر زمین پانی میں کمی، خشک سالی، سیلاب و دیگر موسمی تبدیلیوں سے جڑے مسائل کی وجہ سے ہزاروں افرادنقل مکانی کر چکے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار پانی پر ہے جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ماہرین 2015ء میں پاکستان کی سینٹ کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو آگاہ کر چکے ہیں کہ آئندہ عشروں میں پاکستان کے شمال اور جنوب میں درجہ حرارت میں تین تا پانچ ڈگری اضافہ ممکن ہے جس کے نتیجے میں بھیانک تباہی ہو سکتی ہے۔ غیر متوقع بارشیں، سیلاب، خشک سالی، لینڈ سلائیڈنگ، زلزلے، زیر زمین پانی کی سطح میں تشویشناک حد تک کمی، پگھلتے ہوئے گلیشئرز، موسمی تبدیلیوں کی واضح علامات ہیں ،کراچی سمیت ملک کے بڑے حصے کو صاف پانی میسر نہیں،پاکستان کی پانی سے متعلق کوئی پالیسی نہیں۔ آبی ذخائر بنانے اور دریاؤں، ندی، نالوں کا پانی نامیاتی و صنعتی و دیگر آلودگی سے محفوظ رکھنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔دنیا جس مسئلہ کو دہشت گردی سے بڑا قرار دے چکی ہے، اس پر پاکستان میں بات ہی نہیں ہو رہی ۔ پاکستان سیاسی افراتفری،دہشت گردی کی عفریت،لوڈشیڈنگ اور اس طرح کے دیگر مسائل میں الجھا ہے کہ اس کی ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے پر کوئی توجہ نہیں۔

گرمی ،خوراک کی قیمتوں میں اضافہ، چاول کی پیداوار میں کمی ،دنیا کی نصف آبادی کو غذائیت کا خطرہ

ماحولیات کی تبدیلی سے پیداوار میں کمی سے دنیا کو غذائی قلت کا خطرہ درپیش ہے۔گرمی میں اضافے کے سبب دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔’ نیشنل اکیڈمی آف سائنس‘ میں شائع تحقیق کے مطابق چاول کی پیداواردس سے بیس فیصد کم ہو رہی ہے۔دو ہزار چار میں فلپائن میں ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ رات میں ایک ڈگری درجہ حرارت میں اضافے سے پیداوار میں دس فیصد کی کمی ہوئی تھی۔ جیسے جیسے دن میںدرجہ حرارت میں اضافہ کم سے کم ہورہا ہے، یا راتیں زیادہ گرم ہورہی ہیں، اسی مناسبت سے چاول کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر دن کے وقت بھی درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جائے تو پیداوار میںمزید کمی شروع ہو جائے گی۔ 2007کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ درجہ حرارت میں اضافے سے بعض علاقوں میں پیداوار بڑھ سکتی ہے،تاہم تین ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ ہوا تو یہ سبھی علاقوں کی فصلوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ماحولیات کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ سے اس صدی کے اختتام تک دنیا کی نصف آبادی کو غذائیت کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اقومِ متحدہ کی خوارک و زراعت کی عالمی تنظیم’ ایف اے او‘ کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے باعث خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2007 اور 2008 کی طرح کی خوراک کا بحران پیدا نہ ہو جائے جس سے غریب ممالک بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ برازیل میں بے موسمی بارش، امریکہ میں خشک سالی اور روس میں پیداوار کی مشکلات کے باعث خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔

گرمی بڑھ جانے سے مستقبل میں کیا ہوگا؟

ممکنہ اثرات کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم تبدیلیوں کے نتیجے میں صاف پانی کی کمی ہو سکتی ہے۔

٭خوراک کی پیداوار کے حالات میں بڑی تبدیلیاں آ سکتی ہیں ۔

٭سیلابوں، طوفانوں، گرمی اور قحط سے ہلاکتیں بڑھ سکتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے شدید موسمی حالات کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے

٭موسم تبدیل ہو جانے سے پھول وقت سے پہلے کھل رہے ہیں۔

٭مجموعی طور پر بارشوں میں اضافہ ہو جائے گا لیکن سمندر سے دور علاقوں میں خشک سالی ہو گی اور موسمِ گرما کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔

٭سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے طوفان اور سیلاب آنے کا خطرہ بڑھ جائے گا، تاہم دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔زیادہ اثر غریب ملکوں پر پڑے گا جہاں اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔

٭موسم یک لخت تبدیل ہونے کی وجہ سے جانداروں کی بہت سی نسلیں ناپید ہو جائیں گی۔

٭عالمی ادار صحت نے خبردار کیا ہے کہ ملیریا، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور قحط سالی سے لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔

٭سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے سے ان کی تیزابیت بڑھ جائے گی۔ اس سے سمندری حیات پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

زمین طویل گرم دور کے لیے تیار، برفانی دور 50 ہزار سال تک ٹل گیا

انسان کی جانب سے ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کو شامل کرنے کی وجہ سے اگلا برفانی دور ممکنہ طور پر 50 ہزار سال سے زیادہ عرصے کے لیے ٹل گیاہے۔ نیچر نامی جریدے میں2015کے آخر میں شائع تحقیق میںکہا گیاکہ زمین طویل گرم دور کے لیے تیار ہے۔ کرہ ارض گذشتہ 25 لاکھ سالوں سے برفانی ادوار اور گرم زمانوں سے گزرتا رہا ہے۔ اس دوران برف کی تہیں جمتی اور پگھلتی رہی ہیں۔ زمین کے برفانی دور میں داخل ہونے کی بنیادی وجہ سورج کے گرد اس کے مدار کی تبدیل ہوتی ہوئی شکل ہے۔سورج کے گرد زمین کا مدار مکمل دائرے کی شکل میں نہیں اور وقت کے ساتھ زمین کی گردش کا محور بھی آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔یہ حرکات زمین کی سطح پر پڑنے والی شمسی حدت کی مقدار میں تبدیلی کا باعث ہوتی ہیں اور جب یہ تعداد کرہ شمالی پر ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو برف جمنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جو برفانی دور پر منتج ہوتا ہے اور زمین کا بڑا حصہ برف تلے دب جاتا ہے۔ فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی کثافت کا بھی اہم کردار ہے۔ چند سو سال پہلے صنعتی انقلاب سے کچھ عرصہ قبل تک زمین برف کے دور میں داخل ہونے کے تقریباً دہانے پر تھی اور اگر دو سو سال قبل ماحول میں ہوا کے ہردس لاکھ حصے میں 240 حصے کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی تو برفانی دور کا آغاز ہوجاتا، لیکن اس وقت ماحول میں کاربن کی کثافت فی دس لاکھ 280 حصے تھی۔آج یہ کثافت فی دس لاکھ 410 حصے ہے۔گذشتہ 20 ہزار سال سے انٹرگلیشئل موسم برقرار ہے اور ممکن ہے کہ اگلے 50ہزار سال تک قائم رہے، چاہے کاربن ڈائی آکسائید کی سطح 18ویں صدی جتنی ہی کیوںنہ ہو جائے۔

جلتی برف.... پگھلتے شعلے

سمندر ی پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ، مچھلیوں کی جسامت میں کمی، تولیدی صلاحیتیں متاثر

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو سمندری ایکو سسٹم پر برے نتائج مرتب ہوں گے ، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندر ی پانی کے درجہ حرارت میں تبدیلی سے مچھلیوں کی کئی اقسام کی تولیدی صلاحیتوں کے ساتھ ان کی جسامت کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔عالمی حدت کی وجہ سے مچھلیوں کے وزن اور جسامت میں چوبیس فیصد تک کی کمی کا امکان ہے، سمندری پانی کے گرم ہونے سے اس میں آکسیجن کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے جو مچھلیوں کے وزن میں واضح کمی کاسبب بنتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت براہِ راست مچھلیوں کے جسم کی میٹابولک شرح میں اضافہ کردیتاہے،جس سے ان کی جسمانی ضروریات کے لیے آکسیجن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور نشوونما کے لیے ان کے پاس کم آکسیجن بچتی ہے جس کا نتیجہ کم جسامت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔آنے والے برسوں میں مچھلیوں کی جسامت میں چودہ سے چوبیس فیصد تک کمی واقع ہو جائیگی اور ایسی مچھلیوں کی زیادہ تعداد بحرِ ہند اور بحرِ اوقیانوس میں ہوگی۔

گرمی سے سمندری تیزابیت میں اضافہ ،آبی جانوروں کو خول بنانے میں مشکلات

سمندر انسان کی پیداکردہ ایک چوتھائی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ تاہم جب کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر میں جذب ہوتی ہے تو اس سے کاربانک ایسڈ بنتا ہے جس سے سمندر کی تیزابیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ صنعتی دور کے بعد سے اب تک سمندر کی پی ایچ 0.1 درجے بڑھ چکی ہے۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی تیزابیت سے سمندری جانوروں کو اپنے خول بنانے میں مشکل پیش آتی ہے اور سمندری مونگے خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مچھیرے یا دیگر لوگ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں جو اپنی گزر بسر سمندری جانوروں سے کرتے ہیں۔ 1900 سے دنیا بھر میں سطحِ سمندر اوسطاً 19 سنٹی میٹر اونچی ہوئی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں اس سطح میں اضافے کی شرح بھی بڑھی ہے جس کی وجہ سے کئی جزائر اور نشیبی علاقوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔قطبین پر برفانی تہوں کا پگھلاؤ بھی اس اضافے کی اہم وجوہات میں شامل ہے۔بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے قطبی سمندر بھی سکڑ رہا ہے، تاہم اس کا سمندر کی چڑھتی ہوئی سطح پر زیادہ اثر نہیں ہوتا۔1980 کے مقابلے میں سمندری برف کا برطانیہ سے دس گنا بڑا رقبہ ختم ہو چکا ہے۔

گرمی کی وجہ سے پرندوں کی قبل ازوقت اڑان

عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے مہاجر پرندے اپنی افزائش نسل کے مقام تک جلدی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ایڈن برگ یونیورسٹی کی 2016کی تحقیق کے مطابق پرندے اپنی افزائشِ نسل کے لیے ایک دن پہلے پہنچے ۔ یونیورسٹی نے تحقیق کے لیے دنیا کے پانچ براعظموں میں موجود سیکڑوں اقسام کے پرندوں کا مطالعہ کیا۔ موسم گرما میں اپنے نئے مسکن پر اگر یہ پرندے غلط وقت پر پہنچیں چاہے وہ چند دن ہی ہوں اس سے انھیں اپنے لیے ضروری خوراک اور رہنے کا ٹھکانہ بنانے اور دستیاب سہولیات تک رسائی میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔اسی طرح اگر یہ پرندے دیر سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوں تو اس سے ان کی نئی نسل کی پیدائش اور زندہ رہنے کے چانسز پر بھی اثر پڑتا ہے۔ماہرین نے مہاجر پرندوں کی نقل مکانی کے مطالعے کے دوران تین سو سال پرانے ریکارڈ کو دیکھا ہے۔

فریزر، ایئر کنڈیشنر اور سپرے کی گیس سے گرمی میں اضافہ،پاکستان2028کے بعد استعمال ترک کرنے کا پابند

ہائیڈرو فلورو کاربنز نامیاتی مرکب ہے جو فلورین ، ہائیڈروجن اور کاربن کے ایٹمز پر مشتمل ہوتا ہے،یہ گیسیں فریزروں، ایئر کنڈیشنروں اور سپرے میں استعمال ہوتی ہیں۔اس سے پہلے فریزروں اور ایئر کنڈیشنروں میں کلوروفلوکاربنز استعمال کی جاتی تھی لیکن اس سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچتا تھا ،اسی لئے ہائیڈروفلورو کاربنز کا استعمال شروع کیا گیا،جوعالمی حدت میں اضافے کی ایک اہم وجہ بن گیا۔عالمی معاہدے کے تحت پاکستان2028کے بعد ہائیڈرو فلورو کاربنز گیس کے استعمال کو مکمل ختم کرنے کا پابند ہے۔

روانڈا معاہدہ:’ ہائیڈروفلورو کاربنز‘ کا اخراج کم کرنے پر اتفاق

زمینی ماحول کے تحفظ کے لیے دنیا کے 197 ممالک نے اکتوبر 2016میں روانڈا میں خاص قسم کی گرین ہاؤس گیسوں’ ہائیڈروفلورو کاربنز‘ کا اخراج کم کرنے پر اتفاق کیا ۔روانڈا میںطے پانے والے معاہدے کو تاریخی قرار دیا گیا جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک غریب ممالک سے پہلے کیمیکلز کے استعمال کو کم کریں گے، اس معاہدے میں شریک ممالک نے مونٹریال پروٹوکول میں ایک ترمیم پر بھی اتفاق کیا جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک غریب ممالک سے پہلے ہائیڈروجن، فلورین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے استعمال کو کم کریں گے۔ان ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ 2019 سے اس پر عمل درآمد شروع کریں۔اس معاہدے کے تحت مختلف ممالک کے لیے تین الگ الگ طریقہ کار وضع کیے گئے ۔معاشی طور پر مضبوط ممالک جیساکہ یورپی ممالک،امریکہ اور دیگر سے کہا گیا کہ وہ ایچ ایف سی گیسوں کے استعمال کو چند سالوں کے اندر کم ازکم 10 فیصد کم کر دیں۔چین، لاطینی امریکہ اور جزیرہ نما ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سن2024 تک ایچ ایف سی گیسوں کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیں۔ چین ایچ ایف سی گیسوں کو استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔دیگر ترقی پذیر ممالک جن میں انڈیا، پاکستان، ایران، عراق اور خلیجی ممالک شامل ہیں کو 2028 تک ان گیسوں کا استعمال ترک کرنے کے لیے مہلت دی گئی ہے۔خیال رہے کہ چین ایچ ایف سی گیسوں کو استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ وہ 2029 میں اپنی پیداوار میں کمی کرے گا۔جبکہ بھارت کچھ تاخیر سے 2032 میں 10 فیصد کمی سے ساتھ ان گیسوں کے استعمال کو کم کرے گا۔اگر اس معاہدے پر صحیح معنوں میں عمل کیا جاتا ہے تو عالمی حدت میں بڑی حد تک کمی ہوگی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس معاہدے پر عمل سے 2050 تک کْرہ ارض کے ماحول میں موجود 70 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ختم کی جا سکے گی۔

کیوٹو پروٹوکول،دنیا میں زہریلی گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کا عالمی معاہدہ

دنیا میں زہریلی یا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تحت ایک پروٹوکول بنایا گیا جسے ’کیوٹو پروٹوکول ‘کہتے ہیں۔یہ پروٹوکول 1997 میں جاپانی شہر کیوٹو میں ہوا جسے 2005 تک نافذالعمل ہونا تھا۔ 2012میںدوحہ میں ماحولیات پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں کیوٹو پروٹوکول کو 2020 تک توسیع دی گئی جس کا فیصلہ دو سو ممالک کے مندوبین نے کیا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر لازمی پابندیاں عائد کرنے والا یہ واحد عالمی معاہدہ ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت ہے ، رکن ممالک پر لازم ہے کہ وہ پروٹوکول میں مقررہ اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور آئندہ دس برسوں میں فضا میں ان گیسوں کے اخراج میں پانچ اعشاریہ دو فیصد سالانہ کمی کریں۔واضح رہے کہ ’کیوٹو پروٹوکول‘ کا اطلاق صرف ترقی یافتہ ممالک پر ہوتا ہے کیونکہ وہ 55فی صدماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں،اس میں سرفہرست امریکہ ہے جو2001 میں اس معاہدے سے مکر گیا اور توثیق سے انکار کردیا۔ امریکہ کا موقف ہے کہ اس پر اٹھنے والے اخراجات لامحدود ہوں گے۔ کینیڈا اس پروٹوکول سے علیحدگی اختیار کرنے والا پہلا ملک تھاجس نے2012میں اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا،کینیڈا کاموقف تھا کہ یہ معاہدہ کاربن گیسوں کے اخراج اور آلودگی کا باعث بننے والے دنیا کے دو بڑے ممالک یعنی امریکہ اور چین کو اپنے دائرے میں لانے سے قاصر ہے اور ان کے بغیر یہ ایک قابل عمل معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

جلتی برف.... پگھلتے شعلے

پیرس کانفرنس : دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنے کا عالمی ماحولیاتی معاہدہ

عالمی برادری نے آئندہ تین عشروں میں دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنے کا تہیہ کیا، اس کیلئے دسمبر 2015میںپیرس میں ماحولیاتی کانفرنس ہوئی،جس میں 2050 تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنے کا معاہدہ طے پایا،یہ پہلا عالمی معاہدہ تھا جس میں تمام ممالک نے کاربن کے اخراج میں کمی کاعزم کیا ،معاہدے میں ا تفاق کیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے ۔معاہدے کے تحت عالمی درجہ حرات میں اضافے کو دو ڈگری سے نیچے رکھا جائے گا اور مزید کوششیں کر کے اسے ایک عشاریہ پانچ ڈگری تک محدود کیا جائے گا۔ معاہدے کے تحت ہونے والی پیش رفت کا ہر پانچ برس بعد جائزہ لیا جائے گا۔معاہدے کے تحت2020 سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سالانہ ایک سو ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی جائے گی اور مستقبل میں اس امداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ تمام ممالک قانونی طور پر درجہ حرارت کو دو درجے اضافے تک محدود کرنے پر عملدرآمد کے پابند ہونگے۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کی انتظامیہ آب و ہوا کی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتی اور اسے فریب قرار دے کر، ماحولیات سے متعلق کئی اہم منصوبوں کی فندنگ روک چکی ہے۔

اوزون کی تہہ میں سوراخ ۔۔۔مونٹریال پروٹوکول

اوزون زمین کے گرد وہ تہہ ہے جو سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ کرتی ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ مگر 1970ء کی دہائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانی ترقی نے کرہ ارض کی حفاظت کے اس قدرتی نظام کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ 1980کی دہائی میں اوزون کی تہہ میں ایک سوراخ دریافت ہونے کے بعد دنیا کے تمام ممالک کے درمیان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ’مونٹریال پروٹوکول‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے پایا تھا۔اس معاہدے کے بعد دنیا نے اْن نقصان دہ گیسوں کا استعمال ترک کر دیا تھا جن کے باعث وہ سوراخ نمودار ہوا تھا اور جو اب مندمل ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے بچاؤ کا دن منایا جا تا ہے۔

گرمی کے سبب ہونے والی بیماریاں

شدید گرم موسم انسان کو سست اور نڈھال کردیتا ہے ،یہ جسم سے توانائی چھین لیتا ہے اور قوت مدافعت کومتاثر کرتا ہے۔ شدید گرمی بچوں اور عمررسیدہ افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس میں بھوک بھی کم لگتی ہے اورپسینے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے ۔ گرمی سے ہونے والی اہم بیماریاں درج ذیل ہیں:۔

٭ہیٹ اسٹروک یا لو لگنا( Heat stroke): گرمی سے ہونے والی یہ سب سے سنگین بیماری ہے جسے سن اسٹروک یا سرسام بھی کہتے ہیں ،اس سے زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے،ہیٹ اسٹروک کی وجوہات میں خشک اور گرم موسم میں پانی پیئے بغیر محنت و مشقت یا ورزش کرنا، جسم میں پانی کی کمی، ذیابیطس کا بڑھ جانا اور دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا ہے۔ اس میںجلد خشک اور سرخ ہو جاتی ہے اور اکثر دانے نکل آتے ہیں۔ جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ(40سینٹی گریڈ) سے بڑھ جا تا ہے، دیگر علامات میں غشی طاری ہونا ، جسم سے پسینے کا اخراج رک جانا، پٹھوں کا درد، سر میں شدید درد اورمتلی ،نبض کی رفتارمیں تیزی، سانس لینے میں مشکل، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانا اور کومے میں چلے جانا شامل ہے۔ اگر جسم کا درجہ حرارت کم کرنے کا بروقت انتظام نہ کیا جائے تو ہیٹ اسٹروک دماغ سمیت جسم کے اہم حصوں کو مستقل تباہ کردیتا ہے جس کا نتیجہ موت کی شکل میں نکلتا ہے۔بھارت میں ہیٹ اسٹروک سے ہلاکتوں میں61فی صد اضافہ ہوا۔1979کے بعد گرمی سے نو ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ امریکا میں ہر دس لاکھ میں ایک موت گرمی سے ہوتی ہے۔

٭گرمی سے شدید تھکاوٹ( ہیٹ ایگزاشن)Heat exhaustion:گرمی میں کسی جسمانی مشقت کے نتیجے زیادہ پسینہ خارج ہونے سے پانی اور نمکیات کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اس میں زندگی کے لیے فوری خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جسم کا درجہ حرارت معمول کے مطابق رہتا ہے یا معمولی اضافہ ہوتا ہے، تاہم104فارن ہائیٹ سے اوپر نہیں جاتا۔اس میں جسم کا رنگ زرد، پٹھوں کو درد ،تھکاوٹ اور کمزوری ،سستی اور سر میں درد، سخت پیاس ، بھوک نہ لگنا، چکر آتے اور بے چینی ہوتی ہے ۔

٭ہیٹ ساینکوپ(بے ہوشی)Heat syncope:گرمی میں یہ عارضہ زیادہ دیر تک کھڑے رہنے یا جسمانی مشقت کرنے سے ہوتا ہے یا لیٹے اور بیٹھے فوراً کھڑے ہونے سے بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہے۔اس حالت میں ڈی ہائڈریشن کا بھی دخل ہوتا ہے۔

٭ ہیٹ ریش:Heat rash :موسم گرما میں جلد پر سرخی مائل دانے بن جاتے ہیں ،یہ جلد پر خارش اور پسینے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔یہ کسی بھی عمر کے فرد کوہوسکتے ہیں۔

٭ہیٹ کریمپس: Heat cramps گرمی میں جسمانی مشقت سے نمک اور پانی کی کمی کی وجہ پٹھے اکڑ جاتے ہیں جس سے پیٹ، بازوپنڈلیوں میں درد ہوتا ہے۔

٭ہیٹ ایڈیماHeat edema: اس میں ہاتھوں اور پاؤں میں سوجن ہو جاتی ہے۔ گرمی سے خون کی شریانیں پھیل جاتی ہیں۔

٭ہیٹ ٹی ٹینی:Heat tetany: شدید گرم موسم میں تناؤ کی کیفیت ہو جاتی ہے، تاہم یہ مختصر عرصے تک کیفیت رہتی ہے۔اس حالت میں سانس لینے میں تیزی یا سانس لینے میں مشکلات پیش آتی ہیں،اس میں انسان حواس کھوبیٹھتا ہے ۔

گرمی کی وجہ سے ان عارضوں کا بھی شدید خطرہ رہتا ہے :۔

٭پیٹ کی بیماریوں میںسے ایک گیسٹرو ہے ،یہ پیٹ اور آنتوں میں ہونے والا ایک انفیکشن ہے جس میں قے، پیچس اور پیٹ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ اگر یہ زیادہ بڑھ جائے تو ڈائیریا یعنی اسہال کی بیماری میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

٭عارضہ قلب کا شکار افراد کوگرمیوں میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے دل کے لیے اسے پمپ کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔

٭ گرمی میں یرقان کی بیماری عام ہے۔ یہ جگر کے انفیکشن سے ہوتی ہے۔ اس میں ظاہر ہونے والی علامات زرد رنگت اور زرد آنکھیں، متلی اور منہ کے ذائقہ میں کڑواہٹ ہیں۔

٭ ٹائیفائیڈ اونچے درجے کا بخار ہوتا ہے جس میں جسمانی تھکن اور کمزوری مرکزی علامات ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹ میں درد، سردرد، پیچس بھی شامل ہیں۔

٭ زہر خورانی خراب غذا کھانے سے ہوتی ہے۔ یہ ناقص غذا کھانے کے چھ سے آٹھ گھنٹوں کے درمیان نمودار ہونے والا انفیکشن ہے۔

٭ ذیابیطس کے مریض بھی خطرے کی زد میں ہوتے ہیں، کیونکہ زیادہ پیشاب آنا ایک عام علامت ہے، اس لیے گرم موسم میں جسم سے پانی کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔

٭جلد پر پھوڑے پھنسیاں نکل آتی ہیں، جن میں جلن اور خارش ہوتی ہے۔گلے اور آنکھوں کا انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے، یورین انفیکیشن کا مسئلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

گرمی میں صحت کے حوالے سے ا حتیاط اور تدابیر

کھانے پینے کے حوالے سے گرمی میںزیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

٭زیادہ پانی کے استعمال سے جسم کی نوے فیصد بیماریوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پانی سے آنتوں میں نمی برقرار رہتی ہے جس سے آنتوں کی خشکی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے ،اس کے علاوہ پانی جسم کی توانائی بحال رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

٭غذا میں ریشہ دار اشیاء اور فائبر شامل کرنے سے نظام ہضم بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ پھل، سبزی اور اناج ہضم کرنے میں آسان ہوتے ہیں اور معدے کو زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ فائبر قبض کی شکایت بھی دور کرتا ہے۔

٭مرغن اور کھٹی غذائوں کا استعمال کم کر دینا چاہیے، یہ معدے میں تیزابیت کا باعث بن سکتی ہیں۔ زیادہ گوشت کھانے سے بھی پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔

٭ گرمی جسم سے پانی نچوڑ لیتی ہے، اس موسم میں چکنائی سے بھرپور اجزاء کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ غذا میں موجود چکنائی نہ صرف ہضم کرنے میں مشکل ہوتی ہے بلکہ پانی کی کمی اسے ناممکن بنا دیتی ہے۔ نتیجے میں موٹاپے اور کولیسٹرول جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ٹھیلوں کی غیرمعیاری ٹھوس غذائیں اور مشروبات استعمال نہ کریں۔

٭حفظانِ صحت کے اصولوں کے برعکس تیار کردہ چاٹ، بیسن کے پکوڑے، سموسے وغیرہ، اورگنے، تربوز یا لیموں وغیرہ کے جوس کا استعمال انتہائی مضر ہے۔

٭کافی تاثیر میں گرم ہوتی ہے۔ اس کا استعمال کم کرناچاہیے ، گرمی میں کافی کا استعمال پیٹ کے السر اور معدے میں تیزابیت پیدا کرتا ہے۔

٭ گھر سے باہر کھانا کھانے سے پرہیز کریں۔ صرف گھر کا بنا صاف کھانا کھائیں۔باسی کھانا کھانے سے گریز کریں۔

گرمی سے نمٹنے کیلئے سفارشات

موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے حفاظتی اقدمات کرنے کی ضرورت ہے

٭علاقائی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائے۔

٭لوگوں کو گرمی میں کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت دی جائے۔

٭ تعلیمی نصاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق مضامین شامل کیے جائیں۔

٭جنگلات کی کٹائی سے گریز کرتے ہوئے سبزہ اور پودوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

٭ عوامی مقامات پر کول سینٹر تعمیر کیے جائیں۔

٭گرمی سے متاثر ہونیوالے علاقوںمیں ہیٹ اور ہیلتھ الرٹ وارننگ سسٹم بنایا جائے۔

تازہ ترین