میں12 سال کا تھا تو 65ء کی جنگ شروع ہوئی۔ اُسی سال میں نے شو بز کی دنیا میں قدم رکھا۔محنت، مزدوری اور دُکانداری کے ساتھ اداکاری بھی کرتا تھا۔ میں نےایسا وقت بھی دیکھا، جب اداکاروں کو مکان کرائے پر نہیں ملتے تھے۔ میرے خلاف سازشیں کی گئیں، میرےبچوں کو ورغلایا گیا، لیکن اس عمل سے میری اور میرے بچوں کی کمر سیدھی ہوگئی۔ جتنا کام میں نےعالم شباب میں کیا اس سے زیادہ اب یعنی بڑھاپے میں کررہا ہوں۔ ڈائریکٹ حوالدار نے مجھے عرفان کھوسٹ نہیں بنایا، عرفان کھوسٹ نے ڈائریکٹ حوالدار بنایا تھا۔ اپنی دوسری فلم کومیں خود ہی لے ڈوبا۔ زندگی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ایسا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں جو میرے نام کا حصہ بن جائے… میں کیا ہوں ، کیساہوں، کیا کام کئے، کون سے کارنامے انجام دئیے ،کیا کچھ کرنے سے رہ گیا، یہ سب جاننے کے لیے ایک منفرد انداز میں عرفان کھوسٹ کی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
س:سب سے پہلے ہمیں اپنے بارے میں بتائیں؟
ج:میں کیا ہوں، میں کیا جانتا ہوں، کیا کرتا ہوں، دراصل میں آپ ہی کی طرح گوشت پوست کا انسان ہوں، اب یہ میری خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ میں بندہ ہوں بھی یا نہیں یا بندہ بننے کی کوشش کررہا ہوں۔ ابھی تک تو میں سیکھنے کے عمل میں ہوں اور انسان کے سیکھنے کا عمل تا حیات جاری رہتا ہے۔ میرے بارے میں کہا گیا کہ میں اپنے ابا کے ساتھ ایک فلم میں کام کرچکا ہوں ، میرے بارے میں کی گئی تحقیق میںیہ ایک مغالطہ ہے، میں نے اپنے ابا کے ساتھ کسی فلم میں کام نہیں کیا ۔آج بھی کچھ چیزیں سمجھنے کےلیے میں اپنے ماضی کی طرف دیکھتا ہوں اور زندگی گزارنے کےلیے مستقبل کی پلاننگ کرتا ہوں۔
س: کیا دیکھتے ہیں، ماضی میں اور اپنےخاندان کے بارے میں بتائیں ؟
ج:میں نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا، جہاں ابا ہی پوری فیملی میں اِس شعبے میں تھے، جسے شوبز کہا جاتا ہے۔ مجھے گھر میں وہ ماحول ملا تھا، جو کسی فنکار گھرانے کا ہوتا ہے۔ ابا کے بارے میں بتاتا چلوں کہ اُنہوں نے بچپن میں ’’مہاراجہ کپور تھلا‘‘ کی تصویر کوئلے سے بنائی تھی ، میرے دادا کا نام مولوی رستم علی تھا۔ ہمارا خاندان پہلوانوں کا خاندان ہے۔ فنِ کشتی سے تو پہلوانوں کا تعلق ہوسکتا ہے، مگر فنونِ لطیفہ سے ذرا مشکل لگتا ہے، لیکن کہیں بھی فنکار پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ فنکار نہ تو کوئی پرمٹ لےکر پیدا ہوتا ہے، نہ اُسے کوئی پرمٹ ملتا ہے کہ وہ اپنا آپ ثابت کرے۔ ابا نےاسکول آف آرٹ سے تعلیم حاصل کی ، جو آج کا ’’نیشنل کالج آف آرٹس‘‘ ہے۔ میں ابا کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن جایا کرتا تھا۔ وہ بچوں کا ایک پروگرام ’’اُلٹے پُلٹے‘‘ کیا کرتے تھے۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کی عمر 55 برس تھی ۔ یہ اُن کے انتقال سے دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں ریڈیو اسٹیشن گیا تو مجھے بھی چانس مل گیا، لیکن ابا نے کہا کہ پہلے تعلیم حاصل کرنا، اس کے بعد جو دِل چاہے کام کرنا۔ میں نےیہ بات اپنے پلے باندھ لی تھی، لیکن !میں زیادہ پڑھ تو نہیں سکا، مگر ابا کے انتقال کے بعد لوگوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ میری تعلیم ایف اے ہے ۔ میں اُن بچوں میں سے تھا، جو محنت، مزدوری کے ساتھ ساتھ پڑھ بھی لیتے ہیں۔ میں پڑھائی کے ساتھ دُکانداری بھی کرتا تھا۔ یہاں یہ بھی بتادوں کہ جوبچے پڑھنا چاہیں تو کام کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں ۔ درحقیقت تعلیم کے بغیر انسان نابینا ہے۔
س: ابا کی بات کس حد تک پوری کرسکے؟
ج: حقیقت تو یہ ہے کہ میرے حالات اچھے نہیں تھے، ابا کا انتقال 18 فروری 1965ء کو ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ 6؍ستمبر 1965ء کو شروع ہوئی، لیکن میرے لیے جو جنگ تھی وہ 18؍ فروری کو ہی شروع ہوگئی تھی، تھوڑا سا پڑھنے کے بعد میں نے اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے محنت مزدوری شروع کردی، چونکہ میں کوئی اور کام کر نہیں سکتا تھا، لہٰذا ریڈیو سے اپنے کام کا آغاز کردیا۔ اُس وقت میری عمر 12 سال تھی۔ 65ء کی جنگ میں، میں نے کام شروع کیا تھا اور اب چونکہ میں خاتون نہیں ہوں، لہٰذا مجھے عمر چھپانے کا کوئی شوق نہیں ہے، میری کوئی تنخواہ بھی نہیں ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ مرد تنخواہ اور خواتین عمر چھپاتی ہیں۔ میری عمر اس وقت 63 برس ہے، حالانکہ کچھ لوگ سوچتے ہیں شاید میری عمر ڈیڑھ دو سو برس ہے، کیونکہ میں عرصہ دراز سے کام کررہا ہوں۔ اس فیلڈ میں مجھے 51 برس ہوچکے ہیں۔ میں بارگاہ الٰہی میں یہی دُعا کرتا ہوں کہ زندگی اور موت دینے والی ذات ایک ہی ہے، جب میری زندگی ختم ہو تب بھی میں کام کررہا ہوں اور کام کرتے کرتے اس دُنیا سے رخصت ہو جائوں۔
س:آپ نے فلمیں بھی تو بنائی ہیں؟
ج:میں نے فلمیں بھی بنائیں۔ ایک فلم بہت اچھی چلی اور اُس کی وجہ بھی میں ہی تھا، میرا کردار بہت مشہور ہو گیا تھا، دوسری فلم بنائی، جسے میں خود ہی لے ڈوبا، کیونکہ جب کسی کا کام مقبول ہوتا ہے تو اس کے دوست بہت بن جاتے ہیں، مگر اصل میں وہ دوست نہیں ہوتے، بلکہ دوستوں کے روپ میں دشمن ہوتے ہیں، وہ آپ کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے، دوستی کی آڑمیں ایسے ایسے کام دکھا جاتے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، بہرحال دوسری فلم میں کریکٹر آرٹسٹ کی حیثیت سے اسٹیبلش ہوگیا تھا۔ مجھے دوستوں نے ایک پنگا لینے کو کہا جس کے حق میں، میں نہیں تھا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ تم دوسری فلم میں جیسے ہو ویسے ہی بطور ہیرو آئو۔ وہ میرے تھیٹر کا ایک ڈرامہ تھا، جو میں نے لکھا تھا ، مجھے کہا گیا کہ تم اسے ہی فلم بنا لو ۔ سید نور کے ساتھ میرا بچپن ایک ہی علاقے اور محلے میں گزرا، ہمارے ساتھ شعیب منصور بھی ریڈیو پر کام کیا کرتے تھے، تو یہ ہمارا ایک ٹرائی اینگل بنا ہوا تھا۔ سیدنور صاحب کو میں نے اسکرپٹ دیا اور کہا کہ اس کا اسکرین پلے لکھ دیں۔ اُنہوں نے جو اسکرین پلے لکھا اس میں آدھا میرے والا تھا اور آدھے میں اُنہوں نے دیوار توڑ کر گرادی تھی، وہ غالباً انڈیا کی فلم تھی، جب میں نے اسکرپٹ پڑھا تو کہا کہ نہیں یار، یہ پہلا اور سیکنڈ ہاف میل نہیں کھاتے۔لیکن میرے دوستوں نے مجھے اُسی اسکرپٹ پر قائل کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ میں کہتا رہا کہ میں گانوں اور مختلف سینز والا ڈرامہ ہی اسکرین پر لانا چاہتا ہوں لیکن میرے کئی بار انکار کے باوجود بھی دوست مجھ پر غالب آگئے اور پھرمجبوراً مجھے اُن کی بات ماننا پڑی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ جب فلم سنیما میں لگی تو وہ فرسٹ ہاف جسے سب لوگ کہتے تھے کہ یہ تو ڈرامہ لگتا ہے اور سیکنڈ ہاف کو کہتے تھے یہ فلم لگتی ہے، سب اُلٹا ہوگیا۔ میں سنیما فلم دیکھنے گیا، فرسٹ ہاف جب چلا تو اس میں کلپس اور لافٹر ختم نہیں ہوئے ،میں سمجھ رہا تھا کہ اب یہ فلم چل جائے گی، مگر وہ فلم نہیں چل پائی اور وہی ہوا، جس کا مجھے اندیشہ تھا، مجھے انٹرول کے بعد سنیما سے دوڑنا پڑا، میں نے فلم پوری نہیں دیکھی بہرحال وہ بری طرح فلاپ ہوگئی۔ دراصل مجھ کو اتنا پریشرائز کردیا گیا تھا کہ میں دوستوں کی بات ماننے پر مجبور ہوگیا تھا ، وہ 13 ہزار 700 فٹ کی فلم تھی اس میں میرا کام 12 ہزار 700 فٹ میں تھا یعنی ہزار فٹ میں باقی دیگر لوگ تھے تو میں خود ہی اپنی فلم ہٹ کرواتا تھا اورپھر خود ہی اپنی فلم لے ڈوبا ، اس بات کا مجھے بہت زیادہ ملال ہے۔ میری دوسری فلاپ فلم ’’چن ماہی‘‘تھی، مگر مجھے خوشی ہے کہ آج کے بچوں کو یہ طاقت مل رہی ہے کہ اپنا کام کرتے رہنا چاہیے، چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا ، لیکن جس دور میں، میں نے کام کیا، اُس وقت صلاح مشورے کےلیے لوگ اپنے ساتھ ایڈیٹرزاور کہانی لکھنے والوں کے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو بھی بٹھایا کرتے تھے ،تاکہ وہ بتائیں کہ کہانی کیسی ہے۔ بات یہ ہے کہ چمچے اور دوست الگ ہوتے ہیں، کچھ اس بات سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ ہم سے آگے نکل جائے۔ بہت سے لوگ اب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ مجھ جیسا بندہ اپنے دوستوں کی باتوں میں کیسے آگیا۔ بات یہ ہے کہ ایک کمرے میں 14 لوگ مل کر ایک ہی بات پر قائل کرنا شروع کردیں تو پھر آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ سارے ہی تو غلط نہیں ہوسکتے، شاید فلاں صحیح کہہ رہا ہے، فلاں صحیح کہہ رہا ہے، مگر آپ اُن کے دِل میں نہیں جھانک سکتے کہ وہ آپ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ، بس یہی سب میرے ساتھ ہوا۔
س: آپ اب بھی کام کررہےہیں؟
ج: جتنا کام میں عالم شباب میں کیا کرتا تھا اس سے زیادہ اب کررہا ہوں۔ ہروقت مجھ جیسے بندے کو 3-4 ڈراموں میں مصروف رکھا جاتا ہےاور اس کےلیے میں اپنے پروردگار کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے بن مانگے بہت کچھ دیا ہے۔ میں بندوں سے نہیں اوپر والے سے مانگتا ہوں اور وہ مجھے بن مانگے ہی کام دیتا ہے، پھر میں شکرانہ ادا کرتا ہوں ۔ میں نے آج تک کبھی کام کےلیے بلاوجہ انکار نہیں کیا، جہاں سے میری معاشی اور کردار نگاری کے حوالے سے بہتری ہوتی ہے، وہ میں قبول کرلیتا اور دوسروںسے معذرت کرسکتا ہوں، کیونکہ اداکاری، ہدایت کاری، گلوکاری، پینٹنگ اور مختلف فنون اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ کام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ میری جگہ کوئی اور بندہ میرے حوالے سے یہ کام نہیں کر سکتا یہ کام مجھے خود ہی کرنا پڑے گا تو ایک وقت میں، میں ایک ہی کام کرتا ہوں۔ اب میں تھوڑا بوڑھا اس لیے لگتا ہوں، کیونکہ دو سال پہلے میری ’’ماں ‘‘ مر گئی۔ میری ماں جب تک مجھے بیٹا کہہ کر نہیںپکارتی تھی، میں اُس کے پاس سے نہیں ہلتا تھا ، اب کوئی بیٹا کہنے والا نہیں ہے تو میں تھوڑی سی کمزوری بھی محسوس کرتا ہوں، اب میں اپنی عمر بھی بتا دیتا ہوں، اس لیے کہ میں دادا اور نانا بھی بن گیا ہوں۔ والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی زندگی میں اُن کی اولادوں کے جو فرائض ہیں، وہ پورے ہو جائیں۔ میں پانچ بہنوں کا بھائی تھا اور پانچوں بہنیں بیاہ دی ہیں، بلکہ پانچ بیٹیوں کا بھی باپ ہوں، جن میں سے چار بیاہ دی ہیں، ساتھ بیٹوں کی بھی شادیاں کردی ہیں۔ آج میں مطمئن اس لیے ہوں کہ میں نے اوپر والے سے قناعت مانگی تھی ، خدا نے میری دعاقبول کی اور وہی چیز میری اولاد میں بھی قدرتی طور پر منتقل ہوگئی ہے ۔ اس عمر میں دو روٹیاں چاہیے ہوتی ہیں، پہننے کو ایک جوڑا، ہلکی پھلکی سواری اور رات کو سونے کےلیے چھت ۔ مجھے اپنی زندگی سے کوئی گلہ نہیں ہے، خدا نے مجھے میری اوقات سے زیادہ دیا ہے۔
س:کبھی کسی بات پر دکھ ہوتا ہے؟
ج: دُکھ کبھی کبھی اس بات کا ہوتا ہے کہ میرا باپ جتنا بڑا فنکار تھا اس کو اُتنی زیادہ پذیرائی نہیں ملی ۔ کاش، میرا باپ زندہ ہوتا تو میں اس کی کوئی خدمت کرسکتا لیکن یہ کمی میں نے اپنے طور پر اپنی ماں کی خدمت کرکے پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ جزا تو اوپر والے نے دینی ہے کہ ماں کے دِل سے کوئی دُعا لے لوں۔ ماں نے کوئی دُعا ہی کی تھی کہ آج میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اور کام کررہا ہوں۔
س: کیا بچوں میں بھی اداکاری کے جراثیم ہیں؟
ج: میرے بیٹےسرمد کھوسٹ سے تو آپ واقف ہی ہوں گے، باقی بچوں کو میں نے اُن کی مرضی پر چھوڑ دیاتھا کہ جوچاہیں کریں۔ اب تین یا چاربچے اس فیلڈ میں ہیں، کچھ آن اسکرین ہیں ، کچھ اسکرین کے پیچھے ۔ میری بیٹی سیمل نعمان ایوارڈ یافتہ رائٹر ہے، وہ سب سے بڑی ہے،اس کے بعد سرمد،پھر کنول کھوسٹ جو ایک ادارہ چلا رہی ہے، این جی او نہیں ہے ، وہ سوشل ورک کرتی رہتی ہے، یہاں وہ ایک اسٹیج ڈرامہ کرنے آئی ہے، جس کی وہ ڈائریکٹر ہے ۔میرے سب بچے قناعت پسند ہیں، جو ایک وقت میں ایک ہی کام کرتے ہیں، میں اِس سے بڑا خوش ہوں کیونکہ لوگ لارا دیتے ہیں کہ جناب، جنوری، فروری، مارچ آپ کا ہے کام اکٹھا کرلیتے ہیں جبکہ ہمیں تو کل کا پتہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کام تھوڑا ہو تو ہی اچھا ہوتا ہے۔ ’’جیو ٹی وی‘‘ پر ایک سوپ سیریل چلا تھا ’’مجھے اپنا نام و نشاں ملے‘‘ اُسے کنول نے ہی ڈائریکٹ کیا تھا، البتہ پروڈیوس میں نے کیا تھا، اِن کےلیے کام بھی میں ہی پروڈیوس کرتا ہوں۔ میں نے اپنے بچوں کی طبیعت کوسمجھتے ہوئے، اِن کو خود پروموٹ کیا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اور لوگ اِن کو ایسا چانس نہیں دے سکیں گے، اب جب بچوں کا کام مارکیٹ میں آگیا تو کچھ لوگوں نے میرے خلاف سازش کی کہ اگر یہ بچے اپنے باپ کے ساتھ ہی کام کرتے رہے تو اِن کا باپ مزید مضبوط ہو جائے گا، لوگوں نے بچوں کو اپنے طور پر ورغلایا اور کہا کہ اگر آپ اپنے باپ کے ساتھ ہی کام کرتے رہو گے تو اسٹیبلش نہیں ہو گے ، مارکیٹ میں آکر ہمارے فلاں فلاں لوگوں کے ساتھ کام کرو، وہ اپنا مفاد دیکھ رہے تھے، تو میرے دوستوں نے میری کمر پر جو ٹانگ ماری تھی، اس سے نا صرف یہ کہ میری کمر سیدھی ہوگئی، بلکہ میرے بچوں کی بھی ہوگئی۔ بچوں نے مارکیٹ میں آکر کام کیا تو وہ اسٹیبلش ہوگئے۔ کام کا جنون ہوتا ہے، جس کے پاس جنون نہیں وہ کبھی اپنی فیلڈ میں کامیاب نہیں ہوسکتا، اگر کوئی ناجائز کام بھی جنون سے کرتا رہے تو وہ کرتا جاتا ہے لیکن اگر اس کے جنون میں کمی آجائے تو وہ بھی گرفتار ہو جاتا ہے۔
س: ڈائریکٹ حوالدار ’’کرم داد‘‘ کا کردار بہت مقبول ہوا،کیا اس کردار سے قبل کسی حوالدارکو کام کرتے دیکھا تھا؟
ج: ویسے تو اداکار کا کام مشاہدہ کرناہے، کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ فلاں پولیس والے کی نقل تھی، اداکاری کسی حد تک نقالی بھی ہے، مگر اس کردار میں میں نے کوئی نقالی نہیں کی تھی، البتہ میں نے تھانوں میں پولیس کا وہ رویہ دیکھا ہوا ہے، جو شرفاء کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں نے اس رویے کو اسکرین پر پیش کیا ،کیوں کہ پولیس ہمیشہ شریف لوگوں کے ساتھ تلخ ہوتی ہے، جو جرائم پیشہ ہوتے ہیں، اُن کے ساتھ نرم رویہ رکھتی ہے۔ جب اخبار میں کوئی تصویر شائع ہو کہ فلاں مجرم کو یا ملزم کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے، تو آپ اس تصویر کو دیکھ کر یہ غور کیجئے گا کہ پولیس والے کے چہرے پر گھبراہٹ ہوتی ہے اور ملزم یا مجرم کے چہرے پر سکون و اطمینان ہوتا ہے، یہ وہی رویہ ہے جو میں نے اپنے کردار کے ذریعے پیش کیا تھا۔
س:آج کا دور کیسا محسوس کرتےہیں ؟
بڑی مشکلوں کے بعد وہ دور آگیا ہے جب اداکاروں سے بہت عزت سے ملا جاتا ہے، وگرنہ ایک دور تھا جب اداکاروں کو مکان بھی کرائے پر نہیں ملتا تھا۔ شاعروں سے پوچھا جاتا کہ آپ کیا کام کرتے ہو وہ کہتے تھے ’’شاعری‘‘ ۔ پھر پوچھا جاتا تھا کہ بھائی، کام کیا کرتے ہو؟ یعنی اِن کاموں کو تو کام ہی نہیں سمجھا گیا۔ آج خدا کا شکر ہے کہ آرٹسٹوں کی بہت عزت ہے۔یہ بات درست ہے کہ اداکار’’ ایب نارمل‘‘ ہوتا ہے اور ایب نارمل شوبز یا میڈیا میں ہی نہیں، صحافت کے شعبے میں بھی ہیں، جن لوگوں کی زندگی اینٹی کلاک ہو،وہ ایب نارمل ہوں گے تو زندہ رہیں گے، وگرنہ جس وقت لوگ سو رہے ہوتے ہیں آپ (صحافی) جاگ رہے ہوتے ہیں، ہم (اداکار) جاگ رہے ہوتے ہیں۔ جب لوگ جاگتے ہیں اس وقت اگر ہمیں موقع مل جائے تو ہم سو سکتے ہیں ورنہ نہیں سو سکتے، ہم لوگوں کی 9 ٹو5 والی ملازمت نہیں ہے۔ یہ جنون کا کام ہے، میرے والد پینٹر،یعنی آرٹسٹ بھی تھے، میرا ایک بیٹا بھی مصور ہے، ایک بیٹا نجی چینل میں مارکیٹنگ ہیڈ، سرمد نے ایم ایس سی سائیکلوجی میں گولڈ میڈل حاصل کیا ، یہ وہ بچہ ہے، جس نے ہمیں سینڈوچ بنا دیا۔ میں خوش اس بات پر ہوں کہ میرے باپ کا نام آج بھی روشن ہے۔ سمجھتا ہوں کہ نام اور مقام بہت محنت سے ملتے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ ہر وہ شخص، جو اپنے کام میں دیانتداری سے کام کرتا ہے، خدا اسے چاند ستاروں کی طرح روشن کردے۔ پہلے دور میں مجھ میں اتنا اعتماد نہیں تھا، جتنا آج میں اپنے بچوں میں دیکھتا ہوں۔ سرمد مختلف معاملات میں میرے ساتھ باقاعدہ بحث کرتا ہے، اپنی باتوں پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بعض اوقات حالات بھی انسان کو پُر اعتماد بنا دیتے ہیں۔
س: زندگی سے کیا سیکھا؟
ج:میں نے زندگی کے ہر شعبے سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ جیسے ریڈیو سے بندہ بولنا سیکھتا ہے، تھیٹر میں باڈی لینگویج اور فٹ ورک سیکھتا ہے، ٹی وی پر بھی ویسی ہی اداکاری ہوتی ہے، مگر وہ فلم جتنی لائوڈ نہیں ہوتی، یہ تمام ہی شعبے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ویسے تو آرٹسٹ پانی کی طرح ہوتا ہے، اُسے آپ گلاس میں ڈال دیں تو وہ گلاس کی شکل اختیار کرلیتا ہے، لوٹے میں ڈالو تو لوٹے جیسا ہی ہو جاتا ہے۔ لوگ میری منفرد آواز اور لہجے کے بارے میں بہت سی باتیں کرتے ہیں، آرٹسٹ کےلیے کوئی بھی کردار ایک ریڈی میٹ لباس جیسا ہوتا ہے، بعض اوقات بعض کردار پورے تو ہوتے ہیں، مگر اُن کے کندھے گرے ہوئے ہوتے ہیں، یا آستین لمبی ہو جاتی ہے، آرٹسٹ اپنے کردار پوری جاں فشانی سے کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کردار سوٹ نہیں کرتا۔ بنیادی آواز ہر شخص کی ہوتی ہے، لیکن اس کے اتار چڑھائو ریڈیو سے ہی سیکھتا ہے۔ میں نے اپنے اوپر کوئی چھاپ نہ لگنے دی، حالانکہ یہاں چھاپ تو سب ہی پر ہے۔ اگر آپ ویسٹ کی فلمیں دیکھیں تو وہاں بڑے اداکاروں کا صرف ایک ہی کردار مقبول ہوا یا مشہور ہوا اور بعد میں وہ اس کی رائلٹی کھاتے رہے، یہاں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت ورسٹائل اداکار ہے تولوگوں نے گیٹ اَپ کو ورسٹائل کہا ہوا ہے، کسی کی مونچھ لگادی، کسی کی اُتار دی، یہ تو میک اَپ آرٹسٹ کا کمال ہے، لیکن اُن کی آواز بھی وہی ہے، باڈی لینگویج بھی وہی ہے، حتیٰ کہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کپڑے بھی وہی ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ورسٹائل ہیں، مجھے اگر کوئی کہے کہ تم نے 35 برس کے جوان بندے کا کردار ادا کرنا ہے تو میں نہیں کروں گا کیونکہ دیکھنے والے تو مجھے 45-50 برس سے دیکھ رہے ہیں جب میں اُس کردار میں بھی کہوں گا کہ میری عمر 35 سال ہے تو وہ کہیں گے کہ یہ کیا بکواس کررہا ہے۔ 50 سال سے تو اِسے ہم دیکھ رہے ہیں۔
لوگ میری آواز کی گھن گھرج کی بھی بات کرتے ہیں، جہاں تک میرا علم ہے تھیٹر ریڈیو سے بھی پرانا ہے اور پہلے زمانے میں تھیٹر میں مائیکرو فون نہیں ہوتا تھا۔ اس دور میں تھیٹر کے اندر اُن آرٹسٹوں کو کاسٹ کیا جاتا تھا جن کی گھن گھرج والی آوازیں ہوتی تھیں، اس کے بعد ریڈیو آیا تو اس وقت بھی لوگوں کے ذہن میں یہی بات تھی کہ گھن گھرج والی آوازیں ہونی چاہئیں، بہت سے لوگوں نے مصنوعی طور پر ایسی آوازیں بنائیں اور آج بھی اُن کے پروگرام چل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ٹی وی ایک عرصے تک عجوبہ رہا ہے اور ٹی وی میں بھی ریڈیو بجتا رہا ہے۔ یہ کام اس لیے ہوتا رہا، کیونکہ بہت سے لوگ ریڈیو سے ٹیلی ویژن پر منتقل ہوئے تھے۔ ریڈیو پر صرف بیانیہ ہوتا ہے، لہٰذا کئی عرصے تک بیانیئے والے ڈرامے ہی ٹی وی پر چلتے رہے۔ آج کل کے نوجوان ہدایتکار کہتے ہیں کہ دو ڈھائی منٹ سے زیادہ کا سین تو ہونا ہی نہیں چاہیے، اگر ڈائیلاگ پانچ منٹ کے لکھے ہوں تو وہ اُسے ایڈٹ کردیتے ہیں کہ آپ کے چہرے کے تاثرات سے آدھے ڈائیلاگ شو ہوجائیں گے، لہٰذا ہمارے دور میں آواز کی گھن گھرج کا فیشن تھا، اس وقت اداکار ڈائیلاگ یاد کرکے بول دیا کرتے تھے، مگر آج کا جو فنکار ہے وہ یاد تو کرتا ہے، مگر اپنے تاثرات اور احساسات سے بتا دیتا ہے کہ میں جو بات کہہ رہاہوں وہ سچ ہے۔
زندگی میں حسرتیں تمام نہیں ہوتیں، بہتر سے بہترین کی تلاش ہمیشہ رہتی ہے، میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے پاگل کا کردار ادا کرنا ہے، یہ میری خواہش ہے، حالانکہ پاگلوں کی اداکاری سب سے آسان ہوتی ہے، اس میں آپ جو مرضی کرلیں لوگ کہیں گے کہ یہ پاگل ہے۔ میری آج بھی خواہش ہے کہ ایسا کردار ادا کروں، جو میرے نام کا حصہ بنے اور یہ خواہش اس لیے بھی ہے کہ ’’ڈائریکٹ حوالدار‘‘ میں نے کیا تھا تو اس سے پہلے میں عرفان کھوسٹ تھا۔ ڈائریکٹ حوالدار نے عرفان کھوسٹ نہیں بنایا ، عرفان کھوسٹ نے ڈائریکٹ حوالدار بنایا۔ جب تک عرفان کھوسٹ زندہ ہے مزید بہتر سے بہتر کام کرے گا۔یہ بتادوں کہ آج کے دور میں اچھا کام ہو بھی رہا ہے اور نہیں بھی ۔ میں اِسے بدقسمتی اس لیے کہوں گا کہ بہت زیادہ چینلز آگئے ہیں، اگر اِن میں سے نیوز چینلز نکال دیئے جائیں تو 60-65 ڈرامے روزانہ چلتے ہیں، جب کہ آج کے دور میں 60-65 خطوط بھی نہیں لکھے جاتے تو 60-65 ڈرامے کیسے لکھے جاسکتے ہوں گے؟۔ اور سارے ڈرامے کیسے اچھے ہوسکتے ہیں؟۔ لیکن کچھ نوجوان آج بھی اچھے ڈرامے لکھ رہے ہیں، مگر کیا کریں اس بات کا کہ ہمیں تو علم ہی نہیں ہوتا کہ کہاں کیا چل رہا ہے؟ اس میں لکھنے والوں کا قصور نہیں ہے، لیکن ایک سہولت ہمیں ضرور میسر ہوگئی ہے ، جیسے دیگ کا ایک دانہ چکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ اچھاپکا ہے یا نہیں، اسی طرح اگر ہم فارغ اوقات میں دیگر چینلز پر چلنے والے ڈرامے دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ اچھا کام آج بھی ہورہا ہے یا نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ماضی میں اچھے ڈرامے اور اچھی فلمیں بنیں، لیکن ماضی میں ٹی وی پر کونٹینٹ اور اداکاری مضبوط تھی، کیونکہ وہ لوگ زیادہ محنت سے کام اس لیے کرتے تھے کہ اُن کے پاس وقت تھا اور ایک ہی کام کرتے تھے۔ آج ضروریات زندگی سب کی بڑھ گئی ہیں، ہر شخص کو 2-3 جگہ کام کرنا پڑتا ہے، تب جاکر اُس کی زندگی کا پہیہ چلتا ہے، کیونکہ فنکار اور شوبز والوں کے بچے بھی ایسے ہی ہیں، جیسے صاحب حیثیت لوگوں کے بچے ہیں، ہمارے بچے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم اچھی ہونی چاہیے، ہمارے پاس گاڑی ہونی چاہیے، ہمیں تمام وسائل ملنے چاہئیں، ہمارے مسائل کم ہونے چاہئیں، سب والدین اپنے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں، یقیناًاچھا کام ہو رہا ہے، مگر اسے دیکھنے کےلیے تھوڑی تگ و دو کرنا ہوگی ، دیکھنا ہوگا کہ کس چینلز پر کیا چل رہا ہے،پھر آپ کو انداز ہو جائے گا کہ کہاں بہتر ہے، کہاں اس سے بہتر ہے اور کہاں اُس سے بھی بہتر ہے، پھر آپ درجہ بندی کرلیں،جہاں آپ کو بہترین کام لگے، وہ آپ دیکھیں گے تو ہی انجوائے کریں گے۔ اب اس سے زیادہ کیا بتائوں،بس یہیں سلسلۂ گفتگو ختم کردیتے ہیں۔