• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بزرگ کہا کرتے تھے سفر وسیلہ ظفر۔ سچ یہ ہے کہ سیاحت بذات خود تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ سیاحت سے مشاہدہ وسیع ہوتا ہے اور تجربات کے خزانے میں انمول موتیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ ایک تعلیم وہ ہے جو ہم کتابوں سے حاصل کرتے ہیں اور ایک تعلیم یا علم وہ ہے جو ہم مشاہدات و تجربات سے کشید کرتے ہیں۔ سوچا جائے تو دونوں اقسام کے علم کا کوئی نعم البدل نہیں، دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور جب علم کی یہ دو ندیاں آپس میں ملتی ہیں تو بصیرت پروان چڑھتی ہے۔ بصیرت کیا ہے؟ بصیرت تدبر ہے، معاملات کو خوش اسلوبی سے سر انجام دینے، حالات کی پیچیدگیوں اور چیلنجز کے خم کاکھل کو سنوارنے کا نام بصیرت ہے، آنے والے واقعات کے تیور کا اندازہ لگانے کی صلاحیت بصیرت کہلاتی ہے۔ علم جب تدبر، تجربے اور مشاہدے سے جلا پاتا ہے تو اس کے باطن میں روشنی پیدا ہوتی ہے ورنہ تو تعلیم محض معلومات یعنی انفارمیشن کے حصول کا نام ہے۔
بات ذرا دور نکل گئی۔ البتہ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے سر سید احمد خان یاد آرہے تھے۔ وہ جب انگلستان گئے تو ان کی نگاہوں نے انگریزوں اور یورپی اقوام کی ترقی کا راز بھانپ لیا۔ ان کے نزدیک یہ راز تعلیم، ٹیکنالوجی سائنس اور آزادی فکر میں مضمر تھا۔ چنانچہ وہ وطن واپس لوٹے تو قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا عزم آنکھوں میں سجائے لوٹے۔ انگلستان تو اس وقت سینکڑوں ہندوستانی جاتے تھے، کاروباری مقاصد کے علاوہ حصول تعلیم کے لئے جانے والوں کی بھی ایک تعداد تھی لیکن ان میں سے کتنے کوئی عزم، پروگرام یا جذبے لے کر واپس آئے۔ شاید دو یا تین۔ گویا سفر وسیلہ ظفر ان کے لئے ہوتا ہے جو سفر سے کچھ سیکھ کر واپس لوٹتے ہیں اورپھر اپنی قوم کی اصلاح، تربیت اور ترقی کے لئے زندگی وقف کرتے ہیں۔ باقی کیلئے سفر وسیلہ راحت، ذہنی جسمانی آسودگی وغیرہ وغیرہ کا باعث بنتا ہے۔ تربیت کا ذکر آیا تو مجھے ایک بار پھر سرسید احمد خان یاد آگئے۔ سر سید احمد خان کے نزدیک یورپ کی ترقی کا راز تعلیم، سائنس اور آزادی میں مضمر تھا مگر اس وقت ہندوستان غلام تھا، پسماندہ تھا، سائنس ٹیکنالوجی سے نابلد تھا اس لئے سر سید غلامی کو بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ آج سر سید احمد خان زندہ ہوتے تو وہ یورپ کی ترقی کا ذمہ دار تعلیم، سائنس، آزادی افکار اور قانون کی بالادستی کے علاوہ تربیت کو بھی سمجھتے بلکہ تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے۔ اگرچہ تربیت بظاہر تعلیم کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے لیکن اصل تربیت وہ ہے جو معاشرہ سرانجام دیتا، والدین ودیعت کرتے اور استاد ذہن میں بٹھاتا ہے۔ ایک نہایت سادہ سی مثال یاد آرہی ہے جو میرے مشاہدے کی آسان وضاحت کردے گی۔ تعلیم کا عام تصور نصابی کتابیںپڑھنا، امتحانات پاس کرنا اور ڈگریاں ہاتھوں میں سجانا ہے لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ اس تعلیم سے اس تربیت کا پہلو تشنہ رہ جاتا ہے جو استاد، والدین اور سب سے بڑھ کر معاشرہ انسان کی کرتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اور اسی سے معاشرتی کلچر پروان چڑھتا ہے اور عادات و خصائل سانچے میں ڈھلتی ہیں۔ معاشرے کا دبائو یا اخلاقی دبائو انسان کو خاصی حد تک ایسی حرکتوں سے روکتا ہے جنہیں ہم نے ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ تربیت رویے کو پختہ بنانے اور عادات کو شخصیت کا حصہ بنانے میں اہم رول سرانجام دیتی ہے۔ مثلاً میں گزشتہ چالیس دنوں سے امریکہ کے ایک قصبے میں سیاحت کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ یہ قصبہ لاکھوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور لاتعداد قصبوں سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ ایک ٹائون سے دوسرے ٹائون میں چلے جائیں تو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ اپنے قصبے سے دوسرے شہر میں آگئے ہیں۔ میں نے یہاں لاتعداد آبادیاں، محلے، سڑکیں، مارکیٹیں، پلازے، بڑے بڑے مال، اسکول، کالج، اسپتال وغیرہ وغیرہ دیکھے ہیں اور حلفیہ بیان دے سکتا ہوں کہ کسی سڑک، گلی، محلے، مارکیٹ، ہوٹل یا اسپتال میں کہیں بھی کوئی کاغذ کا ٹکڑا، لفافہ، پلاسٹک کا بیگ، سگریٹ کا ٹکڑا، خالی بوتل وغیرہ وغیرہ نہیں دیکھیں۔ حسرت ہی رہی کہ لوگ کھا پی کر خالی لفافے، بوتلیں یا خوراک کے ٹکڑے سڑکوں یا فٹ پاتھوں پر پھینکیں لیکن تربیت اور معاشرتی دبائو کا یہ عالم ہے کہ ’’گند‘‘ صرف مخصوص ڈبوں یا ڈرموں میں ہی پھینکا جاتا ہے۔ حسرت ہی رہی کہ لوگ فٹ پاتھوں پر گاڑیاں کھڑی کر کے غائب ہو جائیں، سڑکوں کے کنارے غیر مجاز جگہوں پر گاڑیاں پارک کر کے ٹریفک کے بہائو کا راستہ روک دیں لیکن میری یہ حسرتیں پوری نہ ہوسکیں اور انہی ادھوری حسرتوں کا سامان لے کر وطن واپس لوٹوں گا جہاں سڑکوں، گلیوں، محلوں، مارکیٹوں وغیرہ میں ہر طرف گنداور کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ میں لاہور ڈیفنس میں رہتا ہوں جو ’’پوش‘‘ علاقہ تصور ہوتا ہے اور جہاں مقابلتاً بہت پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں۔ ڈیفنس میں اچھی یونیورسٹیوں کے طلبہ اورفارغ التحصیل حضرات کی بہتات ہے۔ یہ نوجوان یہی کتابیں پڑھتے ہیں جو یورپ اور امریکہ کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے، ذہنی رویوں کے انتشار اور عادات کے تضاد کا یہ عالم ہے کہ میں جب صبح یاشام گھر سے باہر نکلتا ہوں تو میرے گھر کے سامنے لاتعداد خالی لفافے، ڈبے، پلاسٹک بیگ اور بوتلیں وغیرہ میرا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ کئی بار دن میں ایسے مناظر دیکھتا ہوں کہ ایک مہنگی سی کار میں پڑھے لکھے نوجوان خوش گپیوں میںمصروف ہیں، میوزک پاس سے گزرنے والوں کے کان پھاڑ رہا ہے اور لاپروا تعلیم یافتہ نوجوان یا طالب علم کھاتے ہوئے خالی لفافے یا ڈبے اور بوتلیں سڑک پر پھینکتے جارہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں کے سامنے بھی پھینکنے سے شرماتے یا کتراتے ہرگز نہیں۔ کالج اور یونیورسٹی میں انہوں نے وہی کتابیں پڑھی ہیں جو امریکی یا یورپی نوجوان پڑھتا ہے لیکن تربیت کے قحط، قانون و ضابطے کے احترام اور معاشرتی اقدار کے تفاوت نے دونوں ممالک کے لوگوں میں اختلاف کا سمندر حائل کر رکھا ہے۔ میںلاہور میں اپنے گھر سے نکلتا ہوں تو فٹ پاتھوں اور سڑکوں کے کنارے موٹر سائیکلوں اور کاروں کی پارکنگ نے چلنے کے لئے کوئی جگہ چھوڑی نہیں ہوتی۔ ٹریفک سگنل توڑنا، سرخ بتی پہ گاڑی یا موٹر سائیکل گزارنا بہادری اور تفاخر کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ قدم قدم پر قانون شکنی، بداخلاقی، افراتفری، جلد بازی، ٹریفک قوانین کی پامالی کے اتنے مناظر نظر آتےہیں کہ انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے اور جب معاشرتی دبائو اور اخلاقی تقاضا وفات پا جائے تو خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ آسانی سے رنگ پکڑتا ہے اور ہر طرف انتشار کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ قانون کی بالادستی، قانون کی حکمرانی صرف حکومت ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ اسے تربیت کا لازمی حصہ اور کردار کی تشکیل کا ناگزیر پہلو ہونا چاہئے۔ شاید آپ کو حیرت ہو کہ میں نے چالیس ایام کے قیام کے دوران کسی جگہ پولیس کو دیکھا ہے نہ ٹریفک کانسٹیبلوں کو لیکن آج تک ایک بھی شخص کو قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی کرتے نہیں دیکھا۔ کوئی تین ہفتے قبل میں ایک کھلی چوڑی سڑک کو مخصوص جگہ سے کراس کرنے کے لئے رکا اور بٹن دبا کر لائٹ کے سبز ہونے یعنی اشارہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔ سڑک کے دونوں طرف نگاہ ڈالی تو دور دور تک ٹریفک کا نام و نشان نظر نہ آیا۔ سوچا کہ سڑک کراس لیتا ہوں۔ ٹریفک سگنل اندھا ہے میں تو اندھا نہیں۔ قدم اٹھایا تو ساتھ کھڑے گورے نے میرا بازو پکڑ لیا اور کہا کہ ابھی سگنل گرین نہیں ہوا۔ میں نے جواباً کہا کہ دور دور تک کار کا نام و نشان نہیں۔ انتظار کرنے کا کیا فائدہ؟ وہ مسکرایا اور بولا قانون قانون ہے اور ہمیں قانون پر ’’اندھا‘‘ عمل کرنا چاہئے یعنی بلا سوچے سمجھے قانون کی پابندی کرنی چاہئے۔ میں جہاں اس کی تربیت سے متاثر ہوا وہاں یہ بھی سوچتا رہا کہ ہمیں بار بار پڑھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ ہم نصف ایمان سے محروم ہوچکے ہیں جب کہ یہ قومیں نصف ایمان سے فیض یافتہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں صرف پڑھایا جاتا ہے ، عمل کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ عمل کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور اسی فرق نے ہم میں اور ان میں تفاوت کا ایک سمندر حائل کردیا ہے آج بس اتنا ہی۔ باقی ان شاء اللہ پھر۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین