پروین شاکر نے کہا تھا، ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘۔ یہ بات سچائی سے متنفر لوگوں کے حوالے سے کہی گئی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سچائی کو تسلیم کرنے، اس کے اظہار کی اجازت دینے، اور اس پر سے پردہ اٹھانے کی روایت کبھی نہیں رہی ۔ اگر اس تاریخ کو تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ آج کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے ۔
ایک حالیہ انٹرویو میں سابق وزیر ِاعظم نے کہا کہ ممبئی حملوں میں ملوث افراد پاکستان سے بھیجے گئے تھے ۔ اُنھوںنے سوال کیا، ’’ہم ٹرائل مکمل کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘ اور پھر اپنی بات میں اضافہ کیا ،’’تاخیر ناقابل ِ قبول ہے ۔‘‘دوسری طرف ناقدین سابق وزیرِاعظم کے بیانیے کے حوالے سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ان باتوں پر لب کشائی کیوں کررہے ہیں؟ اُنھوںنے اُس وقت کیوںزبان نہ کھولی؟ اب یہ بات کیوں کررہے ہیں؟ کیا بھارت ان بیانات کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گا؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ملکی مفاد کے خلاف بھارت کی حمایت کررہے ہیں؟ کیا یہ غداری نہیں؟ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی میڈیا نے اُن کی بات کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جبکہ اُنھوںنے رپورٹ کے درست ہونے کی تصدیق کی اور پوچھا کہ اُنھوںنے کیا غلط بات کی ؟
تیکھے سوالات کی فہرست میں جو سوال موجود نہیں وہ یہ ہے : کیا نااہل رہنما کے متنازع بیانات درست ہیں یا غلط؟ اس سے مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اُن کی بات سچ ہے تو اُن کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ ، حتیٰ کہ غداری کیوں قرار دیا گیا؟وہ کن سرگرمیوں کی بات کررہے تھے ؟ کیا ان کا کچھ نتیجہ ہمارے سامنے موجود نہیں؟ ممبئی حملوں کے نتیجے میں پاکستان عالمی تنہائی سے دوچار ہوچکا ہے۔ کیا اس پر کسی کا احتساب کیا گیا ؟لیکن یہ سوال اٹھانا حب الوطنی کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ جب کسی فعل پر تادیب نہ ہو، یا کچھ بھی کرگزرنے کا استثنیٰ مل جائے تو ملک برباد ہوجاتے ہیں۔ مزید برآں، جو ملک سچائی کا سامنا نہیں کرتا، وہ کبھی اپنی اصلاح نہیں کرسکتا۔ یہ ایک غالب سچائی ہے ۔
دوسری طرف اگر سابق وزیر ِاعظم نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، تو پھر اتنا شور کیوں؟ایک ڈوبتا ہوا سیاسی رہنما تنکوں کا سہارا لینے کی ناکام کوشش میں ہے ۔ اس جھوٹ پر میڈیا کے مخصو ص دھڑوں کی طرف سے اُن پر چوبیس گھنٹے کیچڑ اچھالنے کی کیا ضرورت تھی؟تو کیا اُن کی کہی ہوئی بات سچائی کے قریب ہے ؟ اورہماری اس الف لیلہ میں سیاسی احتساب سے ماورا افراد سے سچائی کی بابت پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی۔ لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر ِاعظم کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے لئے دی گئی درخواست مسترد کردی۔
سچائی سے نفرت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب پاکستان درست موقف اختیار کرتا ہے اور اس کے دلائل وزن رکھتے ہیں تو بھی ان کی ساکھ کیوں تسلیم نہیں کی جاتی ؟ اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ بھارت پاکستان کے بارے میں نامعقول رویہ اپنا نے اور کشمیر میں مجرمانہ تشدد کرنے کے باوجود عالمی تنقید سے کیوں بچ جاتا ہے ۔ 2008 ء میں ممبئی میں کیا ہوا، یہ سب کو معلوم ہے ۔ آج صرف برمحل سوالات یہ ہیں : (1) انڈیا کب تک ، اور کس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس واقعے کی وجہ سے جوہری طاقت رکھنے والے ہمسائے، پاکستان کے ساتھ مربوط مذاکرات سے انکاری رہے گا؟(2) پاکستان نے اس واقعہ کے بعد ادا کی جانے والی قیمت سے کیا سبق سیکھا ہے ؟ (3) دونوں ممالک اکیسویں صدی کے چیلنجز، جو بڑی حد تک مشترکہ ہیں، سے نمٹنے کے لئے کیا لائحہ عمل اپناسکتے ہیں؟
سابق وزیر ِاعظم یقیناً غصے سے بے قابو تھے، اور اُنہیں غالباً مشورہ بھی درست نہیں دیا گیا۔ اُنھوں نے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد طاقت کے ڈھانچے کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ جب وہ اقتدار میں تھے تووہ طاقت کے حقیقی ڈھانچے کے ساتھ تعاون کررہے تھے ۔ اب اس سے باہر آنے کے بعد چیلنج کررہے ہیں۔ وہ خود کو فوج اور عدلیہ کی سازش کا شکار سمجھتے ہیں۔ رپورٹس ظاہرکرتی ہیں کہ اُن کے اس تصور کو اگر حمایت نہیں تو بھی کچھ ہمدردی ضرور مل رہی ہے ۔ جارج اورول کا کہنا ہے کہ بہت مہنگی تعلیم کے بعدانسان کہیں جا سیکھتا ہے کہ اُسے شائستہ( یا طاقتور ) حلقوں میں کچھ مخصوص باتیں نہیں کرنی چاہئیں، خاص طور پر جب وہ سچی ہوں۔ نااہل رہنما اس سچائی کو بھی نظر انداز کرگئے ۔
ناقابل ِ بیان سچائی سے پیدا ہونے والا یہ مسئلہ کچھ دیگر امور پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ بلوچستان، فاٹا، کراچی، غائب شدہ افراد، بجٹ میں مختص شدہ رقوم بشمول مخفی اخراجات، ٹیکس میں چھوٹ، منظم بدعنوانی، من پسند احتساب، سیاسی عمل میں غیر آئینی مداخلت، اقلیتوں کی حالت، بچوں اور خواتین کے حقوق، تعلیم، صحت، سول ملٹری تعلقات، خارجہ پالیسی اور اداروں پر غلبہ جمانے کی کوشش کی بابت سچائی کی تلاش انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔ اس سچائی کو نظر انداز کرنا کسی طور دانائی نہیں۔
ایک حد تک عمومی تنقید برداشت ہے ۔ لیکن کچھ انکشافات برداشت کو چیلنج کرتے ہیں، چاہے سچائی کچھ بھی ہو۔ سابق وزیرِاعظم نے ان حدود سے سرتابی کی۔ یقیناً یہ جسارت مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتی ہے ۔ اور جب یہ جسارت اسٹیبلشمنٹ کا سابق ستون کررہا ہو؟ عدالتی اور احتسابی عمل کے ذریعے ایک مقبول لیڈر کو گھر بھیج دیا گیا ۔ اُن کے پاس کچھ تعمیراتی منصوبوں کاکریڈٹ ضرور ہے، لیکن اُنھوںنے اپنے حلف، پاکستان کے قانون اور لوگوں کے اعتماد کی خلاف ورزی کی ۔ عام طور پر اُنہیں مالیاتی امور میں شفاف نہیں سمجھا جاتا، اگر چہ اُنہیں سیاسی طور پر زندگی بھر کے لئے نااہل قرار دینے والے فیصلے پر کئی قانونی ماہرین نے سوال اٹھایا۔
اس وقت ملک میں موقع پرستی اور ذاتی مفاد پر مبنی گلے سڑے سیاسی نظام کی حرکیات دکھائی دے رہی ہیں۔ دوسری طرف سچائی اور اقدار کا دکھاوا کرنے والا میڈیا ہے جسے آسانی سے ڈرا کر کوئی بھی بات منوائی جاسکتی ہے ۔ گو اس میں کچھ استثنیٰ ضرورموجود ہے ۔ پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ، اُن کا حجم ، اور ان کی جہت ، اور گورننس ، ممکنہ ایٹمی تصادم، ماحولیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافہ، قومی یک جہتی، بنیادی سہولتوں کی فراہمی، دہشت گردی، قانون کی حکمرانی، پانی اور خوراک کی فراہمی، ملازمت کے مواقع، اداروں کی ساکھ اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کواپنی سلامتی کے سنگین بحران کا سامنا ہے ۔ اور یہ بھی سچائی ہے ۔
چاہے قوم کی اس حالت پر کوئی کندھے اچکاتے ہوئے کہہ کر آگے بڑھ جائے کہ یہ مسائل اور اس قوم کا مقدر غیرمتبدل ہیں، اور شاید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، یا معجزانہ طور پر یہ ٹھیک ہوجائیں۔ کچھ دوسرے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نہیں، وقت کے پاس ان مسائل کا کوئی حل موجود نہیں، اور مسائل کی سنگینی دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب شاید اتنا وقت باقی بھی نہیں ہے کہ انہیں وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا جائے ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب کیاکیا جائے ، یا بقول اقبال ’’پس چہ باید کرد؟‘‘
کچھ ناقدین مکمل تبدیلی کے عمل ، جس کے لئے منصوبہ سازی اور عمل کی بکھیڑ درکارہے ، کو ہمارے حالات کے تناظر میں ناممکن دیکھتے ہیں۔ اس کی بجائے اُن کی دلیل ہے کہ کچھ مخصوص مسائل کا تجزیہ کیا جائے اور ان کا حل نکال کر حکومتوں کے سامنے رکھ دیا جائے ۔ یقیناً ایسی کاوش مفید اور اہم ہے ۔ لیکن ایسے جزوی حل سماجی اور سیاسی تبدیلی کا باعث نہیں بنیں گے ۔ ان کی وجہ سے برائے نام تبدیلی ہی آئے گی۔ انہیں کسی مخصو ص شعبے میں تو نافذ کیا جاسکتا ہے لیکن اجتماعی طور پران کا کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آئے گا۔ قوم کی تبدیلی کا عمل نچلی سطح سے اٹھنے والی تحریکوں کے ذریعے ممکن ہے ۔
اس ضمن میں کچھ خوش آئند اشارے ضرور مل رہے ہیں۔لیکن ان کا پروان چڑھنا ضروری نہیں۔ اس وقت یہ عالم ہے کہ کوئی اہم سیاسی جماعت ان میں دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ ہماری دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں گہری سماجی تبدیلیوں کے لئے تیار نہیں ۔عوامی مقبولیت کی ضرورت بھی سماجی تبدیلیوں کی راہ میں حارج ہے ۔ ان کے انقلابی نعرے جو بھی ہوں، اُن کی جڑیں موجودہ نظام میں ہی پیوست ہیں۔ یہ جماعتیں طبقاتی تفریق، جاگیردارانہ نظام، سرمایہ داری اور بدعنوان سیاسی نظام کے ڈھانچے میں موجود ہیں۔ وہ اس سے باہر آنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ایسے نظام کے غالب بیانیے ہمیشہ گمراہ کن ہوتے ہیں۔ ناکامی اور تباہی اس کا ریکارڈ ہے ۔ اس میں طاقت ور اشرافیہ کا فائدہ اور عوام کا نقصان ہوتا ہے ۔
ضروری ہے کہ لوگ خود کو منظم کریں اور ان سوالوں کے جواب تلاش کریں۔ ان کے لئے کوئی بیرونی طاقت ایسا نہیں کرے گی۔ اُنہیں اپنے حقوق کے لئے خود جدوجہد کرنی ہوگی۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ سیاسی چمپئن، ہیرو ، مسیحا، محافظ اور رہنما عوام کو ان کے حقوق کبھی نہیں دیتے ۔ لوگوں کو ایسا خود کرنا پڑتا ہے ۔ پاکستانی بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو لوگوں سے ان کا ملک چھن جائے گا۔ چنانچہ آگے بڑھنے کے لئے مسلسل اور پرامن جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ یہی آج کی سب سے بڑی اور فیصلہ کن سچائی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)