• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’سندھ میں نسلی منافرت پھیلانے کی ایک اور کوشش! ‘‘

ماضی میں سندھ کے ساتھ کیا نہیں ہوا؟ سندھ کے شہروں میں کتنے لسانی اور نسلی فسادات ہوئے جن میں مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے کتنے معصوم لوگوں کو شہید کردیا گیا جن میں مرد بھی تھے تو عورتیں بھی تھیں ، جوان اور بوڑھے بھی شامل تھے تو معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا مگر اب اللہ تعالی کی مہربانی سے حالات کافی حد تک معمول پر آچکے ہیں، اب تو مختلف برادریوں کی آپس میں شادیاں بھی ہورہی ہیں مگر اب پھر منافرت پھیلانے والی باتیں، بیانات اور اخباری کالم آنا شروع ہوگئے ہیں، ان میں کیا کچھ نہیں کہا جارہا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حال ہی میں لیاقت آباد میں پیپلز پارٹی کی طرف سے منعقدہ جلسہ عام اور اس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے کی گئی تقریر کا ردعمل ہے۔ اس سلسلے میں دوسرے فریق کی طرف سے کیا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا پی پی لیاقت آباد میں جلسہ منعقد کرسکتی ہے، کیا کچھ حلقوں کی طرف سے لیاقت آباد میں پی پی کی طرف سے جلسہ عام کرنے پر پابندی عائد ہوچکی ہے؟ کیا یہی پابندی دیگر جماعتوں پر بھی عائد سمجھی جائے، پی پی کی طرف سے منعقد کئے گئے جلسہ عام کے بعد لیاقت آباد میں ایک مخصوص تنظیم کے مختلف گروپوں کی طرف سے کی گئی تقریروں میں اور بعد میں ان رہنمائوں کی طرف سے جاری کئے گئے بیانات میں سید مراد علی شاہ کی تقریر میں کہے گئے جملے پر شدید اعتراض کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ سندھ میں الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والی ذہنیت پر لعنت ہے‘‘ جبکہ ان کے خلاف بیانات اور کالموں میں اس جملے کو توڑ مروڑ کر اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ ’’سندھ میں الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والوں پر لعنت‘‘ کتنا فرق ہے دونوں جملوں میں، سندھ کے کئی حلقوں کی رائے ہے کہ شاید مراد علی شاہ کی تقریر کے خلاف اس وجہ سے بھی یہ شور مچایا جارہا ہے کہ انہوں نے ’’ایم کیو ایم بانی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے کہنے پر سندھ میں یہ سب ہوتا رہا، تو کیا اس تنظیم کے مختلف گروپوں کی طرف سے اپنے بانی سے قطع تعلق کئے جانے کے بارے میں کئے گئے اعلانات فروعی ہیں؟ بہرحال ایک بات قابل اطمینان ہے کہ لیاقت آباد اور بعد میں کراچی کے دیگر علاقوں میں اس تنظیم کے مختلف گروپوں کی طرف سے کئے گئے عام جلسوں میں کی گئی تقریروں، بیانات اور تعصب پر مبنی کچھ کالموں میں سندھ کے وسیع طبقے کے خلاف منافرت پھیلانے کا ان حلقوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ سندھ کے سیاسی حلقے حتیٰ کہ کسی قوم پرست سیاسی رہنما نے بھی ان تقریروں اور اعلانات کے بارے میں منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا، اس کی ایک وجہ بھی ہے کہ تاریخی طور پر سندھ امن کی دھرتی ہے، سندھ کے عوام کی ذہنی تربیت صوفی بزرگوں نے کی ہے، مثال کے طور پر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا ایک شعر ہے جو میں سندھی میں پیش کررہا ہوں ’’ہوچو نئی‘ توں مہ چئہ واتئوں ورائے‘ اگ‘ اگرائی جو کرے خطا سو کھائے‘‘ اس کے معنی یہ ہے’’اگر وہ آپ کو کچھ کہے تو بھی آپ جواب میں کچھ نہ کہیں، جو بھی پہل کرے گا تو نقصان وہ ہی اٹھائے گا‘‘ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ جب پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے ہمارے مسلمان بھائی ہجرت کرکے آکر سندھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے تو سندھ کے لوگوں نے ان کے لئے نہ صرف صوبے، اپنے گھروں بلکہ یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ دلوں کے دروازے بھی کھول دیئے، کیا جب یہ بھائی سندھ کے مختلف آباد علاقوں میں آکر آباد ہورہے تھے تو سندھ میں کہیں ان کا راستہ روکا گیا یا تعاون نہیں کیا گیا؟ ان بھائیوں کو لیکر ٹرینیں سندھ کے مختلف علاقوں میں راستے میں رک جاتی تھیں تو اس علاقے کے گائوں اور بستیوں کے غریب لوگ بھی گھروں میں جو کچھ ہوتا تھا پکا کر ٹرین میں ان کو فراہم کرتے تھے مگر سندھ کے لوگ اپنے بھائیوں کی ان خدمات اور ان کی دل کی گہرائیوں سے کی گئی آئو بھگت کو ان پر احسان نہیں سمجھتے، آج تک سندھ کے کسی حلقے کی طرف سے نہ کوئی بیان دیا گیا ہے اور نہ ایسی کوئی بات کی گئی ہے مگر بعد میں سندھ کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جو نفرت کی آگ بھڑکائی گئی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سندھ کے اکثر حلقے یہ سوال کرتے ہیں اور ان کایہ خیال ہے کہ کیا سندھ کا یہ حشر اس وجہ سے کیا گیا کہ سندھ نے پاکستان بنایا تھا کیا اگر سندھ اسمبلی سب سے پہلے قرارداد پاکستان منظور نہ کرتی تو پاکستان بن سکتا تھا اور اگر بنتا تو سندھ اس میں شاید شامل نہ ہوتا، حقائق یہ بتاتے ہیں کہ فقط سندھ اسمبلی نے قرارداد پاکستان منظور کرکے پاکستان کی بنیاد نہیں ڈالی مگر جب پاکستان وجود میں آیا تو مرکزی حکومت کا دارالحکومت کراچی کو بنایا گیا، اس وقت تو پاکستان کا خزانہ ابھی خالی تھا، اس وقت بھی سندھ حکومت آگے آئی اور اپنے خزانے سے اندازاً 10 کروڑ روپے کی رقم نکال کر پاکستان کی مرکزی حکومت کے حوالے کی تاکہ پاکستان کا کاروبار چل سکے، اس وقت 10 کروڑ ایک بہت بڑی رقم تھی مگر آج تک نہ پاکستان کی مرکزی حکومت نے یہ رقم سندھ کو لوٹائی اور نہ سندھ حکومت نے یہ رقم مرکزی حکومت سے مانگی، بجائے اس کے کہ حکومت سندھ کے اس کردار کی تعریف کی جائے الٹا اب حقائق کو توڑ مروڑ کر یہ کہا جارہا ہے کہ کراچی تو اسی وقت ایک الگ انتظامی یونٹ بن گیا تھا، یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے، حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے سندھ کو کہا کہ اب کیونکہ پاکستان کا دارالحکومت بن چکا ہے لہٰذا اب سندھ حکومت اپنا دارالحکومت کسی اور شہر میں منتقل کردے مگر نہ فقط اس تجویز کے خلاف سندھ بھر میں شدید ردعمل ہوا مگر سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے یہ بات ماننے سے صاف انکار کردیا‘ بعد میں مرکزی حکومت یہ معاملہ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی میں لے آئی مگر اسمبلی کی اکثریت نے یہ بات نہیں مانی، اس ایشو پر خاص طور پر مشرقی پاکستان کے ممبران کی اکثریت نے سندھ کا دارالحکومت کراچی سے باہر لے جانے کی شدید مخالفت کی، اسمبلی کی کارروائی بھی موجود ہے جو پیش کی جاسکتی ہے مگر کیا سندھ کا پاکستان کے بنانے میں کردار فقط اتنا تھا، کیا حقیقت یہ نہیں ہے کہ سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی کی عمارت قومی اسمبلی کے حوالے کردی اور سندھ اسمبلی کے اجلاس ایک اور عمارت میں ہونے لگے‘ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مرکزی حکومت کا سیکریٹریٹ بھی سندھ سیکریٹریٹ کی عمارتوں میں قائم کیا گیا مگر اب ہمارے ایک ’’محترم‘‘ کالم نویس نے شوشہ چھوڑا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہی کراچی تو الگ انتظامی یونٹ بن چکا تھا‘ فقط اتنا ہی نہیں سندھ کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے پتہ نہیں کیا کیا شوشے چھوڑے جارہے ہیں‘ مثال کے طور پر یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ سندھ میں دیہی و شہری کوٹہ نافذ کرکے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور کوٹہ سسٹم نافذ کرنے کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے حالانکہ پاکستان میں کوٹہ سسٹم پاکستان کی پہلی حکومت کے وزیر اعظم کی ہدایات کے تحت نافذ کیا گیا۔ اس سلسلے میں جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اس کے تحت پاکستان کی ملازمتوں میں ہندوستان سے آنے والوں کے لئے ایک خاص کوٹہ مقرر کیا گیا جبکہ سندھ میں شہری اور دیہی کوٹہ بھی ذوالفقار علی بھٹو نے نافذ نہیں کیا تھا مگر یہ کوٹہ اس وقت کے سی ایم ایل یحییٰ خان کے دور میں سندھ کے پختون گورنر جنرل رحمان گل نے نافذ کیا تھا‘ جنرل رخمان گل جب تک سندھ کے گورنر رہے وہ نہ صرف سندھ کے شہری علاقوں مگر دیہی علاقوں کے وسیع دورے کرتے رہے۔ انہوں نے دیکھا کہ سندھ کے دیہی علاقوں کی حالت بہت خراب ہے وہاں نہ روزگار کے ذرائع ہیں‘ نہ تعلیمی ادارے ہیں‘ نہ روڈ ہیں اور نہ اسپتال وغیرہ ہیں لہٰذا انہوں نے پہلے مرحلے میں سندھ کے دیہی علاقوں کے لوگوں کو ملازمتوں میں شریک کار بنانےکیلئے اربن اور رورل کوٹہ نافذ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کوٹہ سسٹم سندھ کی افسر شاہی کے سینئر اردو بولنے والے افسروں کے مشورے سے نافذ کیاہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: خلیل احمد نینی تال والا کا حالیہ مضمون ’’کراچی والوں کے حقوق لوٹا دو‘‘ پر ہمارے بعض قارئین کو تحفظات تھے۔ جناب جی این مغل کا کالم اس کا جواب ہے۔

تازہ ترین