• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوریا میں امن کی سمت پیش رفت

’’٭ 1950میں دونوں کوریائوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ 1953 میں جنگ بندی ہوئی مگر کوئی دیرپا حل نہیں نکلا اور نہ ہی کوئی باقاعدہ امن معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک شمالی اور جنوبی کوریا دونوں یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ وہ ہی پورے کوریا کے اصل حکمران ہیں٭ جنوبی کوریا ایک جمہوری ملک بننے میں کامیاب ہو گیا ہے،1988سے 2013تک پچیس سال میں پانچ صدورنے منتخب ہو کر اپنی پانچ سالہ مدتیں پوری کیں۔2013میںخاتون صدر منتخب ہوئیں جو ایک سابق آمر’ پارک چنگ ہی کی‘ تھیں۔ ان کو کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا مواخذہ کر کے انہیں عہدہ صدارت سے سبکدوش کر دیا گیا اب موجودہ صدر مون جے ان ہیں، جو اس کوشش میں ہیںکہ شمالی کوریا سے حالت جنگ بالاخر ختم ہو جائے اور ایک امن معاہدہ تشکیل پائے‘‘

جزیرہ نمائے کوریا جو پچھلے ستر سال سے تقسیم بھی ہے اور جنگ کے دہانے پر بھی کھڑا ہے اب بالاخر امن کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔

ستائیس مئی کو جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے شمالی کوریا کے رہ نما کم جونگ ان سے ملاقات کی جس میں شمالی کوریا نے ایک بار پھر اپنی وہ ناقابل یقین پیش کش دہرائی ہے کہ وہ مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے پر تیار ہے۔

حالیہ ملاقات پر گفت گو کرنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کوریا کا مسئلہ کیا ہے۔ دراصل کوریا مشرقی ایشیا کا وہ علاقہ ہے جو 1945 سے دو الگ الگ مملکتوں پر مشتمل ہے۔اس جزیرہ نما کے شمال میں چین اور روس ہیں جن کے علاوہ اس کی زمینی سرحدیں کسی اور ملک سے نہیں ملتیں، سمندر کے پار قریب ہے، جاپان واقع ہے جس نے گزشتہ صدی میں1910 سے1945 تک کوریا پر قبضہ کئے رکھا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر 1945 میں سوویت یونین اور امریکا نے ایک معاہدے کے تحت کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جس میں شمالی کوریا سوویت یونین کے قبضے میں رہا اور جنوبی کوریا امریکا کے۔

شمالی کوریا میں سوویت یونین کی مدد سے ایک کمیونسٹ حکومت قائم کر دی گئی ،جب کہ جنوبی کوریا میں امریکا نے سرمایہ دارانہ نظام قائم رکھا۔ دونوں ممالک کشیدگی کا شکار رہےاور پھر 1950میں دونوں کوریائوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ تین سالہ جنگ کے بعد1953میں جنگ بندی ہوئی مگر کوئی دیرپا حل نہیں نکلا اور نہ ہی کوئی باقاعدہ امن معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک شمالی اور جنوبی کوریا دونوں یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ وہ ہی پورے کوریا کے اصل حکمران ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جنوبی کوریا سے دگنا بڑا ہے۔ جنوبی کوریا کی آبادی پانچ کروڑ سے کچھ زیادہ ہی ہے، جبکہ شمالی کوریا میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد رہتے ہیں ،پچھلے ستر سال کے دوران شمالی کوریا میں کمیونسٹ آمریت رہی ہے،جس میں1948 سے 1994 تک صرف ایک رہ نما یعنی کم ال سونگ نے تقریباً چھپالیس سال بلا شرکت غیرے حکومت کی، ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ ال سربراہ بن گئے اور 2011تک سترہ سال حکومت کی ،پھر ان کے بیٹے اور موجودہ سربراہ نے اقتدار سنبھالا ۔کم جونگ ان جب سربراہ بنے تو اس وقت ان کی عمر صرف 29سال تھی اور اب وہ کوئی 36 سال کے ہیں۔

جنوبی کوریا میں بھی آمریتیں رہیں اور سب سے پہلے سنگ مان کی رہی۔1960تک برسر اقتدار رہے،پھر ایک اور آمر پارک چنگ ہی 18سال حکومت کرنے کے بعد1979میں قتل کر دیئے گئے پھر ایک اور آمر چن ڈوہوان نے آٹھ سال جنوبی کوریا پر حکومت کی۔

1988 کے بعد اب تک کے تیس سال میں جنوبی کوریا ایک جمہوری ملک بننے میں کامیاب ہو گیا ہے،جہاں تواتر سے عام انتخابات ہوتے ہیں۔1988سے 2013تک پچیس سال میں پانچ صدورنے منتخب ہو کر اپنی پانچ سالہ مدتیں پوری کیں۔2013میںخاتون صدر منتخب ہوئیں جو ایک سابق آمر پارک چنگ ہی کی تھیں۔ ان خاتون کو کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا مواخذہ کر کے انہیں عہدہ صدارت سے سبکدوش کر دیا گیا اب موجودہ صدر مون جے ان ہیں، جو اس کوشش میں ہیںکہ شمالی کوریا سے حالت جنگ بالاخر ختم ہو جائے اور ایک امن معاہدہ تشکیل پائے۔

جنوبی کوریا کے صدر شمالی کوریا کے رہنما سے تقریباً دگنی عمر کے ہیں،مگر ایسا لگتا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے ایک مشترکہ مقصد حاصل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیاہے۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ شمالی کوریا نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہےاور اس سے نہ صرف جنوبی کوریا بلکہ جاپان تک کو خطرہ تھا اس لئے کہ شمالی کوریا کے رہنما بار بار دھمکی دے رہے تھے کہ وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کر بیٹھے گے۔ انہوں نے گزشتہ برس کئی ایسے تجربات کئے ،جن میں ایٹمی ہتھیاروں کو میزائل سے داغنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا گیا ۔اب امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی دھمکیاں دینی شروع کر دیں، لیکن شکر ہے کہ اچانک شمالی کوریا کے رہنما کو کچھ عقل آ گئی۔

انہوں نے غیر متوقع طور پر جنوبی کو ریا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور دونوں رہنمائوں نے ملاقات میں وعدہ کیا کہ وہ کوریا کے مسئلے کا دائمی اور پائیدار حل نکال لیں گے۔ اب اس بات سے اتفاق ہو گیا کہ بارہ جون کو سنگا پور میں امریکی صدر ٹرمپ کم جونگ ان سے ملاقات کریں گے جس میں کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے اور امن قائم کرنے پر پیش رفت کی جائے گی۔

گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ شمالی کوریا پھر سے اپنی ہٹ دھرمی پر واپس آ رہا ہے اس لئے اس سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اب امریکی صدر کے دفتر سے ایک ٹیم سنگاپور بھیجی جا رہی ہے جو ممکنہ بات چیت کی تیاری کرے گی۔ اس دوران شمالی کوریا نے خیر سگالی کے اظہار کے لئے اعلان کیا کہ وہ اپنی جوہری سرنگیں تباہ کر دے گا اس کے بعد تصویریں بھی جاری کی گئیں جن میں بظاہر جوہری تجربات کے مقامات کو تباہ ہوتا دکھایا گیا ہے۔ سرنگوں کو تباہ کرتے وقت شمالی کوریا کے حکام نے غیر ملکی صحافیوں کو بھی مدعو کیا اور اس تباہی کا مظاہرہ کیا ،یاد رہے کہ اس سال کے آغاز پر شمالی کوریا نے پیش کش کی تھی کہ وہ سیاسی مفاہمت کے لئے اپنی جوہری سرنگیں تباہ کرنے پر آمادہ ہے،جبکہ بعض مبصرین اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2017میں آخری بار دھماکے کئے جانے کے بعد سے یہ سرنگیں قابل استعمال نہیں رہی تھیں اس لئے اس خیر سگالی کے مظاہرہ کو شمالی کوریا کی طرف سے کوئی بہت بڑی قربانی نہیں سمجھنا چاہئے

اس دوران امریکی نائب صدر مائیک پنس بھی آگ لگانے والے بیانات دیتے رہے ،جس کے جواب میں شمالی کوریا نے بھی سخت رویہ اختیار کر لیا تھا۔ شمالی کوریا کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر صرف شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے خاتمے پر اتفاق نہیں کرے گا۔

امریکی نائب صدر نے ایک بیان میں دھمکی دی تھی کہ اگر شمالی کوریا ٹھیک نہ ہوا تو اس کا حشر لیبیا جیسا ہو گا جس پر شمالی کوریا نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کے نئے وزیر خارجہ مائک پوم پیو نے بھی کہا تھا کہ، امریکا کوئی بری ڈیل یا معاہدہ نہیں کرے گا۔

جنوبی کوریا نے بھی اس دوران امریکا کے ساتھ جنگی مشقیں دوبارہ شروع کردی تھیں۔ اور ساتھ ہی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرنے لگےہیں، گو کہ بعد میں امریکی صدر ٹرمپ نے اس بیان کی تردید کی کہ شمالی کوریا کے ساتھ لیبیا جیسا کوئی سلوک کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ لیبیا کے سابق رہ نما معمر قذافی نے تمام ہتھیار تلف کر دیئے تھے پھر بھی ان کو نہیں بخشا گیا تھا۔

امریکا نے اس خط کا متن بھی جاری کر دیا ہے جو چوبیس مئی کو صدر ٹرمپ نے کم چونگ ان کو لکھا۔ اس خط میں پہلے تو سفارتی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے رسمی باتیں کی گئی ہیں پھر شمالی کوریا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سنگاپور ملاقات کو منسوخی کی اطلاع دی گئی۔ اس خط کے بعد ہی دونوں کوریائوں کے رہنما حرکت میں آ گئے اور پھر اس ملاقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ممکنہ طور پر بارہ جون کو سنگا پور میں یہ ملاقات ہو جائے گی، جس کے بعد ممکن ہے کہ ایسا معاہدہ ہو جائے جو شمالی اور جنوبی کوریا کو ایک دوسرے کے قریب لے آئے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عالمی طور پر ٹرمپ کو بھی ایک بڑی کامیابی ہو گی جو غالباً صدر اوبامہ کی طرح اس کے نوبل انعام کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

امریکی صدر اوباما کو امن کا نوبل انعام ان کے دور صدارت کے ابتدائی سال میں ہی دے دیا گیا تھا، جب کہ انہوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا تھا۔ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کرانے پر امریکی صدر کارٹر نوبل انعام کے حق دار بن گئے تھے جن میں ان کے شریک مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیگن تھے ،پھر صدر کلنٹن نے فلسطین کے رہنما یاسر عرفات کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کرا کر نوبل انعام حاصل کر لیا تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوریا بھی معاہدہ کر کے اسرائیل کی طرح امن سے دور رہے گا یا اس کا نتیجہ کچھ بہتر ہو گا ۔

تازہ ترین