• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایران جوہری معاہدہ

’’صدر ٹرمپ نے ایران کو دوبارہ مذاکرات کی پیشکش کی مگر ایران نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ ایک حکومت سے معاہدہ کرنے کی اگر کوئی حیثیت نہیں تو دوسرے سے کیا ہو گا٭یورپ کے لیڈروں بالخصوص فرانس اور جرمنی نے کوشش کی ہے کہ ایران اس ڈیل پر قائم رہے ،مگر ایران کی طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ یہ ڈیل تو کجا ہم تو این پی ٹی سے بھی نکل سکتے ہیں‘‘

صدرٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران جن انتہاء پسندانہ پالیسیوں پر عملدرآمد کا ذکر کرتے تھے انہوںنے ان پر اپنے دور صدارت میں عمل بھی کر ڈالا۔ صدر اوباما کی ایران کے ساتھ جوہری ڈیل جس میں تنہا امریکہ ہی ایک فریق نہ تھا لیکن اس میں صرف تنہا امریکہ باہر نکل آیا۔ اور ایران پر دوبارہ سے پابندی عائد کرنے کی جانب چل پڑا۔ 2006؁ء میں امریکہ نے ایران پر پابندی عائد کی تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی تھی کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی جانب گامزن ہے،حالانکہ ایران کا سرکاری موقف یہ رہا ہے کہ، ہم توانائی ضروریات پوری کرنے کی خاطر نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتے ہیں ،ایٹمی ہتھیار بنانا نہیں چاہتے۔ بہرحال 2015؁ء میں ایران ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، روس ، چین ، جرمنی اور یورپی یونین کے مابین ایک معاہدہ ہوا ،جس کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا عرف عام میں ایران جوہری معاہدہ کہا جاتا ہے، وقوع پذیر ہوا۔ ٹرمپ اس وقت سے اس معاہدے کے خلاف بیان بازی شروع کر چکے تھے ۔ ان کے متعلق یہ بہت مضبوط خیال ہے جو انہوں نے بعد میں درست بھی ثابت کیا کہ، وہ اسرائیل کو درپیش ہر خطرے کو سب سے پہلے غیر موثر کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کی بھی واحد وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے باوجود اسرائیل ایران سے براہ راست خطرات محسوس کر رہا ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد ہیرٹیج فائونڈیشن میں اس حوالے سے تفصیلی خطاب کیا اور معاہدے سے نکلنے کی وجوہات پر اپنا موقف پیش کیا۔ اگر ہم ان کی تقریر کا خلاصہ بیان کریں تو صرف یہ ہو گا کہ اسرائیل کو لاحق خطرات اس معاہدے کے سبب سے کم نہیں ہوئے بلکہ ایران نے زیادہ جارحانہ طور پر مشرق وسطیٰ میں قدم بڑھانا شروع کر دیئے ہیں۔ اور اس کا مقصد اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران اس معاہدے کی آڑ میں سکون سے ایران سے لے کر بحیرہ روم تک ایک ایسی راہداری قائم کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل کے دروازے تک پہنچ کر ان عناصر کی عسکری اور مالی مدد کرے جو اسرائیل سے براہ راست لڑ رہے ہیں۔ ایران نے اسرائیل میں ڈرون بھیجا اور گولان کی پہاڑیوں سے راکٹ بھی اسرائیل پر مارے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 30 اپریل کو دعویٰ کیا کہ ہم نے ایران میں بہت بڑا، انٹیلی جنس آپریشن کیا ہے جس سے ایران کے ایٹمی پروگرام "آماد" کی ایک لاکھ دستاویزات چرا لی ہیں،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ مہابادی اور ان کی ٹیم ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لئے کام کر رہی ہے، حالانکہ آئی اے ای اے نے 2003؁ء میں ہی یہ اعتراف کر لیا تھا کہ 1989؁ء سے جاری آماد پروگرام ایران نے بند کر دیا ہے۔ مائیک پومپیو نے اسرائیل کے اس دعویٰ کا بھی تذکرہ کیا۔ ایران جوہری معاہدے کو غلط قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، اس میں ایران کے بیلسٹک اور کروز میزائل پروگرام کو روکنے کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایران 2015؁ء کے معاہدے کے معاشی ثمرات کی وجہ سے اپنے پاسداران انقلاب ، لبنان کے حزب اللہ ، فلسطین کی حماس، یمن کے حوسی اور افغانستان کے طالبان کی کھلم کھلا مدد کر رہا ہے۔ پاکستان کے لئے دلچسپ امر ہو گا کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغان طالبان کو فنڈ اور اسلحہ ایران کی جانب سے مل رہا ہے، جبکہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت تہران میں رہائش پذیر ہے۔ اور ان تمام اقدامات کی منظوری ایران کے رہبر آیت اللہ خامنائی اور جنرل قاسم سلیمانی کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ کے خیال میں صدر روحامی اور وزیر خارجہ جواد زری اس حکمت عملی کے ساتھ نہیں ، حالانکہ دیگر ذرائع ایسے امریکی دعووں کی تصدیق نہیں کرتے کہ اس معاملے پر ایران کی قیادت میں اختلافات ہوں۔ امریکہ کے چار شہری بھی گزشتہ 11 برس سے ایران میں جاسوسی کے سبب قید ہیں۔ امریکہ یہ تصور کرتا تھا کہ ایران خیر سگالی کے طور پر ان باشندوں کو رہا کر دے گا، مگر ایران نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اب امریکہ یہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے کہ سب سے پہلے ایران پر معاشی دبائو بڑھایا جائے تا کہ وہاں پر معاشی دبائو کے سبب عوامی بے چینی کی کیفیت پیدا کی جا سکے۔ لیکن امریکہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ ایران ریڈ سی بین الاقوامی تجارت کو کسی رد عمل میں نقصان نہ پہنچا دے، کیونکہ ایران اس کی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر معاشی دبائو کے اثرات کے سبب سے ایران پیچھے نہ ہٹا تو ایسی صورت میں طاقت کا استعمال بھی امریکیوں کے پاس زیر غور ہے، مگر اس کے نتائج بہت ہولناک ہو سکتے ہیں، جو امریکی سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے فیصلے پر ایران کا رد عمل بہت سخت سامنے آیا۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو دوبارہ مذاکرات کی پیشکش کی مگر ایران نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ ایک حکومت سے معاہدہ کرنے کی اگر کوئی حیثیت نہیں تو دوسرے سے کیا ہو گا۔ یورپ کے لیڈروں بالخصوص فرانس اور جرمنی نے کوشش کی ہے کہ ایران اس ڈیل پر قائم رہے ،مگر ایران کی طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ یہ ڈیل تو کجا ہم تو این پی ٹی سے بھی نکل سکتے ہیں۔ ایران نے یورپ کے لیڈروں کی اس خواہش کے جواب میں کہ ایران اس معاہدے سے وابستہ رہے ،پوچھا ہے کہ ایران کو یورپ کیا دے سکتا ہے۔ کیا وہ پرائیویٹ سرمایہ کاری کے لئے نئے راستے نکال سکتا ہے۔ یورپ میں بھی ان تجاویز پر کام ہو رہا ہے کہ، انٹر پرائزز اور یورپی بزنس پر ایران پر عائد پابندیاں اثر انداز نہ ہو سکیں۔ تیل اور گیس کی مد میں جو رقوم ایران کو ملیں وہ امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آ سکیں۔ جرمنی اور فرانس کے سربراہان نے ڈیل کے خاتمے سے قبل وائٹ ہائوس کا دورہ کیا تھا، تا کہ ٹرمپ کو اس سے باز رکھ سکے، پھر برطانیہ کی وزیر اعظم سمیت متعدد یورپی لیڈروں سے اس موزوں پر بات بھی کی تھی۔ یورپی یونین پابندیوں سے قبل ایران کی سب سے بڑی ٹریڈ پارٹنر تھی ،اب یہ حیثیت چین کو حاصل ہے۔ یورپی یونین دوبارہ یہ حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جنوری سے اکتوبر 2017؁ء تک فرانس کی ٹریڈ ایران سے 118 فیصد بڑھی فرانس کی ٹوٹل کمپنی نے دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ جنوبی پارس کا ٹھیکہ لیا ،جبکہ ایئر بس نے 100 جہازوں کا 18 ارب ڈالر کا آرڈر لیا۔ رینالٹ اور پیجو کار کی کمپنیاں بھی ایران کو بڑی مارکیٹ سمجھتی ہیں۔ جرمنی کے تجارتی مفادات یہ ہیں کہ 1975؁ء میں جرمنی ایران تجارت 4.5 ارب ڈالر تھی جو 2013؁ء میں صرف 2 ارب ڈالر رہ گئی۔ یورپی ممالک اس نقصان سے باہر آنا چاہتے ہیں، مگر امریکہ کی گرفت کے سبب سے باہر آ نہیںپا رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ایران کو مزید اشتعال دلانے کے امریکہ فیصلے کے آگے جھک جاتے ہیں۔ 

تازہ ترین