محمد حمید شاہد
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں اُردو تنقیداور تحقیق کے موضوع پر ایک کانفرنس کا اِہتمام کیا گیا ، میںدودِن جاری رہنے والی اس کانفرنس کی ہر نشست میں بیٹھا اور توجہ سے مقالات سنے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیادانش گاہوں کے اندر اساتذہ میںبھی تنقید کے باب میں وہ بے چینی اور بے اطمینانی موجود ہے جو ہم تخلیق کاروں میں پائی جاتی ہے ۔ اس کانفرنس میں ملک بھر کی دانش گاہوں سے اردو تنقید اور تحقیق سے وابستہ اساتذہ آئے ہوئے تھے ، جو مقالات وہاں پڑھے گئے اُن میں تنقید اور تخلیق کے درمیان در آنے والے فاصلے کو نشان زد کیا گیا تھا،حتیٰ کہ وہ ناقدین، جو کل تک جدید تنقید کے پر جوش مبلغ تھے ،وہ بھی اگر مگر پر اُتر آئے تھے ۔ گویا ایک پسپائی کو صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔ ایک اجلاس میں جب اُردو تنقید کے رجحانات اور عصری عالمی تناظرکے موضوع پر بات ہو رہی تھی اور یہ کہا جارہا تھاکہ مغرب سے آنے والے تنقیدی رجحانات کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمارے ہاں انگریز سے نفرت یا ناپسندیدگی آڑے آتی رہی ہے تووہاں یہ بات بھی سامنے آئی کہ تھیوری سے ہمارا معاملہ، تنقید کے ایک وسیلے اور علم کے ایک سرچشمے کا ہونا چاہیے تھا مگر مرعوبیت کا یہ عالم رہاہے کہ اس تجزیاتی وسیلے کو، جسے ہمارے ہاں محض اردو تنقید کی کتاب کا ایک باب ہونا چاہیے تھا ، پوری کتاب یا مکمل تنقید بنا کر پڑھایا جانے لگاہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس نئی تنقید کی بنیاد ہی پہلے سے موجود تنقید ی وسیلوں کے مکمل اتلاف پر رکھی گئی ہے ۔
تھیوری والوں نے اُردو تنقید پر’ ٹریڈیشنل تھیوری‘ کی پھبتی کس کر اسے نظروں سے گرانا چاہا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے یہ گھسی پٹی، فرسودہ سی ایک کلید تھی، ایسی زنگ آلود کنجی، جس سے اب کوئی تالا نہیں کھلے والا ۔ اوّل تو یہ سمجھنا ہوگا کہ ادبی روایت کو’ روایتی ‘ کے معنیٰ میں لینا بد دیانتی ہے ۔ یہ ایسا سرمایہ نہیں، جس کی یوں تحقیر کی جائے ۔ اسی نے تو ہمیں سکھایا ہے کہ ادب پارہ نہ تو محض علم ہوتا ہے نہ فقط متن ۔ ایک تشبیہہ، ایک استعارہ اور ایک کنایہ لفظ کے لغوی معنٰی بدل کر رکھ سکتا ہے۔ تخلیقی عمل وہ جادو ہے جس میںجملے اور مصر عے ،محض متن نہیں رہتے، نئے جہانوں پر اپنی جہتیں اور طرفیں کھول لیتے ہیں ۔ ہمیں اِسی تنقید نے بتا رکھا ہے کہ دلالتِ لفظی اور دلالت غیر لفظی بھی تخلیقی بھید ہیں اور یہ ایک ادب پارے میں ایسے نشان ہو جاتے ہیں ،جو قاری پر معنی کی پرتیں ہی نہیں کھولتے اسے اس تخلیقی جمال کے مقابل بھی کر دیتے ہیں، جہاں محض معنی مات کھا جایاکرتے ہیں۔
یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ادبی تنقید کادامن فقط کسی لسانی یاثقافتی تھیوری کے وسیلے سے بھرا جا سکتا ہے۔ادبی تنقید صرف ایک فلسفیانہ سرگرمی بھی نہیں ہے ۔ آپ کے لیے یہ اہم ہو سکتا ہے کہ معنیٰ کیا ہے؟ کسی حد تک میرے لیے بھی یہ اہم ہے، مگر میں اسے ادب پارے میںواحد قدر کے طور پر نہیں دیکھتا ۔ ادبی متن کو محض لسانی ساخت یا کرافٹ سمجھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے ۔ یہی وہ علاقہ ہے، جہاں ادبی تنقید الگ ہو جاتی ہے اور یہیں سے ادبی تنقید لسانیات کا فلسفیانہ مشغلہ رہتی ہے، نہ مختلف علوم کی تجربہ گاہ ۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ادبی دانش، ایک فلسفیانہ دانش سے بڑی حد تک مختلف ہوتی ہے ۔ فلسفیانہ دانش متنی گورکھ دھندہ ہو سکتی ہے، جسے ثقافت سے جوڑ کر معنیٰ اخذ کیے جاسکتے ہیں ،مگر ادبی دانش بیان میں نہیں آتی بلکہ ایک فن پارے کی جمالیاتی تشکیل میں سجھائی دیتی ہے ۔
کانفرنس میںجب ایک صاحب ٹیری ایگلٹن کا حوالہ دے کر یہ بتا رہے تھے کہ معنی کا تصور ،لفظ کے بغیر ممکن نہیں اوراس نقطے سے جو نکتہ سمجھانا چاہتے تھے ، اسی میںخودالجھ کر رہ گئے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ لفظ پہلے موجود تھا اور اس نے اپنے وجود سے جڑے ہوئے معنٰی کو تخلیق کیا یا معنی پہلے سے کائنات میں بکھرے ہوئے تھے اور لفظ نے اپنے حصے کے معنیٰ اُچک لیے؛ بات دونوں طرح سے ممکن تھی ۔ پہلے مرغی یا پہلے انڈے والی یہ بحث وہاں ایک بانجھ تنقیدی مشقت ہو جاتی ہے، جہاں لفظ کے اندر سے تہذیبی معنی تلف کرکے سارا بوجھ قاری کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے اورتخلیقی جمال کی قدر سے اسے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے ۔ ایک فن پارے کو مختلف علوم کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے؛بجا ، مگر کیا ایک فن پارے کی کُل کو توڑ کر من مانے معنی برآمد کیا جانا احسن اقدام ہو گا؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی پانی کے خواص کو سمجھنا چاہے اور ہائیڈروجن یا آکسیجن کے خواص میں اُلجھ کر اس صاف شفاف بہتے ہوئے مائع کو بھول جائے، جو ہمارے خشک حلقوم میں اُترتا ہے تو ہم جی اُٹھتے ہیں۔ (جاری ہے)