(تحریر ہننا بولڈ)
امریکا نے آئندہ چند ہفتوں کے دوران ان چینی مصنوعات کی فہرست جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جن پر نیا 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا، اس اعلان کے بعد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگیوں میں مزید اضافہ ہوگا، ایک ہفتے قبل ہی ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ تجارتی جنگ کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔
’’چین کی صنعتی پالیسیاں بدستور امریکا اور دنیا بھر میں کاروباروں کو نقصان پہنچارہی ہیں، وائٹ ہائوس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صرف رواں برس ایسی 13 مختلف مصنوعات کی نشاندہی کی ہے جس پر ناجائز سبسڈیز لی جارہی ہیں‘‘
وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ چین کی صنعتی پالیسیاں بدستور امریکا اور دنیا بھر میں کاروباروں کو نقصان پہنچارہی ہیں، وائٹ ہائوس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صرف رواں برس ایسی 13 مختلف مصنوعات کی نشاندہی کی ہے جس پر ناجائز سبسڈیز لی جارہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ برآمد کی جانے والی مصنوعات کی حتمی فہرست، جس کی مالیت 50 ارب ڈالر ہے، 15 جون کو شائع کی جائے گی جس کے کچھ ہی عرصے بعد ان مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
امریکا چینی شخصیات اور کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کو محدود کرنے اور برآمدات کوکنٹرول کرنے کے لئے مخصوص پابندیاں بھی عائد کرے گا جس کا مقصد چینی کمپنیوں کو معنی خیز ٹیکنالوجی کے حصول کو روکنا ہے، اس کی فہرست 30 جون کو جاری کی جائے گی۔
وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ وہ اس کیساتھ ساتھ چین کی جانب سے ٹیکنالوجی لائسنسنگ کے لئے امتیازی ضروریات کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں بیجنگ کے خلاف جاری کیس کی پیروی بھی کرے گا۔
امریکا کی جانب سے چین کیساتھ کاروبار کے لئے تجارتی پابندیوں کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب چند دن قبل ہی دونوں ممالک میں اس حوالے سے جاری کشیدگی بظاہر کچھ کم ہوتے ہوئے دکھائی دے رہی تھی حالاں کہ امریکی وزیرخزانہ اسٹیون منوچن کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کو روک دیا گیا ہے اور اب دونوں فریقین ایک معاہدے پر کام کررہے ہیں۔
اتوار کے روز فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے منوچن کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت ہم نے چینی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ موخر کردیا ہے اور ہم ایک فریم ورک بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
بیجنگ نے ابتدائی طور پر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر مجوزہ ٹیرف عائد کرنے کے جواب میں امریکا کی اہم مصنوعات جیسا کہ پھلیاں، اسٹیل اور تمباکو وغیرہ پرٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم چین بظاہر تجارتی جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لئے رعایت دینے کیلئے تیار تھا، چینی وزیراعظم شی چن پنگ کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کی ذہنیت اور زیرو سم گیم (جس میں ایک فریق کا فائدہ ہو اور دوسرے کا نقصان) کا دور گذر چکا ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ چین نے امریکا سے توانائی اور زرعی مصنوعات کی خریداری کا حجم بڑھانے پر رضامندی ظاہر کردی تھی، اس اقدام کا مقصد بظاہر دونوں فریقین کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنا تھا۔
اس بات کے اشارے مل چکے ہیں کہ دونوں مالک کے درمیان مذاکرات کے زریعے کسی قسم کا تجارتی معاہدے طے پانا انتہائی مشکل ہے ایک ایسے وقت میں کہ جب گزشہ ہفتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت احسن انداز سے جاری ہے لیکن بلآخر ہمیں معاہدے کے لئے ممکنہ طور پر ایک علیحدہ طریقہ کار اختیار کرنا پڑسکتا ہے، یہ انتہائی مشکل ہوگا اس کے مکمل ہونے کے بعد ہی اس کے نتائج سامنے آسکیں گے۔
وائٹ ہائوس کی جانب سے چینی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کا منصوبہ جاری رکھنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب رواں ہفتے امریکی وزیر تجارت ولبر روز بیجنگ کا دورہ کرنے والے ہیں۔