• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حریف سے حلیف تک: یوسف رضا گیلانی کے پرانے ساتھی جاوید علی شاہ مقابلے میں آگئے

حریف سے حلیف تک: یوسف رضا گیلانی کے پرانے ساتھی جاوید علی شاہ مقابلے میں آگئے

صدر مملکت کی طرف سے 25 جولائی 2018ء کو عام انتخابات کرانے کی منظوری کے بعد بڑی حد تک اس بے یقینی کا خاتمہ ہوگیا ہے جو عام انتخابات کے حوالے سے پائی جاتی تھی۔ آج موجودہ حکومتوں کا آخری دن ہے اور کل سے ملک میں نگران سیٹ قائم ہو جائے گا۔ ادھر الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کی تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں اور بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مقررہ شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکے۔ عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آگئی ہے اور تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہیں اگرچہ شدید گرمی اور ماہ رمضان المبارک کی وجہ سے دن کے اوقات میں انتخابی مہم کا چلنا آسان نہیں ہے مگر اس کے باوجود کہیں افطار پارٹیوں ، کہیں ورکرز کنونشن اور کہیں کارنر میٹنگز کے ذریعے انتخابی میدان میں گرما گرمی کا سامان نظر آتا ہے۔ اس بار انتخابات ایک عجیب کشیدہ ماحول میں ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ جب مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اپنی نااہلی کی وجہ سے ایک سخت بیانیہ اختیار کئے ہوئے ہیں جو خود مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ عید کے بعد انتخابی مہم میں جب تیزی آئے گی تو معلوم ہوگا کہ نواز شریف کیا اسی رنگ میں اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں گے یا ان کے بیانیہ میں شدت کچھ کم ہوجائے گی۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید15 جون سے پہلے احتساب عدالت کا فیصلہ آ جائے اور نواز شریف کو امکانی طور پر سزا سنا دی جائے۔ اگر وہ انتخابی مہم کے دوران جیل چلے جاتے ہیں تو اس کے مسلم لیگ ن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس موقع پر شہباز شریف پارٹی پرمکمل کنٹرول کر پائیں گے اور کیا نواز شریف کے جیل جانے سے مسلم لیگ ن میں ایک نئی جان پڑ جائے گی؟ ا ن سب سوالوں کا جواب آنے والا وقت دے گا۔ کچھ حلقے یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کی سزا کے بعد سیاسی حالات کشیدہ ہوئے تو انتخابات ملتوی بھی کئے جاسکتے ہیں۔ تاہم یہ سب باتیں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں مگر اس وقت سب سے زیادہ اہمیت 2018ء کے انتخابات کو حاصل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کیلئے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ اس کا اندازہ 25 جولائی کو پولنگ ڈے پر ہو جائے گا۔ مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان جنوبی پنجاب میں پہنچا ہے جہاں سے درجنوں اراکین اسمبلی ن لیگ کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں جاچکے ہیں۔ ایک دوسرا نقصان یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن نے علیحدہ صوبہ کیلئے اپنا موقف واضح نہیں کیا۔ 26 مئی کو جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شجاع آباد میں موٹر وے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو اس وقت بھی انہوں نے کہا کہ لوگ علیحدہ صوبہ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن علیحدہ صوبہ کے ایشو کو ایک نان ایشو سمجھتی ہے اوراس کے خیال میں یہ نعرہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے ۔ اس وقت جب پیپلزپارٹی قومی ا سمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے جنوبی پنجاب صوبہ کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتی تھی بہاولپور کو اس صوبہ میں شامل نہ کرنے کی باتوں کو ہوا دے کر اسے پروان نہیں چڑھنے دیا گیا لیکن اس بار حالات مختلف ہیں کیونکہ نواب صلاح الدین عباسی جو اصل میں اس تحریک کے روح رواں تھے اور اس بات کے بھی دعویدار تھے کہ وہ سابق ریاست بہاولپور کے والی ہیں۔ اب خود اپنے ا س موقف سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ ادھر ملتان میں سیاست کی عجب کھچڑی پک رہی ہے اور ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ قریب آتے ہی جوڑ توڑ کا سلسلہ بام عروج پر پہنچ گیا ہے۔ برس ہا برس سے جو لوگ بلدیاتی سیاست کے حوالے سے ایک دوسرے کے حلیف رہے اب قومی سیاست میں ایک دوسرے کے حریف بنتے نظر آ رہے ہیں۔ دلچسپ صورتحال قومی حلقہ 158 کی ہے جہاںسے سید خاندان کے جاوید علی شاہ ہمیشہ الیکشن لڑتے آئے ہیں اور اس وقت بھی وہ اس حلقہ سے ایم این اے ہیں مگر جب سے سید یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا ہے کہ وہ این اے 158 سے انتخابات میں حصہ لیں گے عجب صورتحال پیدا ہوتے دکھائی دے رہی ہے کیونکہ جاوید علی شاہ اور سید یوسف رضا گیلانی آج تک کبھی ایک دوسرے کے مقابل نہیں ہوئے بلکہ اندر خانے دوسری جماعتوں میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا اصل حلقہ انتخاب حلقہ 154 ہے جہاں وہ کئی بار الیکشن جیتے اور ہارے لیکن اس بار ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کی خواہش ہے کہ وہ اس حلقہ سے انتخاب لڑیں گے جبکہ ایک اور حلقہ این اے 157 سے بھی یوسف رضا گیلانی شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے مقابل انتخاب لڑتے رہے ہیں مگراس حلقے کو بھی ان کے دوسرے بیٹے علی موسیٰ گیلانی نے اس لئے چن لیا ہے سو اب سید یوسف رضا گیلانی کے پاس سوائے اس کے کوئی آپشن نہیں کہ وہ قومی حلقہ 158 میں قسمت آزمائی کریں۔ یہ حلقہ شجاع آباد ، جلال پور پیر والا پر مشتمل ہے اور یہاں سید خاندان کی برس ہا برس سے اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ پہلے فخر الدین شاہ اور اس کے بعد سید جاوید علی شاہ اس حلقہ سے کئی بار کامیاب ہوئے مگر اب ایک دوسرا سید اس حلقہ میں آ رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا سیاسی فائدہ کسے ہوتا ہے کیونکہ اس حلقہ سے تحریک انصاف کا امیدوار بھی مقابل ہوگا اور کہا جا رہا ہے کہ اگر ٹکٹ نواب لیاقت علی خان کو مل گیا تو بڑا سخت مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔ ادھر ملتان شہر کی نشستوں پر بھی ٹکٹوں کے حصول کیلئے معرکہ آرائی جاری ہے۔ سب سے دلچسپ معاملہ مخدوم جاوید ہاشمی کا ہے کہ وہ کس نشست سے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ جس سیٹ سے وہ پچھلے انتخاب میں حصہ لیتے رہے اس پر مسلم لیگ ن کے دو تین اور تگڑے امیدواروں کی بھی نظریں ہیں۔ اگر جاوید ہاشمی اس نشست پر ٹکٹ حاصل کربھی لیتے ہیں تو انہیں پارٹی کے اندر سے ہی ایک بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین