ماہِ صیام اوردعاؤں کی اہمیت
ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ: اور (اے حبیبﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرماںبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں،تاکہ وہ راہ (مراد) پاجائیں۔(سورۃ البقرہ(
اس آیت میں اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو اپنی طرف متوجہ فرمایا ہے اور انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں…جلیل القدر مفسر علامہ ابن کثیرؒ اپنی سند سے اس آیت کے شان نزول کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بدو نے آپﷺ سے سوال کیا اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے ( دعا کے وقت) سرگوشیاں کریں ( اور زیادہ فریاد وپکار کی ضرورت نہ رہے) یا ہمارا رب ہم سے دور ہے کہ اسے چیخ چیخ کر پکاریں؟ آپﷺ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے۔اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی۔
دعا ایک مکمل اور پختہ وسیلہ ہے۔ ویسے تو ہر مخلوق اور ہر اِنسان کی ایک ایک سانس اور دنیا کی ایک ایک نعمت اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت و عنایت کی بدولت ہے،مگر مشکل اور پریشانی میں اللہ کی توجہ اور رحمتِ خاص دعا سے ہی حاصل ہو سکتی ہے…جامع ترمذی میںحضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے یہاں کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔‘‘لہٰذا معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک جب یہی سب سے افضل ہے تو اللہ کے لطف وعنایت اور رحمت کو کھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت دعا ہی میں ہے…جامع ترمذی میںحضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں،یعنی کوئی دعا اللہ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘ خاص کر رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں دعاؤں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور قبولیت کا شرف پانے کے قریب ہوجاتی ہے۔ یہاںآیت میںروزوں اور رمضان المبارک کے ذکر کے ساتھ دعاؤں کے مانگنے کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے…معجم طبرانی میںحضرت عمر بن خطابؓ سے مروی آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔‘‘مجمع الزوائد میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک رمضان کے ہر دن رات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سے لوگ (دوزخ سے) آزاد کیے جاتے ہیں، اور ہر مسلمان کی دن رات میں ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ ‘‘مسند احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تین شخصوں کی دُعا رَدنہیں ہوتی، روزے دار کی، یہاں تک کہ وہ اِفطار کرے، حاکمِ عادل کی، اور مظلوم کی۔ اللہ تعالیٰ اسے بادلوں سے اوپراٹھالیتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور رب تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میری عزت کی قسم! میں ضرور تیری مدد کروں گا، خواہ کچھ مدّت کے بعد‘‘۔سنن بیہقی میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’روزے دار کی دُعا اِفطار کے وقت رَدنہیں ہوتی۔‘‘ اس لیے رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعات اور قبولیت کے لمحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں کا خصوصیت سے اہتمام کرنا چاہیے۔