• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے نتیجے میں سابق چیف جسٹس ناصرالملک کو نگران وزیر اعظم بنانے پراتفاق رائے ہوگیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں کمزور جمہوریت ہے، وہاں ایسے فیصلوں سے جمہوری سسٹم کو تقویت ملے گی۔ نگران وزیر اعظم کے تقرر کے بعد اب 25جولائی 2018کو انتخابات کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات دور ہوگئے ہیں۔ جسٹس (ر) ناصرالملک ایک غیر متنازع اور بے داغ شخصیت ہیں۔ ان کے تقرر کا پاکستان کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں نے پُرجوش خیرمقدم کیا ہے۔ اب امید کی جارہی ہے کہ عبوری حکومت کے دور میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا عمل پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ جسٹس ناصر الملک پاکستان کے ساتویں نگران وزیراعظم ہوں گے۔ شفاف انتخابات کی بڑی اہم ذمہ داری ان کے کندھوں پر آگئی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ بروقت الیکشن ہونے سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی اور وطن عزیز ترقی و خوشحالی کی جانب سفر کرے گا۔ مقتدر حلقے بھی یہی چاہتے ہیں کہ عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں اور جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چلتی رہے البتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے خلاف بیانات نے گزشتہ دنوں ایک ایسی فضا بنا دی تھی کہ شاید الیکشن میں تاخیر ہوجائے مگر ہماری سول اور عسکری قیادت نے یہ پختہ عزم کیا ہے کہ جمہوریت کا تسلسل قائم رہنا چاہئے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ تاہم نگران وزیر اعظم کے تقرر کا ایک اہم مرحلہ حکومت اور اپوزیشن کی فہم و فراست سے مکمل ہوچکا ہے۔ 31مئی تک مسلم لیگ (ن) حکومت کی ڈیڈلائن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آئندہ عام انتخابات میں قوم سیاسی بصیرت کا ثبوت دے گی یا پھر دوبارہ کرپٹ افراد اسمبلیوں میں پہنچیں گے؟ اس کا جواب ہمیں الیکشن کے بعد ہی مل سکے گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں انکشاف کیا ہے کہ عام انتخابات کے موقع پر بڑے پیمانے پر سیکورٹی خطرات کی پیشگی اطلاعات ہیں۔ عالمی قوتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کی سیکورٹی ناکافی ہے۔ ملک میں 20ہزار پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیئے گئے ہیں۔ پاک فوج کی خدمات لی جارہی ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کے یہ انکشافات پریشان کن ہیں مگر حکومت کو فوج کی مدد سے ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ پُرامن انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے۔ الیکشن کسی بھی صورت سبوتاژ نہیں ہونے چاہئیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے جہلم، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر سمیت10 اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی ہیں جبکہ مزید حلقہ بندیوں پر فیصلہ آنے والا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ عام انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی اور ہرصورت الیکشن25جولائی کو ہی ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے 77جماعتوں کو انتخابی نشانات بھی الاٹ کردیئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو شیر، متحدہ مجلس عمل کو کتاب، تحریک انصاف کو بلا، پیپلزپارٹی کو تلوار، ق لیگ کو ٹریکٹر کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینرز کو تیر کا نشان ملا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان کے مطابق وہ تیر کے نشان پر الیکشن لڑے گی۔
مسلم لیگ (ن) کا پانچ سالہ دور پاکستانی عوام کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوسکا۔ مقام افسوس ہے کہ نواز شریف کی نااہلی سے بھی مسلم لیگی قیادت نے سبق نہیں سیکھا۔ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں جاری ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی نواز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ تادم تحریر چونکہ اب حکومت کا پانچ سالہ دور ختم ہونے کے قریب ہے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی حکومت کے خاتمے سے چند دن پہلے وفاقی ملازمین کو تین ماہ کی تنخواہ بطور ’’اعزازیہ‘‘ دینے کا حکم دے کر ایک غیردانشمندانہ اقدام کیا۔ اس فیصلے سے حکومتی خزانے کو 150ارب روپے کا نقصان ہوگا۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق صرف بجٹ بنانے والوں کو تین ماہ کی تنخواہیں دینے کی بات کی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر تمام سرکاری ملازمین کو یہ ریلیف دینا ہے تو اس کا فیصلہ ای سی سی کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ملکی اقتصادی معاشی صورتحال پہلے ہی کمزور ہونے کے باوجود وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا حکومت کا سربراہ واقعی معاشی صورتحال سے اتنا بے خبر ہوسکتا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ کرپشن کے ناسور نے ہمیں بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ انتخابات کے ساتھ ساتھ احتساب کا عمل بھی جاری رہنا چاہئے۔ جن لوگوں نے پانامالیکس، دبئی لیکس اور پیراڈائز لیکس میں منی لانڈرنگ کی ہے، اسی طرح جنہوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں ان کاکڑا احتساب ہونا چاہئے۔ لیکن احتساب کی وجہ سے انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ غریب عوام کو تعلیم، صحت کی سہولتیں نہیں مل رہیں حتیٰ کہ پینے کاصاف پانی بھی عوام کو دستیاب نہیں ہے۔ کیا ان حالات میں ایک غریب ملک کا وزیر اعظم ایسا شاہانہ حکم دے سکتا ہے۔ یہ پاکستانی قوم کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے کہ وفاقی وزارت خزانہ کا بجٹ بنانے کا ونگ ہر سال بجٹ بنانے کے عوض پانچ اضافی تنخواہیں وصول کرتا ہے۔ بجٹ بنانا ان کا اصل کام ہے جس کا ان کو معاوضہ ملتا ہے مگر پھر بھی پانچ اضافی تنخواہیں کیوں لی جاتی ہیں؟ خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے بھی جاتے جاتے اپنے تحت چند دفاتر میں کام کرنے والوں کو تنخواہ کا 50فیصد الائونس دے کر صوبہ پنجاب کو شدید جھٹکا لگایا ہے۔
موجودہ ملکی مسائل کے حل کے لیے اتحاد امت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔عالمی طاقتیں پاکستان میں فرقہ واریت پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ماضی میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھا کہ ملک میں اتحاد امت کی فضا کو پیدا کیا جائے۔ دینی قوتوں کے باہم دست وگریباں ہونے سے سیکولر عناصر بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں مگر لگتا یہ ہے کہ اب انہیں پاکستان میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ پاکستانی قوم بیرونی ایجنڈے کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ اسی تناظر میں چند روز قبل لاہور کے مقامی ہوٹل میں تنظیم اتحاد امت کے زیر اہتمام افطار ڈنر کی ایک خصوصی تقریب رکھی گئی۔کالم نگار ضیاء الحق نقشبندی اس تقریب کے روح رواں تھے۔ تقریب میں ممتاز اہل قلم عطاء الحق قاسمی، سہیل وڑائچ، سجاد میر، ڈاکٹر حسین پراچہ، رئوف طاہر، افضال ریحان، افتخار مجاز امریکی ٹی وی چینل سی این این کے ہیڈ رشید زعیم، محمد عثمان اور دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ میں نے پروگرام میں اظہارخیال کرتے ہوئے عرض کیا کہ جناب ضیاء الحق نقشبندی کی تنظیم ’’اتحاد امت‘‘ کے ذریعے معاشرے میں فرقہ واریت کے خاتمے اور تعلیمی نظام کو متوازن بنانے کے لئے کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ پاکستان میں اس وقت دو طرح کے نظام تعلیم چل رہے ہیں، ایک دینی ہے اور دوسرا دنیاوی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کوختم کیا جائے اور پاکستان کی نظریاتی اساس کے مطابق متوازن دینی و دنیاوی نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ میں نے مزید عرض کیا کہ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے 80فیصد تک شرح خواندگی تھی مگر لارڈمیکالے کا نظام تعلیم رائج کرکے یہاں معاشرے کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین