• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب میں نے چھ سال قبل لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) سے ایک سال کی رخصت کے دوران حکومت پنجاب کے لیے خدمات انجام دینا شروع کیں تو میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس سے کیا توقع کرنا چاہیے۔ میرے تقریباً ہر واقف شخص نے حکومت کے لیے کام کرنے کے حوالے سے میری حوصلہ شکنی کی۔ میں نے اپنی علمی تربیت کیمبرج اور ایم آئی ٹی سے حاصل کی تھی اور اسی زمانے میں میرا نام دنیا کے 35چوٹی کے نوجوان موجدوں میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ کسی روایتی سرکاری افسر کا پروفائل نہیں تھا اور یہ بات ماننے والی تھی کہ بہت سے لوگ سوچتے تھے کہ میں حکومتی منصب کے لیے موزوں ہوں۔ میں پوری دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے خود بھی توقع نہیں تھی کہ میں چند مہینوں سے زیادہ حکومت کے لیے کام کر پاؤں گا اور میں نے یہ عہدہ صرف اس وجہ سے قبول کیا تھا کہ میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں کسی بھی وقت لوٹ سکتا تھا۔چھ برس بعد روایتی دانش کے برخلاف مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پچھلے چند سال میری پیشہ ورانہ زندگی کے سب سے زیادہ قیمتی سال تھے۔ اس عرصے کے دوران پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) نے تین سو پراجیکٹ مکمل کیے اور بنیادی طور سے حکومت کے بہت سے محکموں اور کام کرنے کے طور طریقوں کو یکسر تبدیل کر دیا۔پنجاب اپنا لینڈ ریونیو سسٹم(بدنامِ زمانہ پٹواری سسٹم) مکمل کمپیوٹرائزڈ کر چکا ہے، جہاں پانچ کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ دیہی اراضی کے مالکان کا لینڈ ریکارڈ ڈیجیٹائزڈ کر دیا گیا ہے۔ اس کمپیوٹرائزڈ نظام سے بیاسی لاکھ فردیں جاری ہو چکی ہیں اور پینتالیس لاکھ سے زیادہ پراپرٹی ٹرانزیکشنز ہو ئی ہیں۔اسی طرح پنجاب کے تمام 714تھانوں کو بھی بشمول پرانا کریمنل بائیومیٹرک ریکارڈ‘مکمل کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے۔ اس نظام کو استعمال کرتے ہوئے اکیس لاکھ سے زیادہ کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں۔ ہم نے ایسا ہی نظام سندھ میں بھی بنایا اور پچھلے ہفتے پنجاب اور سندھ پولیس نے صوبائی سرحدوں کے آر پار بہتر طریقے سے مربوط انداز میں کارروائیوں کے لیے اپنے نظاموں کو باہم جوڑنے کا آغاز کیا ہے۔ اسی طرح کے پی کے پولیس کی درخواست پر ہم نے کے پی کے پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے لیے پنجاب سی ٹی ڈی کی طرز پر نظام بنا کر دیا۔ عمومی طور سے پی آئی ٹی بی کے تفتیش اور نگرانی کے نظام تمام صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ میں کیس فلو مینجمنٹ کا جامع سسٹم قائم کیا گیا جو یقینی بنائے گا کہ مقدمات کو آٹومیٹڈ سسٹم کے ذریعے ٹریک ‘شیڈول اور مانیٹر کیا جا سکے۔ اب ہمارے آٹومیٹڈ کیس فلو مینجمنٹ سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے ڈیڑھ لاکھ مقدمات کو پروسیس کیا جا رہا ہے۔جعلی اور پرانی تاریخوں میں جاری کیے جانے والے سٹیمپ پیپرز کی وجہ سے اراضی کے بے شمار جھگڑے کھڑے ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا 117سال پراناسٹیمپ پیپر کا مبہم نظام بھی انڈرویلیوڈ پراپرٹی ٹرانزیکشنز کی وجہ سے سٹیمپ ڈیوٹی کی بہت زیادہ چوری کا سبب بن رہا تھا۔ اس کا خاتمہ کرنے کے لیے ہم تمام (ہائی ڈینامینیشن نان جوڈیشل اور تمام جوڈیشل) سٹیمپ پیپرز کو ای سٹیمپس سے بدل چکے ہیں۔ اس نئے نظام کے ساتھ سارے نظام کو کمپیوٹرائزڈ بھی کر دیا گیا ہے اور سرکاری ٹریژری آفس کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ شہری ای سٹیمپس کسی پرائیویٹ بینک سے خرید سکتے ہیں جہاں ہر سٹیمپ پیپر کا ایسا انفرادی تصدیقی نمبر ہے جسے ٹریک کیا جا سکتا ہے اور سٹیمپ پیپر کی قیمت خودکار طریقے سے ڈی سی جدول کے مطابق طے کی جا سکتی ہے۔ پورے صوبے میں 75 ارب روپے سے زیادہ کے ای سٹیمپس جاری کیے جا چکے ہیں اور 10ارب روپے سے زیادہ کی سالانہ چوری کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔پاکستان کا سرکاری شعبے کا سکول ایجوکیشن سسٹم گھوسٹ سکولوں‘استادوں کے عادتاً غیر حاضر رہنے، طلبا کے جعلی داخلوں اور تعلیم کے پست معیار جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ پنجاب دنیا کے چند سب سے بڑے سکول سسٹمز میں سے ایک سسٹم کو چلا رہا ہے جس میں 52,000سے زیادہ سکول، ایک کروڑ بائیس لاکھ طلبا اور چار لاکھ اساتذہ شامل ہیں۔ ہم نے سکول مانیٹرنگ کا جامع نظام بنایا جس میں تقریباً 1,300مانیٹرنگ افسر ہر ماہ کمپیوٹر ٹیبلٹس پر ہماری ایپ استعمال کرتے ہوئے ہر سکول کا معائنہ کرتے ہیں۔اپ لوڈ کی جانے والی انسپکشن رپورٹس جیوٹیگڈ ہوتی ہیں اور انسپکشن کے ثبوت کے طور سے ان میں حاضری رجسٹر اور سکول کے ہیڈماسٹر کی تصاویر شامل ہوتی ہیں۔ اب تک ہمارے اس نظام کو استعمال کرتے ہوئے 20لاکھ سے زیادہ انسپکشنز کی جا چکی ہیں اور گھوسٹ سکولوں کا مکمل خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ مزید برآں وزٹ کا ایک حصہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تدریس کے نتائج جاننے کے لیے ٹیبلٹس پر طلبا کے موقع پر ٹیسٹ لئے جاتے ہیں۔ ان ٹیبلٹس کو استعمال کرتے ہوئے اب تک چار کروڑ نوے لاکھ کمپیوٹر بیسڈ ٹیسٹ لیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں سکولوں میں داخلے بھی ایک کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے ہوتے ہیں‘ جس کے تحت جعلی داخلوں کا خاتمہ کرنے کے لیے طالبِ علم کے والدین کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں اساتذہ کی تعلیم، تبادلوں اور ٹریننگ کا ریکارڈ ترتیب دینے کے لیے انھیں ایک جامع نظام کے ذریعے ٹریک کیا جاتا ہے۔ سارا ڈیٹاopen.punjab.gov.pk http://پر عوام کے لیے مہیا کر دیا گیا ہے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین