• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اعتکافِ رمضان: ماہِ مُبارک کی مسنُون اور اہم عبادت

اعتکافِ رمضان: ماہِ مُبارک کی مسنُون اور اہم عبادت

مولاناڈاکٹر سعیدا حمد صدیقی

’’اعتکاف‘‘رمضان المبارک کی مسنون اور اہم عبادت ہے ،جسے فرض کفایہ کا درجہ حاصل ہے۔احادیثِ نبویؐ میں اعتکاف کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے۔ تو اللہ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم فرما دیتا ہے، جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔ بیہقی کی ایک روایت میں بڑی اہم حدیث آئی ہے فرمایا رسول اللہﷺ نے جو شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرے تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا۔اس سے اعتکاف کی عظمت واہمیت کا پتا چلتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اعتکاف کرنے والے کے حق میں یہ فرمایا کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیاں اس کے لیے جاری کی جاتی ہیں،ایسی نیکیاں جیسی کہ عام طور پر نیکیاں کرنے والے ہر قسم کی نیکیاں کرتے ہیں۔‘‘ ( ابن ماجہ)

اعتکاف کا لفظی معنیٰ ہے روکنا اور منع کرنا۔ چوںکہ انسان اعتکاف میں اپنے آپ کو چند مخصوص باتوں سے روکتا ہے،اس لیے اسے اعتکاف کہتے ہیں۔اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے۔ یعنی بیسویں روزے کی شام کو غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے پر ختم ہو جاتا ہے۔اعتکاف کے بعض ضروری مسائل حسب ذیل ہیں۔

٭ شرعی ضرورت کے لیے معتکف کا مسجد سے نکلنا: یعنی وہ ضروریات جن کی بناء پر شریعت نے معتکف کے لیے مسجد سے نکلنا جائز قرار دیاہے۔وہ یہ ہیں: (1) قضائے حاجت-:معتکف قضائے حاجت یعنی پیشاب یا پاخانے کی ضرورت سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے،جہاں تک پیشاب کا تعلق ہے ،اس کے لیے مسجد کے قریب ترین جس جگہ پیشاب کرنا ممکن ہو وہاں جانا چاہیے اور قضائے حاجت کے لیے اگر مسجد کے احاطے میں انتظام ہے تو وہاں جائے اور کہیں دوسری جگہ جانا درست نہیں۔بیت الخلا جاتے وقت یا آتے وقت راستے میں سلام کرنا، سلام کا جواب دینا، مختصر بات چیت کرلینا، مزاج و طبیعت پوچھ لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ ٹھہرے نہیں، چلنے کی حالت میں یہ سب ہو ۔ بیت الخلا کے لیے جاتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں، آہستہ چلنا بھی جائز ہے۔اگر قضائے حاجت کے لیے جارہا ہو تو کسی شخص کے روکنے سے رکنا نہیں چاہیے،بلکہ چلتے چلتے بتادینا چاہیے کہ میں اعتکاف سے ہوں۔

٭ معتکف کا غسل: معتکف صرف فرض غسل یعنی احتلام کی صورت میں غسل کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے، جب کہ مسجد کے اندر رہتے ہوئے غسل ممکن نہ ہو، مثلاً بڑے ٹب وغیرہ میں انتظام ہوجائے، لیکن اگر اس میں مشکل ہو تو باہر جانا جائز ہے اور اگر مسجد کا غسل خانہ ہے تو وہ استعمال کرے اور اگر انتظام نہیں ہے یا ٹب ناقص ہے،طبیعت کے لیے سخت دشوار ہے تو گھر جاسکتا ہے۔جمعہ کے دن غسل کے لیے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔ اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا، بعض افراد کی طبیعت اس معاملے میں بہت حساس ہوتی ہے،ایسے افراد مسجد کی حدودکے اندر ہی گیلے تولیے وغیرہ سے جسم کو پوچھ لیں یا کوئی اور طریقہ اختیار کرلیں، مسجد سے باہر نکلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔مالکی مذہب میں چوںکہ غسل جمعہ فرض ہوتا ہے تو ان کے لیے تخصیص ہوسکتی ہے دوسروں کے لیے نہیں ۔

٭ معتکف کا وضو-:اگر مسجد میں وضو کرنے کی ایسی جگہ موجود ہے کہ معتکف خود تو مسجد میں رہے،لیکن وضو کا پانی مسجد کے باہر گرے تو وضو کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔انتظامیہ کو چاہیے کہ اس مقصدکے لیے واش بیسن یا کوئی اور معقول انتظام کرے۔ ورنہ معتکف یہ کرے کہ کنارے پر بیٹھ کر اس طرح وضو کرے کہ پانی مسجد سے باہر گرے لیکن اگر یہ سب ممکن نہ ہو تو باہر جاسکتا ہے، یہ حکم ہر وضو کے لیے ہے، خواہ فرض نماز کے لیے ہو یا نفلی یا معتکف خود وضو سے رہنا چاہتا ہو تو وضو کرسکتا ہے۔ اگر معتکف وضو کے لیے باہر جاتا ہے اور مسجد کے اندر انتظام نہیں ہے تو وضو کے دوران مسواک، صابن وغیرہ کا استعمال کرسکتا ہے، لیکن وضو کے بعد ایک لمحے کے لیے ٹھہرنا جائز نہیں اور نہ راستے میں رکنا جائز ہے ۔

٭ محراب-: محراب مسجد کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ منبر و محراب مسجد کا حصہ ہیں، بعض اکابرین تو اعتکاف کا زیادہ حصہ محراب ہی میں گزارتے تھے۔

٭ اعتکاف اور نماز جمعہ -: اگر کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا ہے جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو نماز جمعہ کے لیے معتکف جامع مسجد جاسکتا ہے ۔

٭ امن وامان کا مسئلہ:اگر کسی علاقے میں ایسی گڑ بڑ ہوگئی ہے کہ معتکف کی جان کو خطرہ لاحق ہے تو معتکف دوسری محفوظ مسجد میں منتقل ہوکر اعتکاف پورا کرسکتا ہے، بشرطیکہ وہاں سے نکلنے کے بعد راستے میں نہ ٹھہرے۔

٭ کن صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے؟: اعتکاف کے دوران کوئی ایسی بیماری پیدا ہوگئی جس کا علاج مسجد سے باہر نکلے بغیر ممکن نہ ہو۔ کوئی ڈوب رہا ہو یا آگ لگ گئی ہو ،کوئی بجھانے والا نہ ہو یا کسی کوجان سے بچانا ہو تو اعتکاف توڑ کر باہر آسکتا ہے۔ ماں، باپ یا بیوی بچے سخت بیماری میں مبتلا ہوگئے ہوں تو بھی اعتکاف توڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص زبردستی باہر نکال کر لے جائے اور اسے روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ،یا اگر جنازہ آجائے اور نماز پڑھانے والا کوئی نہ ہو۔ ان تمام صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے اور کوئی گناہ نہیں۔

٭ اعتکاف کی قضا: اگر کسی وجہ سے رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ٹوٹ گیا ہے تو دس روز کی قضا نہیں ہوتی، بلکہ جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے، صرف اسی دن کی قضا واجب ہوگی اور اس کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اسی رمضان میں وقت باقی ہے۔ تو اسی رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضا کی نیت سے اعتکاف کرلیں اور اگر اسی رمضان میں وقت باقی نہ ہو یا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو رمضان کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کر ایک دن کے لیے اعتکاف کیا جاسکتا ہے اور اگر اگلے رمضان میں قضا کرے تو بھی صحیح ہے ۔ اگر اعتکاف ٹوٹ گیا ہے تو مسجد سے باہر نکلنا ضروری نہیں باقی ایام نفلی اعتکاف کی نیت سے جاری رکھے ۔ اعتکاف کے دوران کھانا، پینا، سونا، ناخن، بال کٹوانا بہ شرطیکہ مسجد میں نہ گریں۔ نکاح کرنا، کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، سر میں تیل لگانا اگر ڈاکٹر ہے تو مریض کا معائنہ کرنا، نسخہ لکھنا۔ قرآن کریم یا دینی علوم کی تعلیم دینا، یہ سب بلاکراہت جائز ہیں۔ اعتکاف کے دوران بالکل خاموش رہنا۔ فضول باتیں بلاضرورت کرنا۔بہت زیادہ جگہ گھیر لینا کہ دوسروں کو تکلیف ہو، مکروہ ہیں۔ جن لوگوں کو اعتکاف مسنون کا موقع نہ ہو ،وہ رمضان المبارک میں نفلی اعتکاف ضرور کریں، خواہ ایک دن کا کیوں نہ ہو یا چند گھنٹوں کا کیوں نہ ہو ۔ بالکل محروم نہ رہیں۔

٭ خاص اعمال-: اگرچہ اعتکاف کے لیے خاص اعمال مخصوص نہیں ،لیکن بعض بڑے اجر والے اعمال جن کی عام حالات میں توفیق نہیں ہوتی۔وہ اعتکاف کے دوران ضرور انجام دیں،مثلاً صلاۃ التسبیح، صلاۃ الحاجات، تحیۃ الوضو ، تحیۃ المسجد، نماز اشراق، نماز چاشت، صلاۃ الاوابین، نماز تہجد وغیرہ کا معتکف ضرور اہتمام کرے۔

٭ عورتوں کا اعتکاف -:اعتکاف کی فضیلت صرف مَردوں کے لیے خاص نہیں، بلکہ عورتیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں، لیکن عورتوں کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے،بلکہ ان کا اعتکاف گھر ہی میں ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کے گھر میں جو جگہ نماز کے لیے مخصوص ہے، وہاں اعتکاف کرلیں اور اگر کوئی مستقل جگہ نہ ہو یا مستقل بنائی نہیں جاسکتی ہو یا گھر چھوٹا ہو تو اعتکاف سے پہلے کوئی جگہ متعین کرلیں اور وہاں اعتکاف کرلیں، اب یہاں سے بلاضرورت نکلنا جائز نہیں۔ شادی شدہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے لیے شوہر سے اجازت لے، اگر ایک دفعہ اجازت دے دی تو پھر منع نہیں کرسکتا۔ بیوی اعتکاف جاری رکھے، اگر ناپاکی کا زمانہ اس دوران ہو تو اعتکاف مسنون نہ کرے بلکہ نفلی اعتکاف حسب موقع کرے اگر دوران اعتکاف مسنون ناپاک ہوگئی تو اعتکاف چھوڑ دے ،پاک ہونے کے بعد صرف ایک دن کی قضا کرے۔عورتیں اعتکاف کے دوران سینے پرونے اور چھوٹے موٹے کام کرسکتی ہیں ۔ گھر کے کاموں کے لیے دوسروں کو ہدایات بھی دے سکتی ہیں، مگر خود اٹھ کر نہیں جاسکتیں۔ اگر اعتکاف کی مخصوص جگہ سے بغیر شرعی عذر کے باہر نکلی تو اعتکاف فوراً ختم ہوجائے گا۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ خصوصیت کے ساتھ گھروں میں اعتکاف کا اہتمام کریں، اگر دس دن کا اعتکاف مسنون نہ کرسکیں تو کم و بیش اوقات کے نفلی اعتکاف ضرور کریں بالکل محروم نہ رہیں ۔

الحمدللہ ،آج مساجد میں بڑی تعداد معتکفین حضرات کی ہوتی ہے۔ بعض مراکز پر تو معتکفین کا ہجوم ہوتا ہے اور خواہش کے باوجود جگہ نہیں مل پاتی،یہ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن معتکفین حضرات ان اوقات کو ضائع نہ کریں، خصوصاً نوجوان حضرات باتوں میں یا اجتماعات کی نذر نہ کریں،بلکہ پہلے احکام و آداب سیکھیں اور پھراعتکاف کریں اور اس دوران ملت اسلامیہ،اپنے ملک وقوم کے لیے اللہ کے سامنے آہ و زاری کریں ،آج کل ملک کے بیش تر علاقوں بالخصوص کراچی میں گرمی کی جوشدید لہر ہے،اس میں کمی اور ایسے علاقوں میں بارش کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں۔اسی طرح جو حضرات دین کی محنت کررہے ہیں،اسے پھیلا رہے ہیں یا اس کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔

تازہ ترین
تازہ ترین