• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بینکنگ سیکٹر میں کیرئیر

اعجاز علی خان،اسلام آباد

ہمارے ہاں نوجوانوں اور ان کے والدین کے لیے بہت ضروری ہے، کہ وہ کالج میں مضامین کا چناؤ کرتے وقت اس بات کا بھر پور خیال رکھیں کہ انہیں مستقبل میں کس شعبے کا چناؤ کرنا ہے،تاکہ پوری محنت اور توجہ یکسو ئی کے ساتھ اسی پر لگائیں،جب نسل نو کی صلاحیتیں کسی ایک مقصد پر مرکوز ہوں گی اور وہ اسی منزل کے حصول کے لیے اپنی تمام ترتوانائیوں کا بھر پور استعمال کرےگی، تو کام یاب ہونے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیںکہ ہمارے ملک کی آبادی کا بیش تر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔وقت کے ساتھ لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور بیدار ہو رہا ہے، بڑے پیمانے پر نجی تعلیمی اداروں کے قائم ہونے سے شرحِ خواندگی میں قابلِ ذکر اضافہ ہواہے، والدین اپنے ذاتی اخراجات کو کم کرکے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلواتےہیں، ایک وقت تھا کہ کالج میں مضامین کے انتخاب کے صرف تین آپشن تھے، میڈیکل، انجینئرنگ اور آرٹس، اب دنیا بھر میں تعلیم کے میدان میں متعدد نئے شعبے وجود میں آ چکے ہیں، جن میں بزنس ایڈمنسٹریشن، کامرس اور کمپیوٹر بھی شامل ہیں۔ہمارے ملک میں سالانہ ہزاروں نوجوان ان مضامین میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کرتے ہیں اور پھر ان کی عملی زندگی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، کچھ نوجوان اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں اور باقی اپنی پسند کے کیرئیر میں سروس کی تلاش کے حصول میں سرگرداں ہو جاتے ہیں، مذکورہ بالا مضامین میں تعلیم کی تکمیل کے بعد بینکنگ سیکٹر میں کیرئیر بھی ایک بہتر ین آپشن تصور کیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے بینکنگ سیکٹر میں حیرت انگیز ترقی کی ہے، تقسیم ہند کے بعد مرکزی بینک ا سٹیٹ بینک کے قیام کے وقت پورے ملک میں سارے بینکوں کی برانچوں کی تعداد صرف دو سو تھی اور وہ بھی صرف چندبڑے شہروں تک محدود تھیں،لیکن اس وقت ملک کے شہروں اور دیہات میں برانچوں کی تعداد بڑھ کر ساڑھے چودہ ہزار ہو چکی ہے۔گزشتہ برسوں میں بینکوں کی کارکردگی انتہائی بہتر ہوئی بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، اور بین الاقوامی بینکاری میں نئے اور جدید رجحانات کی وجہ سے اس شعبے نےمثالی ترقی کی ہے، ہمارے ہاں 1980 کے عشرے میں ATM کا آغاز ہوا اور اب پورے ملک میں ان کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہمارا بینکنگ کا نظام متعلقہ تعلیمی قابلیت رکھنے والے نوجوانوں کو بہترین روزگارفراہم کر رہا ہے،بزنس ایڈمنسٹریشن، کامرس اور کمپیوٹر میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے والے طلباء کے لیے بینک کی جاب آئیڈیل تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ ایسے طلبا اپنے مخصوص مضامین کی وجہ سے دوران تعلیم بینک کے طریقہ کار، اس کی سرگرمیوں اور اس کے لائحہ عمل سے بڑی حد تک واقفیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور اس تعلیمی پس منظر کی بنیاد پر بینکوں میں جاب حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے ، بینکوں کو بھی مسلسل ترقی اور نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوںکی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ برانچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتارہتا ہے، پہلے سے موجود برانچ کے کاروبار میں وسعت آتی ہے۔اس طرح نئے اسٹاف کی ضرورت ہمیشہ موجود رہتی ہے، مزید برآں نوجوانوں کے شامل ہونے سے بینک کی مارکیٹنگ بہتر انداز میں ممکن ہو سکتی ہے۔آج کے دور میں بینک کی بیشتر سرگرمیاں کمپیوٹر کے مختلف پروگراموں سے منسلک ہوتی ہیں ، جدید تعلیم سے مزین نوجوان زیادہ بہتر انداز سے ان فرائض کی انجام دہی کا سلیقہ رکھتے ہیں۔مختلف مطالعاتی سروے سے ظاہر ہواہے ،کہ نئے لوگوں کے شامل ہونے سے کسٹمر سروس کے معیار میں بہتر آتی ہے۔ آج کی بینکاری اچھی سروس کی مرہون منت ہے،

تمام بینکوں میں نوجوانوںکے انتخاب کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔عام طور پر نئے افراد کو کیش آفیسر، ٹرینی آفیسر اور مینجمنٹ ٹرینی آفیسر کے طور پر رکھا جاتا ہے، جس کے لیے تحریری امتحان اور انٹرویو کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو بینک کے معیار کے مطابق ہوتے ہیں، انہیں منتخب کر لیا جاتا ہے، ہر سال ہزاروں نوجوان بینکنگ سیکٹر کو جوائن کرتے ہیں۔آج کی جدید بینکنگ میںنوجوان لڑکیوںکا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہ زیادہ مستعدی سے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔بینک میں چوں کہ مالیاتی لین دین، قرضہ جات کی فراہمی، رقوم کی دوسرے شہروں اور ملکوں میں ترسیل اور بے شمار دوسرے متفرق کام انجام دینے ہوتے ہیں اور ایسے فرائض کی انجام دہی میں بڑی احتیاط، توجہ، انہماک اور دانش مندی کی ضرورت ہوتی ہے، تا کہ بینک مالیاتی نقصان سے محفوظ رہے۔وہ نوجوان جو بینکر بن چاہتے ہیں، ان کے لیے برانچ اور بینک کے مختلف دفاتر میں کام کا ماحول بہت آرام دہ اور فرینڈلی ہوتا ہے، ٹیم ورک، آپس میں اعتماد کی فضا اور ایک دوسرے سے تعاون کی وجہ سے نوجوان بہت جلد کام سیکھ جاتے ہیں۔بینک کا سروس ا سڑکچر مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے، ملازمین کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ،ان کی تکنیکی اور مالیاتی مہارت کو بڑھانے پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے، کیوں کہ پروفیشنل افرادی قوت ہی بینک کا حقیقی سرمایہ ہوتی ہے۔بینک اپنے ملازمین کو دیگر اداروں کی نسبت بہتر تنخواہ دیتا ہے،پھر جو نوجوان اپنی صلاحیتوں کا بہتر طور پر مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں کام کرنے کی وجہ سے بینکر کی زندگی اور شخصیت میں کشادگی اور نکھار کی صفات صاف جھلکتی ہیں۔ ہزاروں کسٹمرز سے مسلسل رابطے کی وجہ سے ان کی گفتگو اور اظہار کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ، اسی موثر ذریعہ اظہار کی وجہ سے وہ کسٹمرز کو مطمئن کر لیتےہیں، یاد رکھیں ایک مطمئن کسٹمر نئے لوگوں کو بینک سے متعارف کرانے کا موجب بنتا ہے۔بہترین کسٹمر سروس بینک کے لیے بہت افادیت رکھتی ہے، اپنے کسٹمر کی مالیاتی ضرورتوں کا خیال کرنا، اسے رقم کی سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں پروفیشنل معلومات فراہم کرنا اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کرنا بینکر کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے، یہ ایک قسم کاکسٹمر کا مالیاتی ایڈوائزر ہوتا ہے۔

آج کل کئی نوجوان اپنے دوستوں یا بڑے ، بہن بھائیوں کی دیکھا دیکھی، کسی ایسے شعبے کا انتخاب کر لیتے ہیں، جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ نہیں کر پاتےیا شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ کون سے شعبے کا انتخاب کریں،کیریئر کا انتخاب کرتے ہوئے بینکنگ سیکٹر کی تیزر رفتار ترقی کو بھی دھیان میں رکھیں۔ عام طور سے نوجوان یہ گلہ کرتے ہیں کہ بینک کی نوکری میں اضافی وقت دینا پڑتا ہے، لیکن بینکنگ کے نظام میں چوں کہ دن بھر کے لین دین اور مالیاتی کام کی تکمیل اسی دن کرنی ہوتی ہے، اس لیے کبھی کبھی دیر سویر ہو جاتی ہے۔ دور حاضر میں جس رفتار سے بینکوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس سیکٹر میں ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، کامرس ، بزنس ایڈمنسٹریشن یا اکاؤنٹس کی تعلیم حاصل کرکے آپ بھی اس سیکٹر میں ایک شان دار کیریئر بنا کرملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 

تازہ ترین