عمران احمد سلفی
مکّے کی وادیوں میں جب اللہ کے آخری رسول نبی کریم ﷺ نے توحید باری تعالیٰ کا نعرہ بلند کیا تو مشرکین مکہ آپ ﷺ کی جان کے دشمن ہوگئے۔ قریشِ مکّہ کی شدید خواہش تھی کہ اس آوازِ حق کو ابتدائی مراحل میں ہی دبا دیا جائے، تاکہ کفر وشرک کی نجاست میں ڈوبی ہوئی انسانیت جادۂ مستقیم پر گام زن ہوکر دنیوی و اخروی فلاح و کامرانی سے ہم کنار نہ ہوسکے، پوجا پاٹ کے ساتھ ساتھ ان کی قیادت و سیادت پر کوئی حرف نہ آئے، لہٰذا اسی فلسفے کے تحت کفار مکّہ نے ہادیِ برحق ﷺ کو ہرممکن ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے مشن سے روکنے کی تمام ممکنہ تدبیریں کیں۔ آپ ﷺ کے جاں نثار ساتھیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، مشرکین مکّہ کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے۔ جب کہ اس دوران اسلام کی دعوت مکّے سے باہر مدینہ منورہ میں بھی پہنچ چکی تھی، لہٰذا پیغمبر اسلام ﷺ کو حکم ربانی ہوا کہ اب آپﷺ مدینے (جسے یثرب کہا جاتا تھا) کی طرف کوچ کرجائیں، لہٰذا آپ ﷺ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک رات مکّہ سے مدینے کی جانب ہجرت کے لیے نکل پڑے، جب کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو امانتیں سپرد کرکے اپنے بستر پر لٹادیا۔
مدینہ منورہ پہنچ کر نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو قدرے اطمینان حاصل ہوا کہ کفار کے ظلم و ستم سے نجات حاصل ہوگئی، لیکن یہ سکون عارضی ثابت ہوا، چوں کہ قریش مکّہ بدستور اسلام کو مٹانے کے درپے تھے۔
2ھ رمضان المبارک میں جب کہ بھوک و پیاس کی شدت کے ذریعے اہلِ ایمان کو تقویٰ سے نوازا جارہا تھا کہ مشیت ایزدی نے اپنے پیارے رسول ﷺ اور بے سرو سامان قافلۂ حق کے شہسواروں کو ایک اور آزمائش میں ڈال کر سرخ رُو ہونے کا سامان پیدا فرما دیا۔غزوۂ بدر کے موقع پر اہلِ ایمان جو اس قافلے یا لشکر میں شامل تھے، ان کی کل تعداد 313تھی اور کسی قسم کی جنگی تیاری بھی نہ تھی۔ کسی کے پاس تلوار تھی تو زرہ نہیں تھی اور کسی کے پاس تیر تھا تو کمان نہیں تھی اور جاں نثار بھی ایسے تھے کہ جن کی اکثریت یعنی انصار مدینہ کو جنگ و جدال سے کوئی واسطہ بھی نہ پڑا تھا اور مجاہدین میں نوجوانوں کے علاوہ بوڑھے اور نوعمر بچّے بھی شامل تھے۔
ان حالات میں دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے اور تاریخ انسانی کے عجوبہ روزگار واقعات رونما ہوئے۔ اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے عاجزی و انکساری سے رب کے حضور یوں دعا فرمائی!’’اے اللہ اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو آئندہ تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ آپ ﷺ کی دعائوں کا اثر یہ ہوا کہ رب کائنات نے تسلّی دیتے ہوئے وحی نازل فرمائی کہ: ’’میں تمہارے ساتھ ہوں تم اہلِ ایمان کے قدم جمائو، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔‘‘ (الانفال آیت12) اسی طرح مزید فرمایا کہ ’’میرے حبیب ﷺ پریشان نہ ہوں بلکہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘ (سورۃ الانفال)
ان بشارتوں کے بعد آپ ﷺ شاداں و فرحاں اٹھے اور ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رخ کرکے فرمایا۔ ’’چہرے بگڑ جائیں‘‘ اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی، پھر مشرکین میں سے کوئی ایسا نہیں بچا جس کی دونوں آنکھوں نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی میں سے کچھ نہ کچھ نہ گیا ہو۔ اس کے بارے میں اللہ نے فرمایا:جب آپ ﷺ نے پھینکا تو درحقیقت آپ ﷺ نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جوابی حملے کا حکم اور جنگ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا! ’’چڑھ دوڑو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر، ثواب سمجھ کر، آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور مارا جائے گا اللہ اسے ضرور جنّت میں داخل کرے گا۔‘‘
چناں چہ حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ شروع ہوگیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اہلِ ایمان نے کفار کے مقابل ہتھیار اٹھائے، ورنہ اس سے قبل مسلمان کفار مکّہ کے ظلم و ستم سہتے رہے تھے مگر بوجوہ جوابی کارروائی نہیں کرسکتے تھے۔آج اسلام کی برکت سے وہی لوگ جہاںدیدہ سرداروں کے سر قلم کررہے تھے۔ اسی طرح دیگر سرداران قریش تہ تیغ کردیے گئے اور کچھ خدمت نبوی ﷺ میں پیش کردیے گئے۔ اس موقع پر کئی عجیب و غریب مناظر وقوع پزیر ہوئے۔ ایمان اور کفر کے اس معرکے میں حسب و نسب کی کوئی حیثیت باقی نہ رہی بلکہ دونوں طرف مقابلہ محض ایمان اور کفر کی بنیاد پر ہورہا تھا، گرچہ آپس میں خونیں رشتے داریاں بھی موجود تھیں، تاہم اہل ایمان نے ان تمام رشتوں کو بھلا کر اللہ کے دشمنوں کو جہنم رسید کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ چناں چہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔اہلِ ایمان اس معرکے میں اللہ کے فضل وکرم سے سرخ رو اور کام یاب ہوئے۔ یہ معرکہ مشر کین مکّہ کی عبرت ناک شکست اور اہل ایمان کی فتح مبین پر ختم ہوا۔غزوہ ٔبدر میں آج کے ماحول کے مطابق کئی اسباق موجود ہیں۔ اگرہم آج بھی اسی جذبۂ ایمانی کے ساتھ کفر سے پنچہ آزمائی کے لیے آمادۂ پیکار ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں پھر سے تائید و نصرت الٰہی حاصل نہ ہو۔