مفتی مزمل حسین کاپڑیا
اسلامی تاریخ میں سن 2 ہجری اس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ بہت سے اسلامی احکام اور واقعات اس میں پیش آئے۔ مثلاً تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ خانۂ کعبہ مسلمانوں کا مستقل قبلہ تجویز ہوا اور پھر ماہِ رمضان کے روزے فرض کیے گئے۔دیگر بہت سے احکام میں سے ایک اہم حکم یہ تھا کہ مظلوم مسلمانوں کو قتال کی اجازت دی گئی کہ جنہوں نے مکی زندگی میں کفّار کی تکالیف برداشت کیں، ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، لیکن ان کو اقدام تو کجا، اپنے دفاع میں تلوار اُٹھانے کی اجازت تک نہ تھی۔ حضرت سُمیّہ ؓکو ابوجہل نے برچھا مار کر شہید کیا، حضرت بلالؓ اور حضرت خباب ؓپر کفّار نے مکے کی سخت گرمی میں کیا کیا ستم نہیں ڈھائے، لیکن نہ خود مظلوموں نے اور نہ کسی اور مسلمان نے تلوار اُٹھائی۔ اس لیے کہ بارگاہِ رسالتؐ سے اس کی اجازت ہی نہ تھی۔ صفر 2ہجری میں قتال کی اجازت ملی، لیکن یہ اجازت اس کے ساتھ مشروط تھی کہ اگر کفار ابتدا کریں، تو مسلمانوں کو اس کے جواب میں قتال کی اجازت تھی کہ جو تم سے لڑے، اس سے تم بھی قتال کرو اور جو نہ لڑے، اس سے تم بھی نہ لڑو۔ لیکن اس کے بعد مطلقاً حکم آیا کہ اب کفار ومشرکین سے مقابلہ کرو، چاہے وہ لڑائی کی ابتداکریں یا نہ کریں اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی۔ ارشادِ ربّانی ہے جس کا مفہوم ہے کہ’’تم ان سے قتال کرو، یہاں تک کہ (کفر کا) فتنہ ختم ہوجائے اور اللہ کے دین کی سربلندی ہو۔‘‘
یہ اجازت ذاتی عداوت کا بدلہ لینے اور اپنے ذاتی جذبۂ عداوت کی تسکین کے لیے نہ تھی، بلکہ جہاد وقتال کی اجازت محض اور محض اعلائے کلمۃ اللہ، دینِ اسلام کی سربلندی، خدا کے دینِ حق کو تمام ادیان پر غالب کرنے اور کفر وشرک کے فتنے کی سرکوبی کے لیے تھی۔
قتال کی اجازت کے بعد کفّار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بعض میں آنحضرت ﷺ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ ان جنگوں کو اصطلاح شریعت میں ’’غزوات‘‘ کہاجاتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق ان کی تعداد 27 ہے۔ ان غزوات میں بعض وہ ہیں، جن میں قتال، لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی اور بعض میں مسلمانوں اور کفّار میں دست بدست جنگ ہوئی۔ ان کی تعداد9 ہے۔ ان نو غزوات میں سب سے پہلا غزوۂ بدر ہے۔
سن 2 ہجری ماہِ رمضان المبارک کی 17 تاریخ بمطابق 13 مارچ 624ء جمعۃ المبارک کے دن حق وباطل اور کفر واسلام کا وہ پہلا عظیم الشان معرکہ پیش آیا، جسے اسلامی تاریخ میں ’’غزوۂ بدر‘‘ اور قرآن کی اصطلاح میں ’’یوم الفرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نتائج کے اعتبار سے یہ نہایت اہم ہے۔ اس غزوے میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ اب اسلام ایک قوت بن چکا ہے، جسے مٹانا ممکن نہیں۔
غزوۂ بدر نے کفر واسلام، ہدایت وگمراہی کے فرق کو واضح کردیا، حق وباطل کے درمیان حدِّ فاصل قائم کردی اور اب حق وباطل اور کفر واسلام میں سے کسی بھی راہ کو اختیار کرنے والے کے لیے راستے کا تعین آسان ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بدر کا یہ معرکہ اتنا عظیم الشان ہے کہ تاریخ اسلام کے عظیم ترین غزوات کے لیے یہ اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ذیل میں غزوۂ بدر کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا جارہا ہے، تاکہ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو پیش آنے والے واقعات ہمارے ذہنوں میں تازہ ہوجائیں اور تلواروں کے سائے میں جو نمازِ عشق ادا کی گئی ، اس کی جھلک تصورات کے دوش پر قلب ودماغ میں اتر کر ہمارے اندر جذبۂ عشق اور جذبۂ جہاد کو گرمادے۔ ؎
ہاں دکھادے اے تصور ، پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو
17؍رمضان المبارک کی صبح نبی کریم ﷺ نے جنگ کی تیاری فرمائی۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی رائے سے نبی کریم ﷺکے قیام کے لیے ایک اونچے ٹیلے پر گھانس پھونس اور کھجور کے پتوں سے ایک چھپر تیار کیاگیا۔ یہ چھپر ایک ایسے بلند ٹیلے پر بنایا گیاتھا، جہاں سے پورا میدانِ کا ر زار نظر آتھا تھا۔ یہ دنیا کے سب سے جلیل القدر سپہ سالارؐ کا کنٹرول روم تھا۔
17؍ویں رمضان المبارک سورج کے طلوع کے ساتھ کفرو اسلام کے لشکربھی طلوع ہوئے۔مسلمانوں کی صف بندی کے بعدنبی کریم ﷺ چھپر میں تشریف لے آئے ۔ اتنے میں مشرکین کی فوج نے لات وہُبل کا نعرہ لگایا۔ اگلی صف سے سردارِ لشکر ‘رئیسِ مکہ عتبہ بن ربیع نکلا۔اسلامی لشکر کے آگے کھڑے ہو کر اس نے للکارا ’’جسے موت کی آرزوہو، آگے بڑھے‘‘ تین انصاری صحابہؓ مقابلے کے لیے نکلے ‘عتبہ نے کہا ’’تم ہم سے لڑوگے‘‘ جائو، محمد کے گھر والوں کو بھیجو۔ مسلمانوں کے لشکر سے مہاجرین نکلے اور لشکر اسلام سے یاحیّی یا قیّوم کا نعرہ بلند ہوا۔حضرت حمزہ ؓکے مقابلے میں عتبہ بن ربیع مارا گیا۔ حضرت علی ؓ کے آگے ولید جیسا بہادر پڑا دم توڑ رہاتھا۔ حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے حضرت عبیدہؓ کوسہارا دیا اور شیبہ کو قتل کردیا۔ اپنے تین بڑے بہادروں کو اس طرح ختم ہوتا دیکھ کر مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا اور حق و باطل ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ اب عام جنگ شروع ہوگئی۔ حضرت حمزہؓ ‘حضرت علیؓ ‘حضرت زبیرؓ ‘حضرت ابو دجانہؓ ‘حضرت مقدادؓ ‘اور حضرت سعدؓ جیسے شیر اپنے کچھار سے نکل چکے تھے۔اس دوران جب کہ گھمسان کی جنگ ہورہی تھی، آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لیے ہوئے چھپر کے دروازےپر کھڑے ہوگئے۔حضور ﷺنے جب اپنے اصحاب اور احباب کی قلت اور بے سروسامانی کو اور دشمن کی کثرت اور قوت کو دیکھا تو نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور دیر تک ہاتھ پھیلائے یہی دعا فرماتے رہے کہ ’’اے اللہ، اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین پر تیری پرستش نہیں ہوگی۔اﷲ تعالیٰ نے فتح ونصرت کا جووعدہ فرمایا تھا، اس کو پورا بھی فرمایا۔ مسلمانوںکوفتح ہوئی اور مشرکین کو شکست۔ 70 صنادیدِ قریش جہنم واصل ہوئے اور 70 گرفتار ہوئے۔ ابو جہل کا انصار کے دو نوجوانوں معاذ ؓ اور معوذ ؓ نے سر کاٹا۔ ابو جہل کے علاوہ قریش مکہ کے بہت سے جگر پاروں کو عبرت ناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں میں 14 صحابہؓ کو شہادت نصیب ہوئی۔ ؎
شہادت آخری منزل ہے انسانی سعادت کی
وہ خوش قسمت ہیں مل جائے جنہیں دولت شہادت کی
غزوۂ بدر ایک انقلاب آفریں اور تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اگر اس غزوے میں مسلمانوں کو شکست ہوجاتی تو بنی نوع انسان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔اس فتح سے مسلمانوں کے سیاسی اور ثقافتی اثر ورسوخ میں بھی اضافہ ہوا اور اس طرح اسلامی تحریک کو مدینے سے نکل کر سارے عرب میں پھیلنے کے لیے راہیں مل گئیںاور ایک اہم فائدہ اس فتح سے یہ ہوا کہ قریش کی قدیم تجارتی شاہراہ غیر محفوظ ہوگئی۔ وہ مال واسباب جو اس تجارت کے ذریعے مسلمانوںکے خلاف جنگوں اور ریشہ دوانیوں میں استعمال ہوسکتا تھا، اس پر ایک زبردست چوٹ پڑی اور یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
غزوۂ بدر کے اگر دوسرے رخ کو دیکھا جائے، یعنی یہ کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست ہوتی تو مسلمانوں اور بنی نوع انسان کے لیے کیا مضر اثرات مرتب ہوتے۔اگر مسلمانوں کو شکست ہوجاتی تو انسانیت توحید کی روشنی، رسالت کی ضیاء پاشیوں،آخرت کے قانون جزا وسزا اور قانون عدل وانصاف، آنحضرت ﷺکی رحمۃللعالمینی سے محروم ہوجاتی۔ دنیا امن وسلامتی سے محروم ہوجاتی، دنیا میں علم وحکمت کا احیا نہ ہوتا، ثقافت انسانی میں جمود اور ٹھہراؤ آجاتا، اخلاقِ حسنہ کی تکمیل نہ ہوتی اور انسانیت نہ جانے کب تک شرک وجہالت، ظلم کی تاریکیوں میں بھٹکتی رہتی۔ آنحضرت ﷺ نے میدانِ جنگ میں جو دعا مانگی تھی ’’اے اللہ،اگر یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی، تو پھر قیامت تک تیری پرستش نہیں ہوگی‘‘ اس میں بھی یہی حقیقت مضمر تھی۔
یہ مسلمانوں کی قوتِ ایمانی اور حسنِ اعمال ہی کانتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتے نازل فرماکر مسلمانوں کی غیبی مددکی ۔اللہ کی طرف سے یہ وعدہ کسی وقت اور مقام کے ساتھ مشروط نہ تھا، بلکہ یہ وعدہ ہر مقام اور ہر وقت کے لیے ہے، لیکن ضرور ت صرف اس جذبۂ ایمانی اور اس عشق حقیقی کی ہے، جو اسلام کے دورِ اوّل میں تھا۔