• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں طرز حکمرانی پر صدیوں سے جاری بحث و تمحیص کے بعد آج جمہوریت کو مقبول ترین، قابل فہم اور بہترین نظام حکومت قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ جمہوریت انتقال اقتدارکا شفاف ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندگی کا ایک مکمل فلسفہ ہے، جو افراد کے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی، ثقافتی اور معاشی روابط کو نئے سرے سے استوار کرتا ہے۔ لہٰذا افراد کا جمہوریت کی طرف جھکائو محض اس کے سیاسی تصور کی بناء پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر اس طرز زندگی کا حصول ہے، جو انہیں جمہوریت مہیا کرتی ہے۔ تعریف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عوامی رائے کی حاکمیت کا نام جمہوریت ہے جو قطعی طور پر آمریت اور شہنشاہیت کی ضد ہے۔
وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں 70برس سے جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کہ پاکستان میں لگنے والے ہر مارشل لا نے ملک کو نیا سیاسی لیڈر دیا لیکن افسوس! یہ لیڈر بھی ملک کو جمہوری استحکام دے سکے نہ عوام کے بنیادی مسائل حل ہوئے۔ پھر ان مسائل کی ذمہ داری کوئی سول حکمران لینے کوتیار ہے نہ فوجی۔ مارشل لائوں نے منتخب حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن تو جمہوری حکومتوں نے مارشل لائوں کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس کے باعث ملک آگے بڑھ سکا نہ عام آدمی کے مسائل حل ہوئے۔ لیکن یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ کمزور سے کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے ، تاہم اس مقولے کی بنیاد پر اصلاح احوال کی ضرورت کو پس پشت ڈالنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خامیوں کو چھپانے کے بجائے ان کے ازالہ کی سعی کی جائے، یعنی اپنی کوتاہیوں کے باعث جمہوری نظام میں پیدا ہونے والے نقائص کی بنا پر جمہوریت کو رد کرنے کے بجائے مستحکم جمہوریت کے سفر کوآگے بڑھایا جائے۔
کسی بھی مہذب ملک کے جمہوری ادارے اور جمہوری پارٹیاں قومی اثاثہ ہوتی ہیں، کیوں کہ یہ پارٹیاں دہائیوں کی محنت اور جدوجہد کے بعد عوام میں اپنے پیروکار پیدا کرتی ہیں اور اسی نظریے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ آج پاکستان میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت اپنے سیاسی مخالفین کی نظر میں خواہ کتنی ہی کرپٹ، بدکردار یا نااہل کیوں نہ بہرحال ایک قومی اثاثہ ہیں، جن کے مقلدین کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ طویل سیاسی و سماجی عمل سےگزرنے کے بعد پیدا ہونے والی یہ سیاسی وابستگی ایک دن میں پیدا ہوتی ہے، نہ ہی اسے کسی سرکاری حکم نامے یا مارشل لا آرڈیننس کے ذریعے چشم زدن میں ختم کیا جاسکتا ہے۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آج اگر پاکستان کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ملک میں موجود تمام سیاسی قوتیں جمہوریت کی علامت، انتخابات یعنی اقتدار کی منتقلی کے ذریعہ پر تو متفق ہیں لیکن وہ اپنے رویے سے جمہوریت کا ثبوت دینے سے قاصر ہیں، وہ جمہوریت کی روح یعنی مشاورت کے اصول کے تحت قومی وملکی مسائل پر مل بیٹھنے کو ہی تیار نہیں۔ اور اس غیر جمہوری رویے کو پروان چڑھانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری بھی یہی سیاسی پارٹیاں ہیں جو اپنے نظریات، منشور اور جمہوری روایات کے بجائے شخصیات کی محافظ بن بیٹھی ہیں۔ افسوس! آج ملک کی تقریباً تمام بڑی پارٹیوں میں قیادت اور قائد کے خاندان کی خواہش و مرضی کو پارٹی کا نظریہ قرار دے دیا گیا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں (استثنیٰ کے ساتھ) میں خاندانی آمریت مسلط ہے۔ پارٹی قیادت کا حق صرف اسی خاندان کو ہے جو پارٹی پر قابض ہے۔ عام آدمی یا سیاسی کارکن کو کوئی ایسا راستہ ہی نہیں دیا جارہا کہ جمہوری روایات کے مطابق وہ بھی پارٹی کی قیادت کا سہرا سر پر سجا سکے۔ غریب والدین کا بیٹا اور ایک سیاہ فام استاد امریکا کا صدر بن سکتا ہے، ایک بس ڈرائیو رکا بیٹا لندن کا میئر بن سکتا ہے، لیکن پاکستان میں ایک غریب کے بچے کی سوچ پارٹی اجلاسوں میں نعرے لگا کر ایک معمولی نوکری کے اصول سے آگے نہیں بڑھ پا رہی، کیوں.....؟ کیوں کہ مالی وسائل سے مالا مال افراد نے غریب اور متوسط طبقے کے لئے سیاست کو نوگو ایریا بنا دیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیاسی پارٹیوں نے جمہوری ادارے بننے کے بجائے خود کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنا لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پارٹی انتخابات کے نام پر ایک دھوکہ دیا جاتا ہے، جس سے ہر کوئی باخبر ہے، لیکن بلی کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھا رہتا ہے۔ عام آدمی جمہوریت کو بہترین نظام سمجھنے کے باوجود حقیقی جمہوریت کو دیکھنے اور محسوس کرنے سے قاصر ہے، جس کی بنیادی وجہ بھی انہی سیاسی پارٹیوں کا غیر جمہوری رویہ ہے، تاہم جب کسی خاندانی آمریت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو فوراً اسے جمہوریت کا خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر انہی خاندانی آمریتوں کی کوکھ سے جنم لینے والی پارلیمنٹ آئین اور آئینی اداروں کے تحفظ کے بجائے شخصی، خاندانی اور گروہی مفادات کی محافظ بن جاتی ہے۔ کسی بھی جمہوری ادارے کی مضبوطی، میرٹ اور اہلیت کے بغیر ممکن نہیں، لیکن ہمارے ہاں اکثر سیاسی پارٹیوں میں ٹکٹ کے اجرا سے لے کر نامزدگیوں کے طریقہ کار تک کوئی شفافیت نہیں۔ ایوان بالا (سینیٹ) اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر کسی بھی پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے معاملات شفافیت کو ترس رہے ہیں جو پارٹی منشور اور مشاورت کے بجائے فرد واحد کی صوابدید پر ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کے باعث آئین کا محافظ اور عوام کا منتخب کردہ سب سے بالا دست ادارہ (پارلیمنٹ) آج بے مقصد بحث و تمحیص کاایک کلب بن کر رہ گیا ہے، جس کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کا پارلیمنٹ پر اعتماد کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ یہ آئین کی محافظ بننے کے بجائے اکثریتی پارٹی کے قائد کے خاندان کی محافظ بن چکی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین