• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا بیٹا جب کم عمر تھا اور میں اسے اپناکوئی کام کرنے کیلئے کہتا تھا (جیسے یہ یا وہ پکڑادو وغیرہ) تو وہ کہتا تھا کہ پہلے میجک ورڈ (منتر) بولئے۔ اس کا مطلب ہوتا تھا کہ اگر مجھ سے کام کروانا ہے تو مجھے ”پلیز“ کہہ کر درخواست کرو۔ جب میں یہ کہہ دیتا تھا اور وہ کام کر دیتا تھا تو وہ توقع کرتا تھا کہ میں”تھینک یو“ بولوں گا۔ اگر میں یہ کہنا بھول جاتا تو وہ روٹھ جاتا اور اعلان کر دیتا کہ میں اگلی مرتبہ آپ کا کام نہیں کروں گا۔ ظاہر ہے یہ سارا کچھ اس نے اسکول، ٹی وی اور اپنے اردگر کے ماحول کو دیکھ کر ہی سیکھا تھا۔ میرے لئے یہ ویسا ہی تھا جیسا کہ غالب کے لئے کلیسا میرے آگے تھا۔
امریکی معاشرے میں معاشی حیثیت یا کوئی بھی عمر ہو، سماجی سطح پر ہر کسی کا احترام سب پر واجب ہے۔ مثلاً اگر صدر اوباما وائٹ ہاوٴس کے خاکروب کو بھی پکاریں گے تو انہیں مسٹر یا مس کا لاحقہ لگانا پڑے گا اور اگر ان کے کہنے پر کسی نے کوئی کام کر دیا تو ان کو لازماً تھینک یو کہنا پڑے گا۔ اسی طرح خاکروب صدر کو تو مسٹرصدر ہی کہیں گے لیکن اس کے علاوہ وائٹ ہاوٴس کے بڑے سے بڑے عہدیدار کو ویسے ہی مسٹر یا مس کہیں گے جیسا کہ اسے مخاطب کیا جاتا ہے۔ غالباً یہ روایت پورے مغربی معاشرے میں ہے۔ البتہ اپنے قریبی خاندان کے علاوہ ہر کسی کو نام سے پکارا جاتا ہے، اس روایت کی وجوہات دوسری ہیں جو کبھی پھر زیر بحث لائیں گے۔
ہماری تقسیم ہند یا تخلیق پاکستان کے آس پاس پیدا ہونے والی نسل کی جوانی تک یہ تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا کہ اپنے سے بڑوں کو ان کے نام سے پکارا جائے، ان کی توہین کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔ ہمارے دیہی ماحول میں (جاگیرداروں کے رویّے کے بارے میں کوئی ذاتی تجربہ نہیں) سب سے نچلی سطح کے مرد و زن کو چاچا تایا ‘ماسی چاچی“ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ پیدا ہوتے ہی بچے کی ذہن میں بٹھا دیا جاتا تھا کہ اسے اپنے سے بڑی عمر کے ہر شخص کو عزت سے بلانا ہے۔ اگر نچلی سطح کے نوکروں کو جھاڑ بھی پلانی ہو تو ان کی عمر کو مدنظر رکھ کر لفظوں کا انتخاب کیا جا تھا لیکن ستّر کی دہائی کے بعد جوان ہونے والی نسل کے لئے یہ سب قصہ پارینہ ہے۔
اب زیادہ تر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے سے کم حیثیت اور خاص طور پر نوکروں کے ساتھ نام لیکر اور انتہائی بدتمیزی کے انداز میں بات کی جاتی ہے۔ اپنے سے بہت کم حیثیت کا شخص ہر طرح کے آزار کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ وبا پاکستان کے اونچے طبقے میں پرانی ہے کہ کمتر حیثیت والوں کو ’تو‘ اور ’تم‘ سے بلایا جاتا ہے اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ’آپ‘ ’جناب‘ کہ کر مخاطب ہوں لیکن اب یہ رجحان اور بھی خراب ہوگیا ہے۔ گھریلو کام کاج کرنے والی عمر رسیدہ عورتوں کے لئے مالکان کی دس سالہ بچی بھی ’باجی‘ اور بچہ ’صاحب‘ ہوتے ہیں اور یہ بچے ان دادی یا ماں کی عمر کی عورتوں کو بشیراں اور نذیراں کہہ کر بلانا ہی مناسب سمجھتے ہیں اور یہ ہمارا کعبہ ہے جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اگرغالب کے مصرعے کو سادگی سے ہی سمجھا جائے تو شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے پیچھے پرانے اعتقادات اور روایات ہیں اور آگے انگریز کا نظام ہے جو کہ بالکل نیا اور اجنبی ہے۔ اس وقت ہم پاکستان میں اس نسل (بالخصوص نئے دولتیوں) کا ارتقاء دیکھ رہے ہیں جس کے نہ پیچھے کعبہ نظر آتا ہے اور نہ آگے کلیسا۔ نہ وہ ہند اور عرب و عجم کی روایات کے داعی ہیں اور نہ ہی مغربی تہذیب کے۔ وہ ایک ایسی منزل سے گزر رہے ہیں جس میں مشرق و مغرب کے منفی خصائل جمع ہو گئے ہیں۔ اس لئے اس کالم میں ہمارا مقصد پرانی روایات کی نوحہ خوانی سے زیادہ اس نئے رویّے کی توجیہہ اور اس کے پس پردہ عوامل کو سمجھنے کی کوشش ہے۔
نئی نسل کے اس رویّے کا اظہار ملک کے بڑے رہنماوٴں کی اولاد کے غرور سے بھی ہوتا ہے جو کبھی کبھی ناداروں کی دھلائی تک کروا دیتے ہیں اور کبھی سوشل میڈیا پر پارٹی جیالوں کی بدتہذیبی اور مغلظ زبان سے جس کا ذکر عطاء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں کیا تھا۔ یہ نسل کسی ایک پارٹی یا طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے کونے کونے میں آباد ہے۔ یہ نسل نہ ہی مشرق کی روایات کی پیروکار ہے جس میں بڑوں کی عزت کی جاتی تھی، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور ناداروں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا جاتا تھا اورنہ ہی یہ نسل مغرب کی تہذیب کو بھی ابھی اپنا رہی ہے جس میں بلا معاشی حیثیت کے فرد کی سماجی برابری پر عمل کیا جاتا ہے۔
مغربی تہذیب بھی موجودہ مقام پر کئی صدیوں کے بعد پہنچی ہے۔ اگر آپ پندرہویں صدی کے برطانیہ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو پاکستان جیسا ہی منظر دکھائی دے گا۔ اگر آپ سترہویں صدی کے امریکہ کو دیکھیں تو پورے ملک میں غلامی کا دور دورہ تھا جس میں انسانوں کا بیچا اور خریدا جانا عام تھا۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغرب نسلی یا فطری طور پر ویسا ہی تھا جیسا کہ اب نظر آتا ہے۔ یہ تو صنعتی ترقی، جنگوں اور خیالات کے ارتقاء کا کمال ہے کہ مغرب میں فرد کی اپنی ذات کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے تکریم دی جاتی ہے۔ یورپ جب اس منزل سے گزر رہا تھا جس پر آج کا پاکستان ہے اور مشہور فلسفی فریڈرک نیٹشے جب یہ کہتا تھا کہ ہم نے خدا کو قتل (مٹادیا بھی لکھ سکتے ہیں اگر قتل ہضم نہ ہوسکے) کر دیا ہے اور ہمیں اس کا علم بھی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ ہم نے عقیدے کی بنیاد پر قائم روایات کو ترک کردیا ہے اور ہم نے نئے اسلوب ِحیات بھی نہیں اپنائے۔
پاکستان جیسے بہت سے ملکوں میں پرانے زرعی نظام کے خاتمے اور مشینی پیداوار آنے کے ساتھ ہی ہزاروں سالوں کی روایات دم توڑ رہی ہیں۔ اگرچہ ایک سطح پر بظاہر قدامت پرستی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر آپ روزمرہ زندگی کو دیکھیں توکچھ بھی پرانا نہیں ہے۔آپس کے تعلقات سے لے کر ہر نئے پرانے پیشے کو دیکھئے تو صاف نظر آتا ہے کہ اب راج پیسے کا ہے۔ اسی پیسے کی بنا پر دس سال کی بچی ’باجی‘ بن گئی ہے اور ساٹھ سال کی عورت نذیراں بشیراں۔ بدعنوانیاں، منشیات اور جسم کے دھندے عام ہو چکے ہیں۔ اس وقت دکھائی دینے والی قدامت پرستی ایک چھوٹے سے منظم گروہ کی مرہون منت ہے اور اس قدامت پرستی کے ڈرامے سے زمینی حقیقتیں نہیں بدلتیں بلکہ جتنا جتنا یہ ڈرامہ بڑھتا ہے پرانی روایات اتنی ہی تیزی سے ٹوٹتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پاکبازی کا دعویٰ کرنے والے ہمارے معاشرے میں ہر قدر مسمار کیوں ہو رہی ہو!
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ پرانی زرعی معیشت تو آخر کار ختم ہو گئی لیکن نیا صنعتی معاشرہ معرض وجود میں نہیں آیا۔ ہر شخص اور ہر ادارہ تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہوئے ابہام اور بے یقینی کا شکار ہے۔ ابھی تو ملک مناسب طور پر صنعتی بھی نہیں ہوا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر آبادی فیکٹریوں، ملوں اور شہری کاروباروں سے روزی کما رہی ہو۔ ابھی تک صنعتی پھیلاوٴ محدود ہے اور پاکستان میں ابھی تک زیادہ تر آبادی (بشمول خواتین) بے روزگار یا نیم روزگار ہے۔ مزید برآں اگر معیشت صنعتی بھی ہو جائے تو پرانے خیالات صدیوں تک چلتے رہتے ہیں۔ ابھی تو پاکستانی معاشرہ پرانے طرز زندگی کی توڑ پھوڑ کے عمل سے گزر رہا ہے، ابھی جدید تہذیب کی ثقافت کافی دور ہے۔ ابھی تو بقول منیر نیازی ”اگے وی کجھ نظر نئیں آوندا یاد وی کجھ نئیں رہندا“ (آگے بھی کچھ نظر نہ آتا، یاد بھی کچھ نہیں رہتا)۔
تازہ ترین