ٹیلیگراف کا نقطہ نظر:
برطانوی حکومت کی جانب سے اب تک اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا ہے کہ کسی خراب یا ناقص معاہدے سے بہتر ہے کہ کوئی ایسا بریگزٹ ڈیل یعنی برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا معاہدہ نہ کیا جائے۔جب تھریسا مے جولائی دوہزارسولہ میں وزیراعظم بن گئیں تویہ الفاظ اکثران کی زبان پر ہوتے تھے کہ اگراس معاملے میں پیشرفت اطمینان بخش نہ ہوں تو مذاکرات کی میز سے اٹھ کرچلے جانے کی نظیر یا مثال پیش کی جاتی ہے۔
لیکن اس قسم کی دھونس دھمکی کے لئے خالی خولی جذباتی تقریروں سے آگے بڑھ کر بھی کچھ ہونا چاہئے،مذاکرات میں اچانک اورواضح وقفے کے لئے کچھ تیاریاں کرلینی چاہیں تھیں۔اگرچہ اس ضمن میں بعض تیاریاں کی جاچکی ہیں،جو بے توجہی سے کی گئی ہیں،اورجیسا کہ ہم نے آج رپورٹ دی ہے،محترمہ تھریسا مے وزرأتک کو اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گی ،جو یوں دکھائی دیتا ہے کہ رعاتیں حاصل کرنے کے لئے ان کے استعمال کے مقصد کو ناکامی سے دوچارکرنا ہے۔
جیسا کہ سرایوان روجرز،برسلز میں ریاست متحدہ(برطانیہ)کے سابق سفیر،نے اس جانب اشارہ کیا ہے،اگربرطانوی حکومت اس ضمن میں سنجیدہ ہوتی تو اسے ریگولیٹری باڈیز (نگرانی ادارے)قائم کردینے چاہئے تھے جو یورپی یونین سے اختیارات اپنے ذمہ لینے کے لئے ازحدضروری تھے۔ایسے ادارے قائم ہونے میں برسوں لگتے ہیں اوراس کے لئے قانونی پشت پناہی بھی درکارہوتی ہے،لیکن اب تک اس حوالے سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی قدامت پرستوں نے اب تک صرف یہ تیاری کی ہے کہ انہیں برطانوی حکومت کی چالوں کے ساتھ چلنا ہے،جنہیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگرمحترمہ تھریسا کی حکومت کو وہ گراتے ہیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔اس لیے اب وہ برطانوی وزیراعظم پرزوردے رہے ہیں کہ وہ اپنی دھونس یا دھمکی پر نظرثانی کریں،یہاں تک کہ ان کی یہ باتیں پہلے سے بھی کہیں زیادہ زبانی جمع خرچ ہیں۔
سچ یہ ہے کہ یہ دھمکی اس لمحے بے کارہوگئی تھی جب محترمہ تھریسامے نے گزشتہ سال پارلیمانی اکثریت کو کھودیا تھا۔کیونکہ اسی سے ملتی جلتی باتیں جو دارالعوام کو قابل قبول ہو،غیراہم ہوگئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو سختی کے ساتھ ریگولیٹری اورٹریڈنگ انتظامات کے ایک سلسلے کی جانب دھکیلا جارہا ہے جس نے فرضی یا جھوٹ موٹ اس کی یورپی یونین کی رکنیت کو برقراررکھا ہے لیکن یہ سب سیاسی سطح پر کسی بھی تیاری کے بغیر کیاجارہا ہے۔
ایک اوراہم یورپی سربراہ اجلاس میں صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں ،جس میں بریگزٹ معاہدہ کے آخری مرحلے،خاص طورپر آئرلینڈ کی سرحد کی حیثیت کے بارے میں طے کیا جانا ہے۔
تاش کے اس کھیل میں محترمہ تھریسا مے کے ہاتھ میں صرف ایک ہی کارآمد پتہ رہ گیا ہے جو ’دولت ‘ہے۔ہم اس ضمن میں چالیس ارب پاؤنڈ دینے کا وعدہ کرچکے ہیں،اس کے بغیر یورپی یونین کے بجٹ میں ایک بڑی خلأ رہ جائے گی۔دوسری بات، جو اب پہلے کے مقابلے میں کم سنائی دیتی ہے ،یہ ہے کہ اس وقت تک معاہدہ نہیں ہوتا جب تک تمام شرائظ پر اتفاق نہیں کرلیا جاتا۔ہمیں ایک بارپھر بریگزٹ بندھن توڑنے والے مسودہ قانون کے بارے میں اسے سننے کی ضرورت ہے۔
جی ہاں،برطانوی حکومت سیاسی طورپر کمزورہے،لیکن برطانیہ آئینی اورمعاشی طورپر طاقتورہے۔ظاہری طورپر محترمہ تھریسا مے نہیں چاہتیں کہ برطانیہ اوراس کی پارلیمنٹ کو ایک ایسے خراب یا ناقص معاہدے سے دوچارکردے کہ جس میں ہمارے پاس اسے بھگتنے کے بجائے کوئی چارہ نہ ہو۔اس لیے اس آفت سے بچنے کے لئے برطانوی وزیراعظم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سیاسی دباؤ والے کھیل کو دولت کے بل بوتے پر کھیلیں۔اگریورپی یونین چاہتی ہے،توانہیں اس کے بدلے میں ہمیں مزید کچھ دینے کی ضرورت ہوگی بہ نسبت ان کی جو انہوں نے اب تک پیشکش کی ہے۔