رانا غلام قادر
نگران حکومت نے کام شروع کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیا ہے مگر اب بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا الیکشن2018شیڈول کے مطابق25جولائی کو ہوں گے یا نہیں۔ ہماری قومی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ اس پر ہر وقت ہی بے یقینی کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے یقینی کے سائے میں پانچ سال مکمل کئے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی بے یقینی کا شکار رہی خصوصاً سینٹ الیکشن کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔ اب عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا بازار گرم ہے اور بعض شواہد بھی ایسے ہیں جن سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے بلوچستان اسمبلی میں قرارداد لائی گئی کے الیکشن ایک ماہ کے لئے ملتوی کئے جائیں۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری کو تنازعہ کا شکار کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے ایک حلقے نے الیکشن کے بائیکاٹ کی دھمکی دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ نے بعض انتخابی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دیدیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے تو کاغذات نامزدگی میں پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترامیم کو مسترد کر دیا۔ انتخابی اصلاحات کا قانون حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بہت عرق ریزی کے بعد منظور کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کا حکم آنے کے بعد کاغذات نامزدگی کی وصولی کا عمل رک گیا۔ نگران وزیراعظم جسٹس(ر) ناصرالملک نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا حکم یہ دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے۔ الیکشن کمیشن نے بھی لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے کے بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا ہے جس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ کم ازکم کاغذات نامزدگی کے ایشو کی وجہ سے الیکشن شیڈول متاثر نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کا انتخابی حلقوں کے بارے میں جو بھی فیصلہ آئےگا مگر ایک بات تو طے ہے کہ اب انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت نگران سیٹ اپ کی مدت میں توسیع کی جائے گی اور الیکشن آئین کے مطابق60دنوں میں شاید نہ ہو سکیں۔ الیکشن کمیشن اور نگران وزیراعظم اب بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ الیکشن 25جولائی کو ہوں گے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس کہانی سنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی الیکشن کے التواء کے امکانات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خوفزدہ ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کے باوجود اب بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور امکان یہی ہے کہ پنجاب میں وہ اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) فکری مغالطے کا شکار ہے اس کے قائد نوازشریف ہیں جن کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے ان کا خیال ہے کہ اب انکے اندر ایک انقلابی لیڈر کی روح حلول کر گئی ہے اور وہ ووٹ کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں دوسری جانب پارٹی کے صدر اور انکے بھائی شہباز شریف کی پالیسی قائد کے بیانیہ کے برعکس مفاہمانہ ہے۔ وہ اداروں کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ ٹکرائو سے بچنا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ٹکرائو کی بے لچک پالیسی سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔ اور 2018 کے الیکشن میں کامیابی کے جو امکانات ہیں وہ بھی متاثر ہو جائیں گے ان کا شمالی وزیرستان میں آرمی کیمپ کا دورہ بھی اعتماد کی بحالی کی جانب ایک قدم ہے۔ چین اور ترکی بھی شہباز شریف کی کامیابی کے خواہشمند ہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک پارٹی کے بیک وقت دو لیڈر ہوں اور دو پالیسیاں ہوں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ There is no division in Command یعنی کمانڈ صرف ایک ہاتھ میں ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) صرف اسی صورت میں اب آگے بڑھ سکتی ہے کہ شہباز شریف اپنی گرفت مضبوط کریں۔ نواز شریف پس منظر میں چلے جائیں۔ شہباز شریف کو آزادی سے کام کرنے دیں۔ مسلم لیگ (ن) راولپنڈی اسلام آباد میں دھڑے بندی کا شکار ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی ناراضگی کا ایشو اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود حل نہیں ہوسکا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقامی قیادت دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ افطار پارٹیاں الگ الگ ہو رہی ہیں۔ ٹکٹوں پر تنازعات ہیں لیکن یہ دھڑے بندیاں ختم کرنے کیلئے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی۔ پاکستان تحریک انصاف میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازعات ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 2013 میں پی ٹی آئی کے پاس پورے امیدوار نہیں تھے لیکن اب پنجاب میں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کی ٹکر کی جماعت بن چکی ہے۔ اس کے پاس امیدواروں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں اس کا بہتر مستقبل دیکھتے ہوئے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے سابق ممبران قومی اسمبلی نئے پرچم تلے جمع ہو رہے ہیں۔ تارکین سیاسی جماعتوں کی اب اتنی بڑی تعداد تحریک انصاف میں جمع ہو چکی ہے کہ پارٹی کے نظریاتی کارکن اقلیت میں رہ گئے ہیں۔ صف اول میں نو وارد سیاسی رہنما بیٹھے نظر آتے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے ناموں پر عمران خان نے جس سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے انکا امیج خراب ہوا ہے اور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ حکومت چلانے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ الیکشن 25 جولائی کو ہوں یا کچھ دنوں کے بعد نگران حکومتوں کیلئے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح اپنی غیر جانبدار حیثیت برقرار رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں حکمران رہی ہے۔ ایف آئی اے اب مسلم لیگ (ن) کے اثر سے باہر ہے۔ نیب پہلے ہی آزاد ادارہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے وزراء کے کیسز کھلتے ہیں یا نہیں۔ نیب کورٹ سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف دائر ریفرنسز کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے۔ اس فیصلے کے بھی قومی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے۔ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک بہت اچھی شہرت کی حامل شخصیت ہیں لیکن قوم ان سے یہ ہی توقع رکھتی ہے کہ وہ اور انکی ٹیم عبوری مدت کے دوران گڈ گورننس کی اچھی مثالیں قائم کریں۔ سادگی کو اپنائیں۔ غیر ضروری پروٹوکول سے اجتناب کریں۔اصغر خان کیس پر عملدرآمد بھی نگران حکومت کیلئے ایک چیلنج ہے۔ اخلاقی طور پر نگران حکومت بڑے پالیسی ساز فیصلے نہیں کرتیں کیونکہ یہ منتخب عوامی حکومت کا آئینی حق ہے لیکن بہرحال نگران حکومت بھی آئین کے تحت بنتی ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ اگر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں یا انکوائریز چل رہی ہیں تو انہیں آگے بڑھایا جائے۔ احتساب ایک ریگولر عمل ہے جو جاری رہنا چاہئے البتہ احتساب منصفانہ انداز میں کیا جائے اور بلاامتیاز کیا جائے۔ ایف آئی اے اور نیب کو صرف مسلم لیگ (ن) کو ہدف نہیں بنانا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار رہی ہے یا بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ رہی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں رہی ہیں۔ تحقیقاتی اداروں کو پورے ملک میں کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنی چاہئے تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ مسلم لیگ (ن) کو الیکشن میں ہرانے کیلئے ہدف بنایا جارہا ہے۔ آئینی تقاضا یہی ہے کہ الیکشن 60 دنوں کے اندر کرائے جائیں اور عوام جس کو مینڈیٹ دیں حکومت اس پارٹی کے سپرد کی جائے۔ الیکشن کو ملتوی کرنے کیلئے جواز ڈھونڈے نہ جائیں یا پیدا نہ کئے جائیں۔ اس سے اداروں کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھیں گی ان کی ساکھ خراب ہوگی اسے پری پول رگنگ قرار دیا جائے گا۔ سیاسی بے یقینی بلکہ بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ مایوسی پھیلے گی ملک وقوم کا مفاد اس میں ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ آئین سے ماورایٰ کوئی آپشن نہ سوچا جائے۔ جمہوری نظام میں بہترین جج عوام ہوتے ہیں عوام کو فیصلے کا حق دیا جائے کہ وہ حق حکمرانی کس کو سونپتے ہیں۔ اگر الیکشن 25 جولائی کو ہو جائیں تو یہ تیسری حکومت ہوگی جسے آئین کے مطابق مقررہ وقت پر انتقال منتقل ہوگا۔ اس سے ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام مستحکم ہوگا۔