نوید عصمت کاہلوں
آم موسم گرما کا مقبول ترین پھل ہے جس کو مخصوص خوشبو، لذت، ذائقہ، غذائی اور طبی خصوصیات کے اعتبار سے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی پھل کی بہتر قیمت اور اچھی کوالٹی حاصل کرنے کیلئے باغبانوں کو پھل کی پختگی کے امر کو جانچنے کے علاوہ اس کی بروقت برداشت، درجہ بندی، پیکنگ و سنبھال بارے معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ان طریقہ کار کو اپناتے ہوئے باغبان پھل مقامی و انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت سے اچھی قیمت پر فروخت کر سکتے ہیں۔ جتنی محنت وہ اچھی پیداوار حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں اتنی زیادہ محنت ان کو اپنی جنس کی پختگی کو جانچنے اور مارکیٹ میں لانے کیلئے بھی کرنی چاہیے تاکہ ان کو اپنی پیداوار کا زیادہ منافع مل سکے۔ آم کی فصل کب تیار ہوتی ہے؟ اور صحیح وقت برداشت کیا ہے؟ اس کا جاننا ہر باغبان کیلئے نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر پھل قبل از وقت برداشت کیا جا ئے گا تو یہ صحیح طور پر پک نہیں سکے گا۔
پھل لذیذ نہیں ہوگا، پھل کا صحیح رنگ پیدا نہیں ہوگا اور مارکیٹ میں پھل کے بہتر معیار کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ باغبان شبانہ روز کی محنت کے بعد آم کا پھل حاصل کرتے ہیں اور قدرت بھی اپنی تمام تر خوبیوں کو اس میں شامل کرتی ہے لیکن جب انسانی ہاتھوں کا لمس اس کو ملتا ہے تو یہ اپنی رعنائیاں کھونا شروع کر دیتا ہے۔ باغبان پھل کودرخت سے الگ کرتے ہوئے یہ تصور نہیں کرتے کہ پھل بھی ایک جاندار چیز ہے۔ باغبان آم کے پھل کو درخت سے الگ کرنے کے مرحلے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کے بعد کریں کیونکہ صحیح فیصلہ کرنے پر ہی آم کے پھل کی کوالٹی کا انحصار ہوتا ہے۔
پھول لگنے سے لیکر پھل بننے تک عام طور پر 150-120 دن درکار ہوتے ہیں مگر آم کی مختلف اقسام کیلئے یہ وقت مختلف ہوتا ہے جب آم کا پھل درخت پر پک کر تیار ہو جائے تو اس کی پختگی کو جانچنے کیلئے کچھ مشاہداتی اور سائنسی عوامل پر انحصار کیا جاتا ہے جس میں آم کے کندھوں کے مکمل ابھار، قسم کے مطابق شکل و صورت اور آم کے اندر شکر کی مقدار کو شناخت کرنا ہے۔ جب پھل میں مٹھاس یا شکر کی مقدار 10 سے 12 ڈگری برکس ہوجائے تو آم کا پھل برداشت کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مرحلہ پر آم کو درخت سے توڑ لیا جائے تو پکنے پر آم کی تمام خصوصیات بہتر طور پر نمایاں ہوتی ہیں۔ اگر آم کو برآمد کرنا مقصود ہو تو پھر شکر کی مقدار 8 سے 10 ڈگری برکس ہونی چاہیے کیونکہ اس سے آم کے پھل کی بعداز برداشت زندگی بڑھ جاتی ہے۔ آم کی تمام اقسام ایک جیسی نہیں ہوتیں کیونکہ ان کی جسامت، رنگت، ذائقہ اور خوشبو میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں آم کی برداشت کا موسم ایک ہی قسم کیلئے الگ ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ دونوں صوبوں کی آ ب و ہو ا میں فرق کا ہونا ہے۔ جب کسی بھی آم کو درخت سے الگ کیا جاتا ہے تو اس کی باقی ماندہ زندگی کا انحصار اس کی پختگی کے مرحلے پر ہوتا ہے۔
پختگی کے معیار کو عام طور پر تین مختلف مرحلوں ناپختگی، درمیانی پختگی اور مکمل پختگی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ناپختگی کے مرحلے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پھل کا سا ئز مکمل ہوچکا ہے جو کہ بظاہر صحیح نظر آتا ہے مگر ابھی اس کے اندر گٹھلی کا سائز اور مٹھاس کی مقدار صحیح نہیں ہوتے۔ اگر اس دوران آم کی برداشت کی جائے تو مصنوعی پکائی کے بعد نہ تو پھل کا رنگ صحیح طور پر نمایاں ہوتا ہے اور نہ ہی ذائقہ اور خوشبو کسی کو اپنی جانب مائل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگر اس مرحلہ پر ہم مٹھاس کی مقدار، مٹھاس دیکھنے والے آلے ریفریکٹو میٹر (Refracto Meter) کی مدد سے جانچیں تو معلوم ہوگا کہ مٹھاس یا شکر 8 ڈگری برکس سے بھی کم ہے۔ پختگی کا دوسرا مر حلہ جسے ہم درمیانی پختگی کہتے ہیں آم کی مارکیٹنگ کے لحاظ سے نہایت اہم ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ پھل کو کتنے عرصے تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
اس مرحلے کے دوران توڑا گیا پھل پکنے کے بعد تمام خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر برداشت کئے جانے والے پھل کو سرد خانے میں محفوظ رکھ سکتے ہیں، جو کہ 3 سے 4 ہفتے کا دورانیہ بھی ہو سکتا ہے۔ آم کے برآمد کنندگان کیلئے پختگی کے تمام مراحل کا خاص طور پر درمیانی پختگی کے مرحلے کا علم رکھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ پھل کی ترسیل کے دورانئے کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ پختگی کے اس مرحلے کے دوران اگر پھل کو لمبائی کے رخ درمیان سے کاٹ کر دیکھیں تو گودے کا رنگ بھی پیلاہٹ کی جانب مائل ہوا نظر آتا ہے۔ اگر پھل کو اس مرحلہ پر برداشت کیا جائے تو پکنے کے بعد ہمیں وہ تمام خوبیاں پھل میں ملیں گی جو کہ اس خا ص ورائٹی یا قسم کی حامل ہوتی ہیں۔ پختگی کے تیسرے اور آخری مرحلے میں پھل سو فیصد تیار ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کہ گودے کا رنگ کافی پیلاہٹ کی جانب مائل ہو چکا ہوتا ہے اور پھل کی ڈنڈی کے ارد گرد ابھار پیدا ہو چکے ہوتے ہیں جو کہ آم کی مکمل پختگی کی ایک خاص نشانی ہے۔ پختگی کے اس مرحلے میں برداشت کئے گئے آم کی بعد ازبرداشت زندگی زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ پھل تک براہ راست رسائی حاصل کی جائے، پھل کو ڈنڈی سمیت کاٹ کر تھیلے میں ڈالا جائے اور پھل کوچوٹ لگنے سے ہر حالت میں بچایا جائے۔
اگر پھل کو ڈنڈی کے بغیر کاٹا جائیگا تو ایک سیال مادہ (دھودک) بہہ کر پھل کی سطح پر جم جائیگا۔ پھل خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے جب یہ پھل مارکیٹ پہنچتا ہے تو انتہائی خراب صورت اختیار کر چکاہوتاہے۔ ٭ یہ سیا ل مادہ چھلکے کو بھی متاثر کرتا ہے اور پھل کی متاثرہ سطح رنگ دار یا دھبے دار ہوجاتی ہے جس سے پھل کا معیار گر جاتا ہے۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ بوقت برداشت ڈنڈی 5 ملی میٹر تک پھل کے ساتھ رہنے دی جائے جس کو بعد ازاں کا ٹ کر علیحدہ کر دیا جائے۔ آم کی برداشت کے وقت موسم انتہائی گرم ہوتا ہے جس کا آم کے پھل پر مضراثرہوتا ہے۔ اس لئے باغبانوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پھل کی برداشت صبح کے وقت کی جائے کیونکہ دن کی گرمی کے اثر کو رات کی ٹھنڈک کافی حد تک کم کر چکی ہوتی ہے۔
برداشت کے دوران قینچی کے استعمال سے بہت اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ آم کی سطح پر لگی ہوئی چوٹ آم کے پھل کی کوالٹی کو خراب کر دیتی ہے جس کا پتہ پھل کے پکنے پر چلتا ہے اورپھل ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ توڑے گئے پھل کو باغ کے اندر سایہ دار جگہ پر رکھا جائے کیونکہ سورج کی گرمی سے آموں کی بعد از برداشت زندگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ آم بھی ایک جاندار شے ہے جو کہ زیادہ گرمی کی وجہ سے بہت زیادہ بے سکونی محسوس کرتا ہے۔ اس کی اس حالت کو سکون میں بدلنے کیلئے اس کو فوری طورپر ٹھنڈا کرنا اشد ضروری ہے بے شک اسے اندرون ملک یا بیرون ملک فروخت کرنا مقصود ہو۔ عام طور پر آم کے پھل کو سرد پانی میںٹھنڈا کیا جاتا ہے اوراس کا آسان طریقہ برف سے ٹھنڈے کئے ہوئے پانی کا استعمال ہے۔ اس عمل کے دوران اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آم کے پھل کو برف چھونے نہ پائے ورنہ اس کی اندرونی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں آم کو ٹھنڈا کر نے کیلئے جدید مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آم کا پھل برآمد کرنا مقصود ہو تواس کو سرد خانوں میں ٹھنڈا کرنا نہایت ضروری عمل ہے۔ پھپھوند کی بیماریاں آم کے پکنے کے بعد اس کی کوالٹی کو متاثر کرتی ہیں۔ آم کے توڑے ہوئے پھل کو گرم کئے ہوئے پانی میں ڈبویا جاتا ہے۔ پانی کا درجہ حرارت اور ڈبونے کے وقت کا تعین آم کے سائز اور قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ گرم پانی کا طریقہ (HWT) اس وقت آم برآمد کرنے والے ممالک یعنی فلپائن، برازیل وغیرہ بہتر معیار کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ گرم پانی کا طریقہ صرف ان آموں کیلئے استعمال کرنا چاہیے جو پختگی کے قریب نہ ہوں کیونکہ پختگی کے نزدیک پہنچے ہوئے آموں کو اگر گرم پانی میں ڈبویا جائے تو پکنے کے بعد ان کا معیار خراب ہوسکتا ہے جس میں جلد کی رنگت اور ذائقے میں غیر مناسب تبدیلی زیادہ ہیں۔
پھل کی مکھی سے تحفظ کیلئے گرم مربوط ہوا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ درجہ حرارت اور وقت کا تعین پھل کی قسم اور سائز پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کا کوئی یونٹ تجارتی بنیادوں پر کام نہیں کررہا جبکہ آم پیدا کرنے والے ملکوں میں 26 یونٹ کام کر رہے ہیں۔ جاپان اور امریکہ میں یہ یونٹ تیا ر کئے جا رہے ہیں۔ جاپان کے تیا ر کردہ یونٹ نسبتاً زیادہ جدید ہیں۔