عابد محمود عزام
عیدالفطر کو منانے کے لیے رمضان المبارک کے آغاز سے ہی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ماضی میں اپنے پیاروں، رشتے داروں، عزیزواقارب اوردوست واحباب کو عیدکارڈز ارسال کرنے کی روایت بھی انہی تیاریوں کا حصہ ہوا کرتی تھی، جوجدید ٹیکنالوجی کی نذر ہوگئی ہے۔ جس طرح بچپن کی اور بہت سی یادوں کی مٹھاس آج بھی محسوس ہوتی ہے،اسی طرح عیدکارڈز بھیجنے کی روایت بھی دل ودماغ پر انمٹ نقوش چھوڑگئی ہے، جس کو جب بھی یاد کریں تو محبت، خلوص اوررشتوں کی سچائی کا ایک احساس ہوتا ہے، جو آج ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اساتذہ، دوستوںاورکزنزکو بہت ہی اہتمام کے ساتھ عید کارڈ بھیجے جاتے تھے۔ عید کارڈ کے انتخاب میںتقریباً اتنا ہی وقت صرف کیا جاتا تھا، جتنا کپڑوں کے انتخاب میں ہوتا تھا۔رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مارکیٹوںمیں خصوصی اسٹالز سج جاتے تھے۔ عیدکارڈز کا بہت سے افراد باقاعدہ ریکارڈ رکھتے تھے، نوجوان لڑکیاں عید کارڈز کے ساتھ اپنی کزنز اور سہیلیوں کو چوڑیاں، بریسلیٹ، جیولری وغیرہ بھی تحفے میں دیتی تھیں۔ ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ سب سے منفرد کارڈ خریدے، پھر اُس پر خوب صورت لکھائی میں عید کے حوالے سے اشعار لکھے جاتے تھے، جن میں نوجوان زیادہ تر مزاحیہ اشعار لکھتے تھے ، یہ شعر برسوں تک عید کارڈز پر لکھے جاتے رہے،نوجوان دوستو!شاید آپ کو بھی کچھ شعر یاد ہوں گے۔
گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
آپ سے دوستی چھوڑی نہیں جاتی
……
ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک
دوست ہے میرا لاکھوں میں ایک
اشاعتی ادارے سالہاسال عید کارڈز کی تیاری اور ڈیزائننگ پر کام کرتے تھے۔ اشاعتی اداروں کے درمیان عید کارڈز کی فروخت کے حوالے سے ایک مقابلے کا سا سماں دیکھنے کو ملتا تھا۔ عید کارڈز کی بہتات کے باعث محکمہ ڈاک ان عید کارڈز کی ترسیل کے لیے خصوصی انتظامات کیا کرتا تھا۔رمضان آخری دنوں میں ڈاک خانوں کا عملہ باقی کام چھوڑ کر صرف اور صرف عید کارڈ بذریعہ پارسل/ رجسٹرڈ اور عام ڈاک میں بک کرنے اور رسیدیں کاٹنے میں مصروف عمل ہوتا تھا۔ محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا ،انہیں عوام الناس کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت عید کارڈز کی ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کردیے جائیں۔ کئی نوجوان عید کے دنوں میں کارڈز کے اسٹال وغیرہ لگا کر چند پیسے کمالیتے تھے، لیکن اس روایت کے دم توڑنے سے ان کا عارضی ذریعہ معاش بھی ختم ہو گیا۔عید کارڈ کی روایت کا ختم ہونا مہنگائی کے سبب نہیں، بلکہ افراد میں وہ پہلے جیسی محبت اور روایات ہی نہیں رہیں۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ جائے اور پھر اسے اپنے عزیزوں کو پہنچائے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا، نہ عید کارڈز بھیجنے کا رواج، اب صرف یہ خوب صورت یادیں رہ گئی ہیں۔ وہ صرف کارڈز نہیں تھے، جو ہم اپنے پیاروں کو بھیجتے تھے، بلکہ اس میں چھپا پیار اور خلوص ، جو تیزرفتار زندگی میں اب کہیں کھوگیا ہے، جو ان کارڈز کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا تھا۔ دوسری طرف بھی منتظر پیارے اسی پیار سے ان کارڈز کے ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور جواب میں وہ بھی پیار بھرا کارڈ بھیجتے تھے۔اب صورت حال بہت بدل گئی ہے،لیکن اب عید کارڈز کی جگہ ’’ایس ایم ایس، جدید موبائل ایپ لیکیشن‘‘ نے لے لی ہے، شاید اسی لیے اب تہواروں پر وہ جوش و خروش نظر نہیں آتا جو پہلے ہوتا تھا۔عوام میں اب عید کارڈ بھیجنے کے بہ جائےایس ایم ایس، ایم ایس ، ای میلزپیغامات کے ذریعے عید کی مبارک باد دینے کا رواج قائم ہو گیا ہے۔دور حاضرموبائل فون اور سوشل میڈیا کا ہے، ان تک ہر عام و خاص کی رسائی کی بہ دولت نوجوان انہی ذرائع سے عید مبارک کے پیغامات بھیجنے کو زیادہ سہل اور موزوں سمجھتے ہیں اور عید کارڈ کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔ موبائل فون کمپنیوں نے اپنے صارفین کی سہولت اور زیادہ سے زیادہ نوجوان کو اپنے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کے لیے بہت سے سستے پیکیجز متعارف کروائے، جو برق رفتار ہونے کے باعث عید کارڈزکی نسبت فوری طور پر متعلقہ افراد تک پہنچ جاتے ہیں۔ آج نسل نو کو عید مبارک کہنے کے گرچہ بہت سے ذرائع میسر ہیں، لیکن ماضی میں عید کارڈ کے ذریعے اپنے پیاروں کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کی ،جو خوشی ہوا کرتی تھی، وہ آج مفقود ہو چکی ہے ، جس کی وجہ سے یہ نسل اس خلوص اور جذبہ محبت سے محروم ہے، جو عیدکارڈ کے ذریعے کئی دنوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہوئے ہمارے پیاروں تک پہنچتی اور ہمیشہ یاد بن کر ساتھ رہتی تھی۔