• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہانیاں غیر سیاسی ہوتی ہیںبساط ہند پر سلطنت مغلیہ کا آخری چراغ بری طرح ٹمٹا رہا تھا۔ بادشاہت برائے نام تھی لیکن ٹوٹا پھوٹا بھرم چل رہا تھا اور بہادر شاہ ظفر کے عہد کا مفتی صدر الدین آزردہ ابھی قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز تھا۔ جنگ آزادی زوروں پر تھی جب باغیوں نے تمام علمائے وقت سے جہاد کے فتوی پر دستخط کر الئے۔جو کوئی ٹال مٹول سے کام لیتا یا بحث مباحثہ میں پڑتا، اسے فی الفور موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔ باقی علماء سے فارغ ہو کر یا یوں کہہ لیجئے انہیں فارغ کر کے باغیوں نے جہاد کا یہ فتوی قاضی صدر الدین کے سامنے بھی رکھ دیا جس پر باقی علماء نے ’’فتوی بالخیر‘‘ کے الفاظ لکھ کر اپنے اپنے دستخط ثبت کئے ہوئے تھے۔ مفتی قاضی صدر الدین کو بھی مجبوراً یہی کچھ لکھ کر دستخط کرنے پڑے۔ بغاوت کو کچل دینے کے بعد گوروں کی فوجی عدالت نے دوسرے مجرموں کی طرح صدر الدین سے بھی دریافت کیا کہ کیا یہ دستخط تمہارے ہی ہیں؟ قاضی صاحب نے کہا ’’دستخط تو بے شک میرے ہی ہیں لیکن الفاظ کا بغور مطالعہ فرمایا جائے تو عدالت دیکھ سکے گی کہ ’’فتویٰ بالخیر‘‘ کی جگہ’’ فتویٰ بالجبر‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ ’’بالخیر‘‘ کی خ کا نقطہ نہیں ہے جس کے سبب یہ ’’فتویٰ ٰبالجبر‘‘ ہو گیا یعنی یہ فتویٰ جبراً لیا گیا ہے سو قاضی صاحب کی جان بچ گئی جبکہ باقیوں کو سزائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے کہتے ہیں حاضر دماغی اور حاضر جوابی۔چند طالب علم دریا کے کنارے گروپ کی صورت میں سبق یاد کر رہے تھے۔ قریب ہی ایک غریب ماہی گیر بھی مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ طلبا لفظ’’مخنث‘‘ پر بحث کر رہے تھےکہ اس کا مطلب کیا ہے۔ماہی گیر کے کان میں بھی یہ بات پڑ گئی کہ مخنث اس کو کہتے ہیں جس پر مذکر مونث کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔اتفاقاً کچھ عرصہ بعد ماہی گیر کے جال میں ایک ایسی خوبصورت مچھلی پھنس گئی جس کو حصول داد و انعام کے لئے وہ علاقہ کے نواب کے پاس لے گیا۔ نواب صاحب یہ عجیب و غریب لیکن خوبصورت ونایاب مچھلی دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے ۔ مچھیرے کو بہت سا انعام دیتے ہوئے فرمایا’’اب جلد از جلد اس مچھلی کا جوڑا مکمل کرو ورنہ سزا بھی بہت سخت ملے گی۔‘‘ غریب مچھیرا بری طرح خوفزدہ ہو گیا تو اچانک اسے ’’مخنث‘‘ والی بحث یاد آ گئی تو اس نے ہاتھ جوڑ کر نواب صاحب کی خدمت میں عرض کیا’’حضور! اس مچھلی کی تو اصل خوبی ہی یہ ہے کہ یہ نہ مونث ہے نہ مذکر بلکہ خالصتاً مخنث ہے‘‘ نواب صاحب مزید خوش ہوئے اور مچھیرا نہ صرف سزا سے بچ گیا بلکہ مزید انعام بھی پایا۔ایک بادشاہ نے کسی تیلی سے پوچھا ’’ایک من تلوں سے کتنا تیل نکلتا ہے ‘‘؟ تیلی نے کہا ’’دس سیر‘‘ پھر پوچھا’’ اور دس سیر میں سے کتنا‘‘ تیلی نے کہا ’’ڈھائی سیر‘‘ بادشاہ نے پوچھا ’’ڈھائی سیرمیں سے کتنا‘‘ ؟ تیلی نے جواب دیا’’ڈھائی پائو‘‘ بادشاہ نے پوچھا ’’اب یہ بتائو ایک تل میں سے کتنا تیل نکلتا ہے‘‘ ؟ تیلی نے جواب دیا ’’جس سے انسانی ہاتھ کے ناخن کا سرا تر ہو سکے‘‘ بادشاہ خوش ہوا کہ تیلی اپنا کام خوب جانتا ہے۔ پھر پوچھا ’’دنیا داری سے تو خوب واقف ہو، دین کے علم سے بھی کچھ واقفیت ہے یا نہیں‘‘ ؟ تیلی نے کہا’’بالکل نہیں‘‘ بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا ’’اس کو زندان میں ڈال دو‘‘ تیلی کا بیٹا بھی قریب ہی تھا، اس نے پوچھا ’’حضور میرے والد کا قصور کیا ہے‘‘ ؟بادشاہ بولا ’’تیرا باپ اپنے کام میں تو بہت تیز اور اس کا ماہر ہے لیکن اپنے دین سے بالکل بے بہرہ۔ اسی غفلت کے سبب اسے قید میں ڈالا جا رہا ہے‘‘ حضور! ’’قصور اس کے باپ یعنی میرے دادا کا ہے جس نے اسے علم سے بے بہرہ رکھا ۔ میرا باپ سزا کے لائق تب ہوتا اگر مجھے تعلیم سے دور رکھتا جبکہ یہ اپنا پیٹ کاٹ کر مجھے پڑھا لکھا رہا ہے ‘‘بادشاہ تیلی کے بیٹے کا جواب سن کر بہت خوش ہوا اور تیلی کو رہائی کے ساتھ ساتھ بہت سا انعام دے کر رخصت کیا تاکہ وہ اپنے بیٹے کو بہتر سے بہتر تعلیم دلوا سکے۔قارئین!کہانیاں ختم ہوئیں اور یہ تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ کہانیاںغیر سیاسی ہوتی ہیں۔

تازہ ترین