• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شجرِ سایہ دار، گھنیری چھاوں

رضیہ جوہر

کسی بھی بچّے کی زندگی میں والدین، اُس مکان کی مانند ہوتےہیں، جس کے دَرو دیوار اونچے ہوں،تاکہ دشمن باآسانی نقب نہ لگا سکےاوراُس کی چھت اتنی مضبوط ہوکہ وہ موسم کی چیرہ دستیاں برداشت کرلے، لیکن گھر کے مکینوں پرکوئی آنچ نہ آنے دے۔بلاشبہ ان مقدّس دَر و دیوار کی بنیادوں میں جہاں ماں کی محبّت، دُعائیں اور خدمت گزاری رچی بسی ہوتی ہے، وہیں چھت کی مضبوطی میں باپ کے آہنی اعصاب اور چٹانوں کی سی مضبوطی والے بُلند ارادے بھی شامل ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی ممتا کے اَن گنت روپ ہیں۔ وہ محبّتوں میں اظہار کی قائل ہوتی ہے۔ کبھی بُلند آواز میں اولاد پر صدقے واری ہوکر، تو کبھی اپنی ممتا اشکوں کی صورت بہا کر، کبھی دُعائوں کے سانچے میں ڈھل کر ،توکبھی اولاد کی فلاح و کام رانی کا استعارہ بن کر۔اس کے برعکس شفقتِ پدری کا وصف خاموش گہرے پانی جیسی گمبھیرتا ہے، جو بنا کسی آہٹ کے گرنے والی شبنم کی طرح ہمیشہ اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتاہے۔بہ ظاہر سخت، لیکن اندر سے موم جیسے نرم، حسّاس ، شفیق،محبّت و شفقت کے عظیم پیکر کا مقصدِ حیات اپنی اولاد کو زمانے کے سرد و گرم اور حالات کی سختیوں سے محفوظ رکھنا اور ان کی سلامتی اور خوش حالی کے لیے کوشاں رہنا ہے،اور اس کے لیے اُسے چاہے کتنی ہی صعوبتیں کیوں نہ اُٹھانی پڑیں۔اپنی اس جاں فشانی، خدمات، عنایات کے عوض اُسےاپنے جگرگوشوں سے کچھ خاص غرض و طلب بھی نہیں ہوتی، نہ ہی صلے، ستایش کی چاہ۔لیکن جب ماہ و سال کی مالا جپتے، وقت گزرتا ہے، صحت مند و توانا باپ، حالات کی چکّی میں پِس کر اپنی توانائیاں کھو بیٹھتا ہے، تو یہ ہی لختِ جگر اس تھکے ماندے شخص کی عظمت کو دِل سے ماننے اور اس کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی بجائے نہ جانے اس کی کن کن کمیوں، کوتاہیوں کو وجہ بناکر اس کے سامنے شکوے شکایات کے باب کھولنے لگ جاتے ہیں۔یہ وہی اولاد ہوتی ہے،جوکبھی باپ کی محبّت میں سرشار اُس کے گلے کا ہار بنی رہتی تھی۔تب باپ کا وجود ان کی زندگیوں میں کسی گھنیرے درخت کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اسی اولاد کے قدموں پر کھڑے ہوتے ہی یہی سایہ دار شجر، اپنے ہی گھر میں ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ بن جاتا ہے۔ کسی بات پر باپ کا ٹوکنا، پسند و ناپسند کے معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا،سخت ناگوار گزرنے لگتا ہے۔ باپ کی ہر بات غلط، ہر مشورہ ناقابلِ قبول ہوجاتا ہے۔ زندگی کے اس طویل، تھکا دینے والے سفر میں،کیا کبھی باپ نے لمحے بَھر کو سوچا ہوگا کہ اِک روز ایسا بھی آئے گا، جب وہ بالکل تہی دست و تہی داماں رہ جائے گا ۔

غفلت میں پڑی ، بے فیض اور احسان فراموش اولاد یہ جان لے کہ آج وہ جو کچھ ہے، اُسے معاشرے میں جو باعزّت مقام حاصل ہے، وہ اسی بوڑھے اور دُکھی باپ کے مرہونِ منّت ہے۔ اگر ان کے سَر پر باپ کا سایہ نہ ہوتا، تو وہ بھی کئی یتیم و بے سہارا بچّوں کی طرح زمانے کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوتے اور عُمر بَھر معمولی چیزوں کے لیے ترستے رہتے۔ جن بچّوں کو باپ کی شفقت و تحفّظ حاصل نہیں ہوتا، وہ ساری زندگی ڈرے، سہمے ہی رہتے ہیں۔ خود اعتمادی کا فقدان انہیں کبھی آگے بڑھنے، ترقی ہی نہیں کرنے دیتا کہ باپ کا دیا ہوا حوصلہ اور اعتماد ہی وہ نعمت ہے، جو اولاد کو اس ظالم زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بناتی ہے۔ بلاشبہ، باپ کے احسانات کا قرض کسی صورت ادا نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اولاد اور باپ کے تعلق کو مزید مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے اپنے والد کی قدر کریں۔حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے،’’باپ جنّت کا درمیانی دروازہ ہے۔ اگر تم چاہو، تو اس دروازے کو ضایع کردو یا اس کی حفاظت کرو۔‘‘

تازہ ترین