• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی سیون سربراہی اجلاس میں تلخیاں اور تنقید

جی سیون کے اجلاس کے بعد عام طور پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے مگر اس بار کینیڈا میں ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ سے امریکی صدر ٹرمپ پھر گئے جس پر جرمنی اور فرانس نے امریکی صدر کی مذمت کی ہے، مگر اس پر بات کرنے سے قبل آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ گروپ آف سیون یا جی سیون ہے کیا…؟

جی سیون دنیا کے سات صنعتی طور پر سب سے ترقی یافتہ ممالک کا گروپ ہے۔ اس کی ابتداء جی سکس (G-6) سے ہوئی تھی، جب 1975ء میں فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، امریکا اور برطانیہ نے مل کر یہ گروپ تشکیل دیا تھا۔ اگلے سال یعنی 1976میں کینیڈا کو بھی اس گروپ میں شمولیت کی دعوت دی گئی، جس کے بعد یہ جی سیون بن گیا۔ اس گروپ کے سالانہ اجلاس میں حکومتوں کے سربراہ شریک ہوتے ہیں، چاہے وہ صدر ہوں یا وزیراعظم یا چانسلر۔ فرانس اور امریکا میں صدارتی نظام ہونے کے باعث ان کے صدور شریک ہوتے ہیں،جب کہ جرمنی کے چانسلر اور اٹلی، جاپان، برطانیہ اور کینیڈا کے وزیراعظم شرکت کرتے ہیں اس سالانہ اجلاس میں بین الاقوامی معاشی اور مالیاتی معاملات پر گفتگو کی جاتی ہے۔

1970کے عشرے کے وسط میں ہونے والے اجلاس زیادہ تر تیل کے بحران کے گرد گھومتے تھے،عرب ممالک نے مغربی ممالک پر تیل کی فراہمی روک دی تھی کیونکہ اسرائیل کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی اور وہ 1973کی عرب، اسرائیل جنگ میں عربوں کے خلاف تھے۔

یہ سالانہ اجلاس ہر سال کسی ایک رکن ملک میں ہوتے ہیں۔ ان اجلاسوں کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ عالمی مسائل پر بحث کر کے انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے، گو کہ یورپی یونین بھی اس اجلاس میں شرکت کرتا ہے مگر وہ نہ اس کی سربراہی کر سکتا ہے اور نہ میزبانی۔

جی سیون سربراہی اجلاس میں تلخیاں اور تنقید

یاد رہے کہ یہ سات ممالک اس وقت دنیا بھر کی تقریباً نصف عالمی معیشت کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی ان سات ممالک کی معاشی استعداد پوری دنیا کی معاشی استطاعت کا 50فیصد ہے۔ اجلاس میں ایک کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ کس طرح عالمی معیشت کو کساد بازاری سے بچایا جائے ،جس کے لیےیہ نہ صرف مالیاتی بحران بلکہ نظام زر یعنی مانیٹری سسٹم اور توانائی کے وسائل پر بھی بات کرتے ہیں۔ سربراہی اجلاسوں کے علاوہ وزرائے خزانہ کے اجلاس بھی ہوتے رہتے ہیں جن میں یہ رکن ممالک کی معیشتوں کو بہتر بنانے کے راستے ڈھونڈتے ہیں۔

1980کے عشرے میں جی سیون ممالک سوویت یونین میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر بھی ہوئے اور سوویت یونین کے بحران اور انہدام کے دوران خاصے سرگرم بھی رہے۔ جب 1991میں سوویت یونین ختم ہو گیا اور سوشلسٹ معیشتیں سرمایہ داری کے نقش قدم پر چل نکلیں تو جی سیون ممالک نے ان ممالک کو عالمی معیشت میں ضم کرنے کی کوشش کی اور ان کی مدد کی۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے پانچ سال بعد جب دنیا کو یقین ہو گیا کہ اب روس کا سابقہ سوویت یونین والا نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے اور یہ مکمل طور پر سرمایہ داری کی طرف گامزن ہے تو جی سیون نے روسی صدر کو جی سیون میں شمولیت کی دعوت دی اور اس طرح 1998میں روس اس میں شامل ہو گیا۔

1998میں روس کی شمولیت کے بعد یہ جی ایٹ یا ’’آٹھ کا گروپ‘‘ بن گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ جی سیون میں روس کو شامل کر لیا جائے۔ دراصل وہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد علامتی طور پر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ امریکا، روس کے قریب آنا چاہتا ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو امریکا کے ری پبلکن صدر رونلڈ ریگن کے دور میں سوویت یونین میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا پھر صدر جارج بش سینیٹر کے دور میں سوویت یونین ختم ہوا اور ڈیموکریٹک صدر کلنٹن کے دور میں روس جی سیون میں شامل ہوا مگر صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں ان کی افغانستان اور عراق میں فوجی جارحیت کی روس نے مخالفت کی، گو کہ صدر پیوٹن اس وقت امریکا کے خلاف کوئی فوجی قدم اٹھانے کی حالت میں نہیں تھے مگر روس نے امریکا کی اس جارحیت کو پسند نہیں کیا۔

اس طرح اکیسویں صدی کے سےپہلے عشرے میں امریکا، روس تعلقات ایک طرح کے تنائو کا شکار ہو گئے، پھرامریکہ کے سابق صدر اوباما نے نہ صرف افغانستان اور عراق میں مداخلت کی نوعیت بدل دی اور بہ تدریج اپنے فوجی نکالنے لگے تو امریکا، روس تعلقات بھی بہتر ہونے لگے ،مگر ان کوششوں کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا جب روس کے پڑوسی ملک اور سابقہ سوویت یونین کے صوبے یوکرائن میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔ اس وقت کے یوکرائن کے صدر کی روس حمایت کر رہا تھا اور حزب مخالف کو مغربی ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس تنازعہ کے نتیجے میں یوکرائن کے صدر کو بھاگ کر روس میں پناہ لینی پڑی، جواباً روس نے یوکرائن کے علاقے کریمیاں پر قبضہ کر لیا تھا۔اس کے نتیجے میں جی سیون نے 2014میں روس کو جی ایٹ سے نکال دیا۔یو روس 16سال اس گروپ کا رکن رہنے کے بعد باہر کر دیا گیا۔ 2014سے اب تک ایک بار پھر یہ جی سیون کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اب اس گروپ پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ نئی ابھرتی ہوئی منڈیوں کو شامل نہیں کر رہا اور نہ ہی عالمی معیشت کے باقی نصف کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے 1999میں ایک جی 20تشکیل دیا گیا جس میں جی سیون کے ساتھ ممالک کے علاوہ یورپی یونین اور 12دیگر ممالک شامل ہیں۔ مثلاً چین، برازیل، بھارت، میکسیکو اور جنوبی افریقا وغیرہ۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکی صدر نے یورپ اور امریکا کے باہمی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور مسلسل غصّے کے اظہار کے ساتھ زبانی حملے بھی کرتے رہے ہیں جو ان کی عجیب و غریب شخصیت کا خاصا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے اقتصادی معاون بھی صدر کی حمایت میں بول رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے امریکا کی ’’پیٹھ پر وار‘‘ کیا ہے۔

صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کے باعث حالیہ جی سیون سربراہی اجلاس تلخی کا شکار ہو گیا اور ٹرمپ مشترکہ اعلامیہ سے الگ ہو گئے،ساتھ ہی ٹروڈو پر شدید تنقید کرنے لگے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے انتہائی غیر مہذب زبان استعمال کی اور واپس جاتے ہوئے اپنے طیارے سے ٹویٹر پر بیان داغ دیا جس میں ٹروڈو پر الزام لگایا کہ وہ ایک کمزور رہنما ہیں اور ساتھ ہی بددیانت بھی ہیں۔ اس طرح کے الفاظ عام طور پر سربراہ حکومت استعمال نہیں کرتے۔

ٹروڈو کے مطابق جی سیون کے تمام ارکان نے تجارت سمیت کئی معاملات پر اتفاق رائے سے مشترکہ اعلامیہ تیار کر لیا تھا مگر آخری وقت میں ٹرمپ اپنے مؤقف سے پھر گئے اور خود کو الگ کر لیا۔

دراصل کینیڈا، امریکا کی جانب سے عائد کیے جانے والے درآمدی محصولات کی مخالفت کر رہا ہے اسی لئے جی سیون کے اجلاس کے بعد ٹروڈو نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ وہ یکم جولائی سے امریکا کی 13ارب ڈالر کی برآمدات پر 25فیصد محصول عائد کر دیں گے۔ ٹروڈو نے بڑی عاجزی سے کہا کہ کینیڈا کے لوگ شریف اور نرم مزاج ہیں مگر وہ کسی کے دھکّے برداشت نہیں کریں گے۔ اب امریکا آٹوموبائل کی صنعت پر محصولات لگانے کے درپے ہے کیونکہ کینیڈا، امریکا کے ’’کسانوں اور مزدوروں‘‘ پر محصول عائد کر رہا ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ٹرمپ نے مارچ میں اسٹیل کی درآمد پر 25فیصد اور ایلومینیم کی درآمد پر 10فیصد محصول لگانے کا اعلان کیا تھا جس کی عالمی پیمانے پر مذمت کی گئی تھی۔

صدر ٹرمپ کی ان حرکتوں سے نہ صرف جی سیون بلکہ دیگر ممالک بھی نالاں ہیں۔ امریکا جو، اب تک آزادانہ تجارت کا علمبردار رہا ہے اب پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب تک آزاد تجارت کا فائدہ امریکا کو ہوتا تھا کیونکہ دیگر ممالک صنعتی پیداوار میں بہت پیچھے تھے مگر اب چوں کہ دیگر ممالک بھی امریکا کا صنعتی طور پر مقابلہ کرنے لگے ہیں تو امریکا کو آزاد تجارت میں خسارہ نظر آ رہا ہے۔ یہ تجارتی جنگ دنیا کیلئے اچھی نہیں اور توقع کی جانی چاہئے کہ جلد ہی اس کا کوئی حل نکال لیا جائے گا۔

تازہ ترین