• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کوئی امیدوار پسند نہیں‘ بیلٹ پیپر پر اضافی خانہ شامل کیا جائے

’کوئی امیدوار پسند نہیں‘ بیلٹ پیپر پر اضافی خانہ شامل کیا جائے

کراچی کی ایک شہری ڈاکٹر نتاشا مصطفیٰ نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائرکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بیلٹ پیپر میں ایک اضافی خانہ شامل کیا جائے جس میں ووٹر کی طرف سے اس رائے کا اظہار کیا گیا ہو کہ ’مجھے کوئی امیدوار پسند نہیں ‘۔

درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی جو جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عمر سیال پر مشتمل تھا۔

ڈاکٹر نتاشامصطفی نے ایڈووکیٹ منظور کھوسو کے توسط سے دائر درخواست میںعدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بیلٹ پیپر میں موجود تمام امیدواروں کی فہرست کے آخر میں none of the above کا اضافی خانہ شامل کرنے کی ہدایات جاری کرے ۔

درخواست میں وفاق پاکستان، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صوبائی الیکشن کمیشن کو فریق بنایا ہے۔

عدالت نے درخواست پر الیکشن کمیشن، ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے 21جون کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاہے۔

ڈاکٹر نتاشا مصطفیٰ نےجنگ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ’جمہوریت میں عوام کے پاس سب سے بڑی طاقت ووٹ کی ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی پسند کا امیدوار چنتا اور ایوانوں میں بھیجتا ہے تاکہ وہ عوامی مسائل حل کرسکے ۔ عوامی مسائل حل کرنے کے لئے بہت سے لوگ میدان سیاست میں آتے اور انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تمام امیدواروں کا نام اور انتخابی نشانات پر مشتمل بیلٹ پیر چھاپتا ہے جن میں سے ووٹر اپنی پسند کے امیدوار کے انتخابی نشان پرمہر ثبت کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی بھی امیدوار کو پسند نہ کرتا ہوتو؟۔۔۔ایسی صورت میں بیلٹ پیپر پر ایک خانے کا اضافہ ضروری ہے جس میں درج ہو کہ میں بحیثیت ووٹر کسی بھی امیدوار کو پسند نہیں کرتا۔ اسے انگریزی میں ’نن آف اباو‘ اور مختصراً ’نوٹا‘ کہا جاتا ہے۔ ‘

انہوں نے بتایا ’ دنیا کے کئی ممالک مثلاً بھارت، بنگلا دیش، کینیڈا ، روس اور یوکرائن میں یہ انتخابی اصول و قواعد کا حصہ ہے لیکن ہمارے یہاں اب تک ایسا نہیں ہوا اس لئے یہ مطالبہ پہلی نظر میں عجیب لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس خانے کے اضافے سے سیاسی شعور، اظہار رائے اور جمہوری نظام پر اعتماد بڑھے گا۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا ’مجھ سے اب تک سب سے زیادہ یہی سوال کیا گیا ہے ۔ انتخابی نتائج پر اس سےکوئی فرق نہیں پڑے گابلکہ صحیح امیدوار سامنے آسکیں گے کیوں کہ اگر لوگ اپنے حلقے کے تمام امیدواروں کو ناپسند کرتے ہیں تو کیا وہ انتخابی عمل سے لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ جائیں؟ ایسی صورت میں تو فائدہ پھر انہی امیدواروں کو ہوگا جنہیں عوام کی اکثریت پسند نہ کرے لیکن ان کے ووٹ نہ دینے کی صورت میں ناپسندیدہ امیدوار ہی انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اس لئے اس اضافی خانے کی ضرورت ہے تاکہ صرف عوام کے پسندیدہ اور میریٹ پر اترنے والے امیدوار ایوانوں میں جائیں اور اصل عوامی نمائندے ہی عوامی مسائل کو حل کرسکیں ۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں تو اس خانے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ ‘

ڈاکٹر نتاشا مصطفیٰ نے مزید بتایا’ میرے والد غلام مصطفیٰ لاکھو، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ تھے ۔ انہوں نے تیرہ ، چودہ سال تک اس کےلئے دن رات کام کیا ، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی لیکن ان کے انتقال کی وجہ سے یہ کام رک گیا۔ اس کام کو عوامی مفاد کی غرض سے پورا کرنے کے لئے میں نے پھر سے یہ درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی ہے جبکہ ایسی ہی ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے تاہم وہ میں نے دائر نہیں کی۔ ‘

’ اس سے قبل عابد حسن منٹو کی درخواست پر سپریم کورٹ 2013کے انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اضافی خانہ شامل کرنے کا حکم دے چکی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی بجاآوری کی تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے دباؤ کے سبب اس پر عمل درآمد روک دیا گیا لیکن مجھے اس بار بہت زیادہ امید ہے کہ آئندہ آنے والے انتخابات کے بیلٹ پیپر میں یہ اضافی خانہ ضرورشامل ہوگا ۔ ‘

تازہ ترین