• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان سمیت بیشتر سارک ممالک میں عید منائی جارہی ہے جبکہ سعودی عرب سمیت زیادہ تر اسلامی و عرب ممالک میں جمعہ کے روز عید منائی گئی۔ ان میں ترکی، ایران، مصر، انڈونیشیا اور ملائیشیاجیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ بیشتر غیرمسلم ممالک میں آباد مسلمانوں نے بھی جمعۃ المبارک کو ہی عید منائی جن میں یورپ، امریکہ، کینیڈا سے لے کر آسٹریلیا اور جاپان تک کے ممالک شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وطن عزیز میں حسب ِ روایت اس مرتبہ بھی دو عیدیں منائی گئی ہیں ۔ پشاور کی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس تاریخی مسجد قاسم علی خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی صدارت میں منعقد ہوا اور شرعی شہادتیں موصول ہونے کے بعد انہوں نے جمعرات کی شام یہ اعلان کردیا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں جمعۃ المبارک کو عیدالفطر منائی جائے گی۔ ایران کی مذہبی حکومت نے جمعۃ الوداع کو القدس شریف سےجوڑ رکھا ہے لہٰذا زیادہ تر اسلامی ممالک کا جمعۃ الوداع ایک ہفتہ پہلے گزر چکا ہے جبکہ ہمارا اورہندوستان کا جمعۃ الوداع کل گزراہے۔
بہرحال مسلم امہ میں اس حوالے سے بھی اتفاق رائے نہیں ہے کہ لیلۃ القدر ، جمعۃ الوداع یا عیدین کے ایام کا تعین خدائی معاملہ ہے یا انسانی معاملہ؟ مثال کےطورپر ترکوں کی خلافت ِ عثمانیہ کا جتنا پھیلائو تھا اس میں یہ ممکن نہیں تھا کہ تمام ممالک میں بیک وقت چاند نظر آجاتا یا بالفرض وطن عزیز پاکستان بھی اگر اس خلافت ِ اسلامیہ کا حصہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھاکہ مڈل ایسٹ یا ترکی کے ساتھ یہاں بھی یہ مذہبی تہوار اکٹھے منائے جاسکتے یا بالفرض ایسی کوئی سیاسی صورتحال مسلم امہ میں اس وقت پیدا ہوجائے تو کیا یہ ممکن ہوگا کہ سرکاری طور پر ایک مملکت کے لوگ ایک دن کے لئے ایسی یکجہتی کا مظاہرہ کرسکیں؟ درویش اس ایشو پر بہت کچھ لکھ سکتا ہے اور لکھناچاہتا ہے مگروہ اچھی طرح جانتا ہے کہ فکر تازہ پر مبنی ایسی علمی یا تحقیقی باتیں یہاں ناقابل اشاعت قرارپائیں گی اس لئے ان سے احتراز ہی مناسب ہے۔ اس سے بھی بہتر یہ ہوگا کہ مسلم ریاستیں اس نوع کے معاملات میں اپنے شہریوں کو خود آزادانہ فیصلے کرنے دیں جو کوئی بھی اس طرح کے معاملات جب، جیسے یا جس طرح منانا چاہتا ہے اپنے علم اور ضمیر کی مناسبت سے منائے بس دوسروں کو برابھلا کہنے سے احتراز کرے۔ ہم نے ریاستی سطح پر جبر یا زبردستی کرکے بھی دیکھ لیا ہماری مطلوبہ یکجہتی کا ہما عنقاہی رہا تو آزادانہ رنگارنگی کی خوبصورتی کو خوش دلی سے اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیںہے بلکہ ہمارا تو اپنی ریاست کو یہ مفت مشورہ ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لئے مائی باپ بن کر سوچے۔ کسی معصوم شہری کو اپنے سوتیلے پن کااحساس نہ دلائے۔ ریاست تو ماں ہوتی ہےاور حقیقی ماں کی مامتا تو اپنے کمزور بچوںکو زیادہ سینے سے لگاتی ہے تاکہ وہ احساس محرومی کا شکار نہ ہو جائیں۔ شہریوں کے مذہبی اعتقادات و معاملات کیا ہیں؟ یہ ان کا اور ان کے خالق و مالک کاباہمی تعلق و معاملہ ہے۔
ہمارے ہاں شہریوں کی رہنمائی کے نام پر مداخلت کا شدید پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کی سوچ کے حاملین انسانی حقوق اور آزادیوں کی چھینا جھپٹی کے لئے تمام املاک اور اداروں کوقومیانے کا پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے۔ تمام تر غور و فکر اور تدبر نے ہمیں آج اس منزل پر پہنچا دیا ہے کہ فی زمانہ ریاستوںکو اپنی مداخلتیں کم سے کم تر کردینی چاہئیں اگر کوئی طاقتور گروپ یافرد کسی کمزور گروہ یا فرد پر زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے وہاں تو ریاستی قانون کا ہتھوڑا ضرور حرکت میں آنا چاہئے اور کمزوروں کا سہارا بن کرا نہیں برابر کے باوقار شہری کی حیثیت سے حقوق کا تحفظ دلوانا چاہئے مگر روحانیت یا مذہبیت کے نام پر کسی بھی فرد یا گروہ سے امتیازی سلوک قطعی طور پر ناقابل برداشت گردانا جانا چاہئے۔ ہمارے سماج میں اس وقت جبر اور عدم برداشت کی صورتحال اس قدر خوفناک ہے کہ ہر طاقتور نسبتاً کمزور کا خدا بنا بیٹھا ہے جس کے ہاتھ میں کسی بھی طرح سے طاقت کی لاٹھی آگئی ہے۔ وہ بھینس پر قبضہ کرنا اور بالجبر اپنی حویلی میں لے جانا اپنا پیدائشی حق خیال کرتاہے۔ بلند تر سطح پر جب یہ وتیرہ بطور حق خیال کیا جارہا ہے تو نچلی سطح پر اس کے مفاسد خوفناک صورت میں کیوں سامنے نہیں آئیں گے۔ یوں نتیجتاً نفسیاتی و سماجی سوچیں اس قدر بگڑ جاتی ہیں کہ ایک معصوم نوجوان بچی کو محض اس غصے میں قتل کردیا جاتاہے کہ خود سر لڑکے نے اسے پسند کیا تھا تو اس کمزور نے یہ جرأت کیسے کرلی کہ وہ اس کی پسند کو ٹھکرا دے۔ ہمارے ملک سے جاگیرداری نظام اگرچہ ختم ہو چکا ہے مگر جاگیردارانہ سوچ ہنوز جاری و ساری و حاوی ہے۔ ریاست کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فرد، گروہ یا پارٹی کے انسانی و آئینی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کمزور پسماندہ یا دبے ہوئے طبقات کی طاقت یا ڈھارس بنے اگر وہ ایساکرنے سے قاصر ہے تو پھر اسے ریاست کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔
جمہوریت میں بلاشبہ حکمرانی اکثریتی جماعت کاحق ہوتی ہے مگراس کا یہ مطلب ہرگز نہیںہوتا کہ اقلیت سے ان کے بنیادی انسانی یا آئینی حقوق بھی چھین لئے جائیں۔جمہوریت ہی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ووٹ کوعزت دو یا یہ کہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ جب تک ہم انسانی حقوق کے حوالے سے فرد کی یہ تکریم نہیں مانیں گے عصرحاضر کی مہذب اقوام کے دوش بدوش ترقی کے سفر پر کیسے گامزن ہوسکیں گے؟ ہماری ریاست خواہ مخواہ روحانی یا مذہبی رہنمائی کے دعوئوںمیں الجھنے کے بجائے اپنے عوام کے مادی مسائل و ضروریات ہی پوری کردے تو بڑی بات ہوگی۔ یہاں لوگ بھوک ننگ، بیماری و بے انصافی کے ہاتھوں مر رہے ہیں ۔خداراان مظلوموں کے بنیادی حقوق پر توجہ مبذول فرمائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین