ہم نے ابھی اس زمین کے چھوٹے سے حصہ پر قائم 70سالہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ، بقااور جمہوریت کے لئے اپنی ترجیحات طے کرنے کی محض زبانی بحث میں پاکستانی ’’خلائی مخلوق‘‘ کی اصطلاح کا تازہ اضافہ کیا ہے اور اس کے مفہوم اور معنی بھی کوئی مثبت تاثر نہیں دیتے نہ ہی اس ’’خلائی مخلوق‘‘ کے بارے میں کسی شکل و شناخت کا واضح پتہ چلتا ہے بلکہ صرف پاکستانی تاریخ اور سیاست کی سمجھ رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اشارہ کدھر ہے؟ ہم تو ابھی تک اس ’’خلائی مخلوق‘‘ کی موجودگی، مداخلت، اثر و نفوذ، رول، شکل و شناخت کے بارے میں بھی ذکر و فکر میں الجھے ہوئے اور اختلافات کا شکار ہیں لیکن امریکہ کے سیاسی طور پر متنازع صدر ٹرمپ نے 18جون یعنی عیدالفطر کے تیسرے اور فادر ڈے کے دوسرے روز اپنے ٹوئیٹر جاری کرنے سے پہلے امریکی محکمہ دفاع کے نام اپنے ایک آرڈر پر دستخط کر کے ہدایات جاری کردی ہیں کہ امریکی افواج کے ایک نئے اور مساوی ڈویژن کے طور پر ایک خصوصی ’’خلائی فورس‘‘ (Space Force) قائم کی جائے جو ائیرفورس کا حصہ نہیں بلکہ مساوی اور آزادانہ حیثیت رکھتی ہو۔ صدر ٹرمپ نے اس نئی فورس کا مقصد بھی واضح کردیا ہے کہ امریکی آرمڈ فورسز کی اس نئی چھٹی برانچ کا مقصد خلا میں امریکی برتری کو قائم رکھنا ہے۔ صرف خلا میں امریکہ کی موجودگی کافی نہیں بلکہ امریکی برتری حاصل کرنا ہے۔ امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈنفرڈ نے بھی امریکی صدر کے احکامات ملنے کی تصدیق اور اس پر عمل کی یقین دہانی بھی اسی روز کرا دی ہے۔ تاہم امریکی ملٹری کمانڈ کے بعض اعلیٰ حکام اس اچانک صدارتی حکم اور فیصلے پر حیران ہیں۔ متعدد ماہرین اس بارے میں تحفظات بھی رکھتے ہیں پھر اس ’’خلائی فورس‘‘ کے لئے فنڈز کی منظوری اور فراہمی امریکی کانگریس کا اختیار ہے۔ غرض ’’خلائی فورس‘‘ کے عملی قیام کے لئے ابھی بہت سے مراحل طے ہونا ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے ’’خلائی فورس‘‘ کو امریکی عالمی برتری، حب الوطنی اور قومی مستقبل کی مضبوطی کے نقطہ نظر سے قائم کیا ہے اور اس ’’خلائی فورس‘‘ کے قیام پر اعتراض کرنے والے امریکی جنرلوں اور امریکیوں کا موقف بھی امریکی قومی مفاد پر مبنی ہے۔ امریکی وسائل پر اس قدر زیادہ بوجھ اور اس ’’خلائی فورس‘‘ سے موجودہ امریکی برتری میں کتنا زیادہ اضافہ؟ 1982ء سے ریاست کلوراڈو میں قائم ایئر فورس اسپیس کمانڈ کے تحت 36 ہزار امریکی دنیا بھر کے مختلف حصوں میں خلائی اور سائبر نگرانی کے شعبے میں کام کرنے والے ماہرین دنیا میں امریکی برتری قائم رکھے ہوئے ہیں۔ میزائل سسٹم اور سیٹلائٹ سسٹم کو ایسی معاونت فراہم کر رہے ہیں کہ یہی نظام امریکی برتری کے لئے کافی ہے۔ گویا صدر ٹرمپ کا چاند اور مریخ کے لئے دوبارہ مشن شروع کرنا بھی امریکہ کی عالمی برتری اور تحفظ کو بڑھانے کی کوشش ہے اور معتر فین بھی موجودہ امریکی جنگی نظام کی قوت اور صلاحیت کو امریکہ کی عالمی برتری کو مسلسل قائم رکھنے کے لئے فی الحال کافی قرار دے کر امریکی قومی وسائل کو بچانا چاہتے ہیں۔ قدر مشترک مثبت سوچ اور قومی مفاد ٹھہرا۔ ایک متنازعہ اور سیاسی مخالفتوں میں گھرا ہوا صدر بھی اپنی سیاسی بقا کی جنگ کے ہجوم میں بھی اپنے قومی مفادات اور مستقبل کو اپنے پیش نظر رکھتا ہے۔ امریکی ’’خلائی فورس‘‘ کو امریکی آرمڈ فورسز کے آرمی، نیوی، ائیر فورس، میرین اور کوسٹ گارڈز کے ساتھ ’’خلائی فورس‘‘ کا چھٹا حصہ قائم کرنے کی حمایت اور مخالفت اقتدار کی حرص اور سیاسی رقابتوں پر مبنی نہیں بلکہ دونوں طرف سے امریکی مفاد، قومی وسائل اور قومی مستقبل کے زاویہ نگاہ سے دلائل کے ذریعے حمایت یا مخالفت کی جارہی ہے۔ عالمی امن کو اندیشے لاحق ہوں یا مشرق وسطیٰ میں انسانی تباہی اور اقوام متحدہ میں دبائو اور ویٹو کے استعمال کی راہ اختیار کر رکھی ہو۔ امریکی سیاست دانوں اور فیصلہ سازوں کا مرکزی محور امریکی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ ڈیمو کرٹیک ہوں یا ری پبلکن اقتدار میں ہوں حکمت عملی میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن مرکزی مقصد امریکہ کی برتری اور امریکی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ’’خلائی مخلوق‘‘ کے تصور نے، احتجاج اور الزام تراشی کے منفی ماحول میں ہی جنم لیا ہے لہذا ’’خلائی مخلوق‘‘کسی خوشگواری کی علامت تو نہیں ہوسکتی ہاں! ہمارے بیرونی اور داخلی دشمنوں کے لئے مفیدہے۔ پاکستان میں 30 سال سے زائد براہ راست مارشل لاء اور پس پردہ بعض افرادکا فیصلہ کن رول واقعی ایک تلخ حقیقت ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ آمروں کی حکومتوں میں وزیر، مشیر، ترجمان اور حمایت کرنے والے سویلین سیاست دانوں کا خوشامدی ہجوم ہی ان حکمرانوں کا سیاسی محافظ بن کر فرنٹ لائن رول ادا کرتا رہا ہے۔ پرویز مشرف دور کے کتنے خوشامدی وزیر و عہدیدار پچھلی دو سویلین حکومتوں میں بھی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور آج بھی ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ فوج سے اگر شکایات ہیں تو یہ آپ کی اپنی فوج ہے اور موجودہ حالات میں تو فوج کی اہمیت اور ضرورت بہت زیادہ ہے۔ اندر بیٹھ کر ڈائیلاگ سے ایک دوسرے کی شکایات کا جائزہ لے کر مسائل کو حل کرنے کی روش ڈالیں۔ مخالف پڑوسیوں اور بیرونی دشمنوں کو سازشوں کے مواقع فراہم نہ کریں۔ دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے شہریوں کے تعاون کے بغیر نہ اپنے ملک کا دفاع کر سکتی ہے نہ ہی جنگ میں پیش قدمی کر سکتی ہے۔ لاکھ شکایات کے باوجود خلائی مخلوق کے منفی نام دے کر تصادم کی راہ اختیار کرنا پاکستان کو درپیش مشکلات کے اس دور میں مناسب نہیں۔ میں نے ضیاء الحق دور میں نیویارک میں رہتے ہوئے بھی مارشل لاء کی مخالفت کر کے بہت کچھ برداشت کیا لیکن موجودہ وقت میں پہلے مل جل کر طوفان کے گزر جانے یا تھمنے کا انتظار کر لیں۔ انتشار سے بچ جانے کے بعد اپنے گلے شکوے اور مطالبات بھی پورے کرلیں گے۔ ورنہ نادرا کے ڈیٹا چوری، ایف آئی اے کی دوہری شہریت کے بارے میں امیدواروں کی فہرست اور کوائف لیک کرنے سے جس بد اعتمادی اور انتشار کا آغاز ہواہے وہ کسی بڑی سازش میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ بات کھل کر سمجھ لیں کہ آپ کے بیرونی مخالف نظریں لگائے موقع کی تلاش میں ہیں منصوبہ بندی مکمل ہے۔ الیکشن کے نتائج کے بعد بھی سکون اور امن کو خطرات رہیں گے۔ 1969ء میں ’’غیر جانبدارانہ‘‘ انتخابات کے بعد بھی ملک کے دو ٹکڑے کرنے والے سازشی اور غلط فیصلے کرنے والوں نے اس ملک پر تباہی لاد دی اور بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ 1977ء کے بھٹو دور کے الیکشن کے نتائج کے بعد بھی ڈالرز کی بھرمار، ایجی ٹیشن، سیاسی تصادم، پی این اے اور پھر بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے تمام مراحل بظاہر پاکستانی ہاتھوں سے ہی انجام پائے مگر پس پردہ نظر نہ آنے والے ہاتھوں کی کارگزاری سامنے آچکی ہے۔ اپنوں کو ’’خلائی مخلوق‘‘ قرار دے کر اپنے ہی گھر میں مخاصمت پیدا کر لینا دانش مندی نہیں بلکہ اپنوں سے انتقام کی سوچ ہے۔ ہمارے سیاست دان مہربانی کر کے کبھی پنٹاگان کے فوجی بجٹ اور پنٹاگان کے امریکی سیاسی نظام پر اثر و رسوخ کے بارے میں مطالعہ کر لیں تو اس سے امریکی فیشن کے علاوہ امریکی جمہوریت کے دیگر پہلوئوں سے بھی واقفیت ہوگی۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ’’خلائی فورس‘‘ کا مقصد امریکی برتری، استحکام اور طاقت میں اضافہ ہے۔ یہ ایک عملی پلان ہے۔ ہماری پاکستانی ’’خلائی فورس‘‘ ایک انتقامی طعنہ، زبان کے چٹخارے اور عوام کی توجہ کے لئے اپنوں کے خلاف ہی ایک علامتی نام ہے۔ جو پاکستان مخالفین کے لئے تو ہمت افزائی کا باعث ہے مگر نہ تو پاکستان کے مسائل کا حل ہے اور نہ ہی پاکستان کے انتخابات اور بعد از انتخابات کسی بہتری کا سامان ہے۔ ٹرمپ کی ’’خلائی فورس‘‘ اور پاکستانی ’’خلائی مخلوق‘‘ دو متضاد تصور ہیں، ایک مفید اور دوسرا مہلک۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)